نریندر مودی کے ہندوستان میں موت پر بھی امتیازی سلوک

دادری قتل واقعہ کے ملزم روی سیسوڈیا کی نعش کو قومی ترنگے میں لپیٹ کر اس کو شہید کا درجہ دینے کے بعد یہ بات تو صاف ہوگئی ہے کہ ہندوستانیوں کے خواہ وہ زندہ ہوں یاپھر مردہ ایک بڑا امتیاز پیدا ہوگیا ہے۔محمد اخلاق اور روی سیسوڈیا کا ایک ہی گاؤں بسرا سے تعلق ہے ہے جو صوبے اترپردیش کے ضلع دادری میں ہے۔پچھلے سال گائے کاگوشت رکھنے کے شبہ پر ایک ہجوم نے اخلاق کو بے دردی کے ساتھ پیٹ کر قتل کردیا اور اس ہجوم کی قیادت روی سیسوڈیا کررہا تھااور اس پر ہجوم کو بھڑکانے او راکساکر اخلاق کو قتل کروانے کابھی الزام عائد ہے ۔

پچھلے ہفتے گردوں کے ناکارہ ہوجانے او رسانس لینے میں دشواری کی وجہہ سے روی کی عدالتی تحویل میں موت واقع ہوگئی ۔اور اس کی نعش کو قومی ترنگے میں لپیٹ کر آخری رسومات کے لئے لیاگیا جو عموما مصلح سپاہیوں ‘ پولیس اور سرکاری عہدیداروں کو اعزاز کے طورپر کیاجاتا ہے۔ مرکزی وزیر مہیش شرما اور رکن اسمبلی سنگیت سوم دونوں جو بی جے پی پارٹی سے وابستہ نے روی کے آخری رسومات میں شرکت بھی کی۔آخری رسومات کے دوران بسارا کے لوگوں نے شہیدکے طور پر روی کو اعزاز دیا اورآخری رسومات کے دوران ہندوتوا جہدکاروں نے ہندوایکتا زندہ بعد ‘ ہم سب ہندو ایک ہیں کے نعرے لگائے۔

جبکہ دوسری جانب سے اخلاق کی موت کے بعد اس کے ساتھ کیا ہوا ہمیں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اخلاق کا بے رحمی سے قتل کرنے کے ملزمین کی جانب سے دائرکردہ شکایت کے بعدگاؤ کشی ایکٹ کی مخالفت کاایک مقدمہ اخلاق پر دائرکیا گیا۔ یہاں تک کے اترپردیش حکومت نے بھی اخلاق کے فرج میں رکھے گوشت کی بیف یا میٹ ہونے کی تحقیقات کرانے تک کااعلان کردیااو ررپورٹ کے حوالے سے اعلان کیا کہ وہ بیف نہیں تھا میٹ تھا اور  اخلاق کے ساتھ انصاف کرنے کا بھی تیقن دیا۔قاتلوں کے اصرار پر ایک مہلوک کے خلاف مقدمہ دائرکیاگیا جبکہ ایک قاتل کے آخری رسومات ایک قومی ہیرو کے طور پر انجام دئے گئے۔

اخلاق کے مقدمہ میں ایک بات توثابت ہوگئی ہے کہ اگر آپ ہندوفسطائی طاقتوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں تو آپ کی قبروں کے نشان بھی مٹا دئے جائیں گے۔اخلاق اس قسم قتل عام اور خودکشی کے واقعات کاپہلاشکار نہیں ہے۔حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر روہت ویمولہ پر بھی اینٹی نیشنل ہونے کاالزام عائد کرتے ہوئے تمام ہندوتوا برگیڈ کی طرف سے نشانہ بنایا گیا ۔حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے اے بی وی پی کارکنوں سے لیکربی جے پی ایم پی بنڈارودتاتریہ اور مرکزی ایچ آرڈی منسٹر سمرتی ایرانی بھی اس شامل تھیں۔روہت ویمولہ کی اسکالرشپ منسوخ کرتے ہوئے اسکو ہاسٹل سے بیدخل کرتے ہوئے روہت ویمولہ کو خودکشی کرنے پر مجبور کیا گیا۔روہت ویمولہ کی تمام جدوجہد اس کے دلت ہونے کی وجہہ سے تھی۔

وہ ایک دلت کی حیثیت سے زندہ رہا مارا بھی دلت کی حیثیت سے اپنی خودکش نوٹ کو جئے بھیم پر ختم کیا۔روہت کی موت کے فوری بعد حکومت کی اولین ترجیح روہت ویمولہ کا دلت ناہونا ثابت کرنا رہی۔روہت کی خودکشی کے اصل اسباب کی پردہ پوشی کی سازشیں کی جانی لگی ۔ بی جے پی جنرل سکریٹری مرلی دھر راؤ نے مہلوک ریسرچ اسکالر کو قومی دشمن قراردینے میں تاخیر نہیں کی ۔ یہاں تک کہ ایچ آر ڈی منسٹری کی رپورٹ میں روہت ویمولہ کو دلت قراردینے سے صاف انکار کرتے ہوئے اوی بی سی قراردیا جس کو روہت ویمولہ کی ماں رادھیکا ویمولہ کی جانب سے ایک او رمرتبہ مسترد کردیاگیا۔

ان تمام واقعات سے یہ بات پھر ایک مرتبہ واضح ہوگئی کہ ہندوتوا طاقتوں کی مخالفت کرنے والوں کی نعشوں کے ساتھ بھی وہ آسانی کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں۔سال 2002کاتیسرا واقعہ جو نریندرمودی سے منسوب ہے۔ سابق کانگریس رکن پارلیمنٹ گجرات کے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران احسان جعفری کاگجرات کی گلبرگ سوسائٹی میں ایک ہجوم کے ہاتھوں قتل کردیا گیاتھااور احسان جعفری فسادات متاثرین کی مثال بن گئے تھے۔مرحوم احسان جعفری کی بہادر بیوہ ذکیہ جعفری نے انصاف کے لئے قانونی جدوجہد کا آغاز کیا اور چودہ سال بعد2016میں عدالت نے فیصلہ سنایا کہ احسان جعفری نے بھیڑ پر فائرینگ کی جس کی وجہہ سے برہم ہجوم نے احسان جعفری کا قتل کردیا۔

بی جے پی کی زیرحکومت ریاست میں استغاثہ کی ناکامی اس کی وجہہ رہی جس کے شکار احسان جعفری ہی نہیں رہے بلکہ 68اور لوگوں کی موت بھی اس کی وجہہ رہی ہے۔ایک شہید بھی بدنام ہوا ۔احسان جعفری‘ اخلاق حسین او رروہت ویمولہ کو بازو رکھ کراگر دیکھا جائے تو ہندوتوا فورسس نے 26/11حملے کے شہیدہیمنت کرکرے کو بھی نہیں بخشا۔ جاریہ سال کی ابتداء 2008کے مالیگاؤں بم دھماکوں کی ملزم سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر پر سے تمام چارجس ہٹانے کا جب این ائی اے نے فیصلہ لیا تب رائٹ وینگ کے ہیمنت کرکرے کے خلاف الزمات عائد کرتے ہوئے انہیں اینٹی نیشنل قراردیا ۔دائیں بازو طاقتوں کے ظلم کاشکار جہاں پر روہت ویمولہ احسان جعفری اور اخلاق حسین تھے وہیں پر ہیمنت کرکرے ان کی نظروں میں زیادہ قصور تھے جنھوں نے ہندوتوا طاقتوں کے اصلی چہروں کو بے نقاب کرنے کا کام کیاتھا اس لئے ہیمنت کرکرے کی شبہہ کو خراب کرنا رائٹ وینگ تنظیموں کے لئے بے حد ضروری بھی تھا۔

یہ تمام واقعات ثابت کرتے ہیں کہ ہندو دائیں بازو تنظیمیں ہی کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی کوبھی مثال بناکر پیش کرسکتے ہیں مثلاء روی سیسوڈیا سے لیکر وی ساورکر تک جنھیں ویر (بہادر) کے جھوٹے خطاب سے نواز ا گیا ہے اور جو ان کے مقابل کھڑا ہوگا اس کو بدنام کرنے کی کوئی کسر مذکورہ طاقتیں نہیں چھوڑیں گی۔موجودہ دور میں ہم ایسا ملک میں ہیں جہاں پر روی سیسوڈیا کوشہیدکا درجہ دیا جاتا ہے جبکہ ملک کے ایک حقیقی ہیرو او رشہیدہیمنت کرکرے کو بدنام کرنے کاکام کیاجاتا ہے ۔

جہاں پر احسان جعفری کو 68لوگوں کی موت کا ذمہ دار ٹھرایا جاتا ہے مگر جس شخص سے احسان جعفری نے مدد کی گوہار لگائی تھی وہ ملک کاوزیراعظم بن جاتا ہے۔جہا ں پر کشمیری بچوں کی مذاہمت کو روکنے کے لئے پالیڈس چلاکر اندھا کردیاجاتا ہے مگر کرناٹک او رہریانہ میں احتجاج کرتے ہوئے مظاہرین کو گرفتار کرنے کے بعد ان کے ساتھ بچوں جیسا سلوک کیاجاتا ہے۔ جہاں پرایک گائے کی انسان جو اخلاق کی طرح کسی کا باپ اور کسی کاشوہر ہے سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ جہاں پر ہمیں ایسے ملک کا سامنا ہے جس میں جمہوریت مکمل طور پر ختم ہوگئی ہے۔

بشکریہ کیچ نیوز