حلیم بابر
جناب نادر المسدوسی صدر بزم علم و ادب حیدرآباد کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ۔ وہ شہر حیدرآباد و اضلاع میں اپنا منفرد و بلند مقام رکھتے ہیں، ایک طویل مدت سے دنیائے علم و ادب سے وابستہ ہیں ۔ موصوف کا وطن محبوب نگر ہے ، والد جناب علی المسدوسی پیشہ کے اعتبار سے مدرس تھے ۔ انھیں شعر و ادب سے کافی لگاؤ تھا ۔ وہ ایک اچھے نعت گو شاعر بھی تھے ۔ بچپن میں اپنے والدین کے ساتھ حیدرآباد منتقل ہوگئے اور تاحال محلہ مغل پورہ میں اپنے آبائی مکان میں مقیم ہیں ۔ نادر المسدوسی پر بچپن میں ہی پولیو کا حملہ ہوا اور وہ جزوی طور پر معذور ہوگئے مگر وہ اپنے بلند عزائم اور والدین کی صحیح رہبری کے سبب تعلیمی میدان میں آگے بڑھتے رہے ۔ ایم اے اور ایم فل کے بعد پی ایچ ڈی میں قدم رکھا اور کامیاب رہے ۔ نادر المسدوسی اپنی اعلی صلاحیتوں کی بنا ہر عنوان پر موثر انداز میں تقریر کرتے ہیں ۔ سیرت النبیؐ کے بڑے بڑے جلسوں میں موصوف کی خطابت ہوتی ہے آپ کا انداز تخاطب پُراثر و پرکشش ہوتا ہے ۔
نادر صاحب کے مضامین و کلام رسائل اور اخباروں میں شائع ہوتے ہیں ۔ بزم علم و ادب کو فعال بنانے میں موصوف کی کارکردگی قابل تحسین ہے ۔ نادر صاحب ایک اچھے مقرر ہیں ، اپنی تقاریر میں وہ ہمیشہ ملی مسائل کو حل کرنے بعد اسلامی تعلیمات پر عمل آوری کی تلقین کرتے ہیں ۔ موصوف کے برادر نادر المسدوسی نے ضلع محبوب نگر میں ایک عظیم الشان مسجد تعمیر کی ہے ۔ جس کے نائب متولی نادر المسدوسی ہیں ۔ نادر المسدوسی کو شاعری ورثہ میں ملی اسلئے ان میں جذبہ اشتیاق بڑھتا رہا اور میدان شاعری میں وہ آگے بڑھتے گئے ۔ ممتاز شاعر حضرت اثر غوری سے تلمذ حاصل کرتے ہوئے اپنا مقام بنایا ۔ طرحی و غیر طرحی مشاعروں میں پابندی سے شرکت کرتے ہیں ۔ جناب نادر ایک ہمدرد ، ملنسار ، وضعدار و سادہ لوح انسان ہیں ۔ انکساری و سادگی سے ملنا ان کی اعلی ظرفی کا مظہر ہے ۔ نادر المسدوسی کی پہلی کتاب ’’تفہیم القرآن‘‘ 2000 ء میں شائع ہوئی ۔ اس کے بعد دوسری کتاب ’’عکس محبوب نگر‘‘ کے نام سے 2005ء میں شائع ہو کر کافی مقبول ہوئی ۔ اس کتاب میں محبوب نگر کی سو سالہ تاریخ کی روشنی میں حالات محبوب نگر ، شاعری ، ادیبوں اور دانشوروں پر تبصرے بڑی دلنوازی و دانشوری کے ساتھ تحریر کئے گئے اور اس طرح یہ کتاب ایک دستاویزی حیثیت کی حامل بن گئی ۔ تیسری کتاب ’’فکر و آگہی‘‘ کے نام سے 2006 میں شائع ہوئی جس میں ان کے تحریر کردہ مضامین کو شامل کیا گیا ہے ۔ چوتھی کتاب ’’گلدستہ شخصیات‘‘ کے نام سے شائع ہو کر کافی مقبول ہوئی اور پانچویں کتاب ’’روشنی کا سفر‘‘ کے نام سے منظر عام پر آگئی جس میں نثری و شعری کتابوں پر تحریر کردہ تبصرے شامل ہیں ۔
اور سال حال چھٹویں کتاب ’’دل کہتا ہے‘‘ ہے جو شاعری پر مشتمل ہے جس میں اردو کی بلند و ممتاز شخصیتیں ڈاکٹر عقیل ہاشمی ، ڈاکٹر فاروق شکیل ، حمید الظفر کے سیر حاصل تبصرے اس کتاب کی عظمت و اہمیت کا ثبوت پیش کرتے ہیں ۔ نادر المسدوسی کی اعلی علمی و شعری سرگرمیوں کے پیش نظر بزرگ ادب نواز جناب قمر الدین صابری ایڈوکیٹ و ایڈیٹر ماہنامہ ’’شاداب‘‘ نے ان پر ایک خصوصی نمبر شائع کیا جس کے مطالعہ سے نادر صاحب کی شخصیت ، کردار و شاعری ولوں کو متاثر کرتے ہیں ۔ موصوف کا ایک قابل تحسین کارنامہ یہ ہے کہ وہ اپنے مکان کے ایک حصہ کو ’’مسدوسی ہاوز‘‘ سے موسوم کرتے ہوئے ادبی و دینی محافل کیلئے مختص کررکھا ہے ۔ جہاں پر پابندی کے ساتھ بزم علم و ادب ، بزم جوہر ، بزم بیدل کے اجلاس و مشاعرے منعقد کئے جاتے ہیں اور اس طرح نادر المسدوسی کی ادب دوستی و اردو نوازی بڑے احترام سے دیکھی جاتی ہے ۔ ذیل میں نادر المسدوسی کے چند اشعار بطور نمونہ پیش کئے جاتے ہیں ۔
نادر صاحب کا ایک حمدیہ شعر ہے ؎
مرا جو بھی ہے وہ ترا ہی ہے ، ہو عطا تری مری زندگی
میں ترے ہی نشہ میں چور ہوں میکش مری زندگی
اسی طرز فکر کا ایک اور شعر ؎
ترے ہی نام نے مجھ کو سنبھال رکھا ہے
میں چل رہا ہوں مگر گام گام تیرا ہے
نادر صاحب ایک عاشقِ نبیؐ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ لہذا ہر شعر میں انھوں نے عشق نبیؐ سے لبریز افکار کو ڈھالا ہے ۔
ایک مدت سے لئے بیٹھی ہیں آنکھیں میری
آپ کی دیدکا ارمان رسول عربی
انھوں نے ایسی تمنا بھی کی ہے ؎
انجام زندگی کا مدینہ میں ختم ہو
ارمان صدق دل سے مری زندگی کا ہے
اور ایک شعر میں مجاہدہ کی بات اس طرح کی ہے جو ہمیں دعوت فکر و عمل دیتا ہے ۔ وہ یوں ہے کہ
خون نادرؔ کا اگر بہتا ہے بہنے دیجئے
ایک اک قطرہ لہو کا دین پہ قربان ہے
جہاں نادر صاحب نے حمدیہ و نعتیہ اشعار بڑے عمدہ کئے ہیں وہیں انھوں نے غزل گوئی میں کوئی کمی نہیں کی ہے ۔ ایک شعر یوں ہے جو فکر آخرت کو ترجیح دیتے ہوئے ایک درس دیتا ہے ۔
فہر ہی جس کو نہیں ہے آخرت کی اور جئے
نادر ایسی زندگی سے موت ہی اچھی لگی
دوستی سے وابستہ ہوتے ہوئے دشمنی کرنے والوں کیلئے درج ذیل شعر قابل مذمت ہے ۔
پیٹھ پیچھے وار کرکے دوستی کا دم بھرے
ہم کو ایسی دوستی سے دشمنی اچھی لگی
ماضی کی یادوں میں کھو کر یوں کہہ اٹھتے ہیں ؎
سب کچھ بدل گیا ہے مگر اج بھی وہی
منظر تری گلی کا ہماری نظر میں ہے
اس طرح بے شمار اشعار نادر المسدوسی کے قابل داد و تحسین ہے ۔ غزل گوئی میں انکا ایک منفرد مقام ہے ۔ اپنے تمام شعروں میں وہ اسلامی تعلیمات کی تلقین کرتے ہیں جو درس کے حامل ہیں ۔ دنیائے شعر و سخن میں نادر بڑی عظمت و احترام سے دیکھے جاتے ہیں جو ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہے
نادر المسدوسی دنیائے علم و ادب کا ایک معتبر نام ہیں ۔ ان حالات میں محبان اردو ان کی ادب دوستی کو ملحوظ رکھتے ہوئے قدر شناسی کریں اس طرح اردو ادب و شاعری کو عدم مقبولیت سے دوچار نہ ہونا پڑے گا جو آج کے وقت کا اہم تقاضہ ہے ۔
بہرحال حیدرآباد و اضلاع کے شعراء و ادباء نادر المسدوسی کی علمی ادبی و شعری خدمات کو بے حد سراہتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اردو زبان و ادب کا یہ مجاہد اردو زبان کی مقبولیت کو قائم رکھنے میں اپنی تمام تر اعلی صلاحیتوں سے ماحول کو منور کرتا رہے ۔ اور اپنے نقوش سے راہوں کو روشنی بخشتا رہے اور اردو دنیا اپنے چاہنے والوں پر ناز کرتی رہے ۔