شجاعت علی۔آئی آئی ایس
جو لوگ اقدارکی قدرکرتے ہیں قدرت اُن کو بے انتہاتحفوں سے سرفراز کردیتی ہے۔یہ قول شہرافاق موسیقار اے۔آر۔رحمن پر پوری طرح صادق آتاہے۔ پچھلے دنوں جب انھیں چینئی میں واقع حضرت سید موسیٰ شاہ قادری کی عرس شریف میں بحیثیت مہمانِ خصوصی بلاگیا اور اُن سے خواہش کی گئی کہ وہ اونچے شہ نشین پر تشریف رکھیں تو انھوں نے وہاں بیٹھنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ جب صاحب مزار زمین کی سطح پر ہیں تو وہ اونچے مقام پر کیسے بیٹھ سکتے ہیں ؟ اس واقعہ کو اگر حضرت ابوہریرہؓ سے مروی حدیث شریف کے پس منظر میں دیکھا جائے تو ان کا یہ عمل بے حد قابل احترام ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’بے شک اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جو میرے ولی سے دشمنی کرے میںاُس کے خلاف اعلانِ جنگ کرتاہوں، میرا بندہ فرائض سے بڑھ کر کسی محبوب شئے سے میرا قرب حاصل نہیں کرتا ۔ میرا بندہ مسلسل نوافل کے ذریعہ میرے قریب ہوجاتاہے یہاں تک کہ میں اُسے محبوب بنالیتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے میں اُس کے کان ہوجاتاہوں،میں اُس کی آنکھ ہوجاتاہوں، جس سے وہ دیکھتا ہے اور میں اُس کے ہاتھ ہوجاتاہوں ،جس سے وہ کسی شئے کو پکڑتا ہے۔ اگر مجھ سے سوال کرتاہے تو میںاُسے ضرور بہ ضرورعطاکرتاہوں، اگر پناہ طلب کرے تو میں اُسے پناہ دیتاہوں(صحیح بخاری -ج اص ۹۶۳) حضرت ابوہریرہ سے ایک روایت یوں بھی ہے کہ حضور مکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو چاہتاہے تو حضرت جبرئیل کو ندا فرماتاہے کہ وہ فلاں بندے کو محبوب رکھتاہے تم بھی اسے محبوب رکھو۔آسمان والے اُس کو چاہتے ہیں، پھر اس کے بعد زمین میںاُ س کی مقبولیت رکھی جاتی ہے صحیح بخاری کی اس حدیث سے پتہ چلتاہے کہ یہ محبت اللہ کی طرف سے مخلوق کے دلوں میں پیدا کی جاتی ہے۔اس حدیثِ مبارکہ سے اولیاء کرام کی عظمت کا ثبوت ملتاہے ۔ آخرت کی زندگی کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ’’خداکے بندوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو انبیاء ہیں نہ شہداء مگر قیامت کے دن ان کے مدارج پر انبیاء و شہداء کو بھی رشک ہوگا صحابہ اکرام نے آقائے دوجہاں سے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ہمیں بتائیے کہ وہ کون لوگ ہیں؟آپ نے فرمایا یہ وہ قوم ہے کہ بغیر کسی رشتہ داری کے اور بغیر کسی مالی لین دین کے صرف اللہ کی رحمت یعنی اس کے دین کی وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرتی ہے۔ آپ نے پھر کہا خدا کی قسم ان کے چہرے پُر نور ہوں گے اور وہ نور کے اوپر ہوں گے جب سب لوگ ڈر رہے ہوں گے ، وہ لوگ بے خوف ہوں گے اور جب سب لوگ غمگین ہوں گے وہ غموں سے پاک ہوں گے۔اس کے بعد نبیٔ مکرم ﷺ یہ تلاوت فرمائی الاان اولیاء اللہ لاخوف علیھم ولاھم یحزنون۔
حضرت سید موسی شاہ قادری کا مزارِ مبارک چینائی کی معروف شہرراہ مونٹ روڈ پر واقع ہے۔ آپ سینکڑوں سال پہلے لوگوں کو حق کی راہ دکھلانے کے لئے بغداد سے ہند تشریف لائے اور مختلف علاقوں کے دورے کے بعد مدراس شہر کو اپنامسکن بنالیا ۔بتایا جاتاہے کہ ۱۸۵۷ء ایک برطانوی انجینئر نے سڑک کی توسیع کے احکامات جاری کئے تھے جس کی رو سے حضرت سید موسیٰ شاہ قادری کی مزارِ مبارک کو شہید کیا جانے والاتھا، سبّل مزارِ شریف پر لگنے ہی والا تھا کہ مزار اپنی جگہ سے ہٹ گئی اور ترچھی ہوگئی چنانچہ آج بھی یہ مزارِ شریف ترچھی ہی ہے۔ سبّل کی دوسری مار جب زمین پر لگی تو زمین سے تازہ خون نکلنے لگا اُس دور میں جب ڈاکٹروں نے خون کا معائنہ کیاتو اس بات کا انکشاف ہوا کہ یہ خون زندہ انسان کا ہے۔چنانچہ مزارِ شریف کو ویسے ہی چھوڑ دیا گیا ۔ آپ کی ایک اور کرامت جو شہر کے بچے بچے کی زبان پر ہے وہ یہ ہے کہ سارے شہر میں سیلاب کے سبب اندھیرا ہوگیا تھا مگر آپ کی مزار پر لگی ہوئی لائٹ چالو تھی ۔ یہ واقعہ ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۴۳ء کا ہے جب شہر مدراس میں زبردست بارش کے سبب سیلاب نے بہت بڑا قہر بپاکردیاتھا پورے شہر میں پاور سپلائی پوری طرح متاثر ہوگئی تھی مگر آپ کے مزار پر لگی ہوئی لائٹ حسبِ معمول روشن تھی۔یہ واقعہ The Fort Saint George gazette میں شامل کیاگیا ہے۔ بتایاجاتاہے کہ صندل شریف کے دن آپ کی مزارِ مبارک میں ایک چاندی سے بنا چاند لٹکایا جاتاہے جو کسی روز چوری ہوگیادوسرے دن ایک بڑھیا نے وہ چاندی کا چاند لاکر واپس کیا اور کہا کہ اس کا بیٹا اسے چرالایا تھا لیکن وہ درد شکم کے سبب رات بھر تڑپتا رہا اس کی ماں نے جب وہ چاند درگاہ شریف کو لوٹادیا تو لڑکے کے پیٹ کا درد بھی فوراً ختم ہوگیا۔بات بزرگوں کے تئین موسیقار اے۔آر ۔رحمن کے ادب سے شروع ہوئی لیکن سچائی یہ ہے کہ بزرگوں کی تعظیم بچوں سے پیار مظلوموںکی مدد سچائی سے محبت جھوٹ اور بناوٹ سے نفرت بری لعنتوں سے چٹکارہ اور فطرت کا تحفظ ہی دراصل تمام مذاہب کی بنیاد ہے اور یہی وہ سب سے بڑی وجہ ہے کہ لوگ بلاتفریق مذہب و ملت ان صوفیوں کی مزارات پر حاضری دے کر فیوض پاتے ہیں۔ ہندوستان کی مختلف ریاستوں کی طرح تمل ناڈو بھی ایک ایسی پُرکشش سرزمین ہے جہاں پر صحابیٔ رسول ﷺ سیدنا حضرت تمیم انصاری کے ساتھ ساتھ حضرت ٹیپواولیاء، حضرت شیخ سلطان حضرت موتی بابا ، حضرت فتح شاہ مستان قادری ، حضرت عبدالرحیم شیرشاہ قادری ، حضرت نیلم بادشاہ، حضرت سید شاہ مرتضیٰ بادشاہ قادری ، حضرت سید میراں شاہ ولی اللہ ، حضرت سید شاہ برہان الدین قادری ، حضرت سید شاہ علی ، حضرت نذر ولی ، حضرت سید شاہ حمید ، حضرت شیخ مقدوم قادری ،حضرت قادر ولی ناگوری، بحرالعلوم حضرت عبدالعلی محمد ، حضرت قاضی بدردولہ ، حافظ سیدحبیب المعروف حسن مولانا بغدادی، حضرت بدرالدین ، حضرت حافظ حسین قادری، حضرت یوسف اولیاء، سید شاہ عبدالقادر مہرباںفقری، حضرت سیدشاہ قاسم حسینی قاسم ، مولوی محمد غوث ، حضرت سلطان سید ابراہیم شہید، حضرت شیخ ناصر ، حضرت سلطان سید شاہ عبدالرحمن ، حضرت سید حیات بادشاہ قادری، حضرت محمد صفدر حسین علی شاہ اور حضرت حسینہ بیگم رحمۃ اللہ علیہ جیسے بزرگانِ دین آرام فرمارہے ہیں۔ان اولیاء اکرام کی عبادات ریاضات کشف وکرامات اور وہ حُسن سلوک ہی ہے جس کے سبب اس ریاست میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اس ریاست کی روح ہے۔ پروفیسر مرحومہ سیدہ جعفر نے لکھا تھا کہ ’’جنوبی ہند اُجالوں کا دیس ہے اور یہاں فضاؤں میں صدیوںسے صوفیوں کا سرمدی نغمہ سناجاتا رہا ہے اور ہدایت کی شمع جگمگاتی رہی ہیں‘‘ ۔حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی شخصیت جناب محمد بلال نے تمل ناڈو کے اولیائے اکرام کے بارے میں ۱۹۹۸ء میں ایک کتاب تالیف کی تھی جس کی جتنی ستائش کی جائے کم ہے ۔وہ تمام لوگ جو اس طرح کا نیک کام کرتے ہیں بے حد مبارکبادیوں کے مستحق ہیں۔اگر ہم اولیاء اکرام کی باتوںکو اور ان کے عمل کو اپناتے ہیں تو یقین جانئے کہ ہمارا بگڑتا ہوا فرسودہ مزاج بدلے گا ۔اولیاء اکرام سچے عاشق رسول ہوتے ہیں اور نبی کے صدقے میں انھیں دین اور دنیا کی دولت حاصل ہوجاتی ہے جسے وہ اللہ کی مخلوق میں بے انتہا خلوص کے ساتھ تقسیم کردیتے ہیں۔نبی کا ذکر نبی کی یاد انھیں دوسروںکے مقابلہ میں افضل بنادیتی ہے۔ اس پس منظر میں بس یہی بات کہی جاسکتی ہے کہ
نبی ؐ کا ذکر سنتے ہی بدل جاتی ہیں تقدریں
یہ سچا رازصوفی نے شجاعت پر اُتارا ہے