# می ٹو ایک ہی حمام کے سب ننگے

محمد مقصود علی
مدرسہ ضیاء الاسلام میں جب ہم ساتویں جماعت میں زیر تعلیم تھے تب ہمارے استادمحترم مرحوم محمد یوسف صاحب ریاضی کے مسائل حل کروانے کے دوران جب کسی ہندسے کو صفر سے ضرب ،جمع اور تفریق کرنے کاموقع آتا تو ایک جملہ بار بار بولا کرتے تھے اور وہ جملہ ’’ ایک ہی حمام میں سب ننگے ہیں بابا ‘‘ تھا اور اس جملے کے ذریعہ صفر سے کسی اور ہندسے کے تعلق کو سمجھاتے تھے اس وقت ریاضی کے مسائل تو سمجھ میں آجاتے تھے لیکن ہمارے ننھے ذہنوں میں جملہ کے درپردہ مطلب سمجھ میں نہیں آتا تھا لیکن جیسے جیسے اسکولی تعلیم سے یونیورسٹی کی تعلیم تک پہنچے تو یہ جملہ خود ہی اپنی اصلیت کو سمجھانے لگا اور اب تو دنیا بھر میں چل رہی ایک مہم اور اس مہم کے ذریعہ کئی نامور چہروں سے شرافت کے اٹھتے پردوں نے اس جملہ کو مزید بے نقاب کردیا ہے۔ تقریباً ایک برس پہلے امریکی اداکارہ ایلسا میلانو نے ٹوئٹر پر ’’می ٹو‘‘ (# Me too) یعنی ’’میں بھی‘‘ کے عنوان سے ایک مہم کا آغاز کیا اوراپنی مہم شروع کرتے ہوئے اداکارہ نے تمام خواتین سے درخواست کی تھی کہ اگر انہیںبھی کبھی کسی نے جنسی یا ذہنی طور پر ہراساں کیاہو، یاان پر تشدد کیا گیاہے تو اپنے اسٹیٹس میں ’’می ٹو‘‘ لکھیں، اس سے ہم عوام کو اس بات کا اندازہ دلا سکتے ہیں کہ یہ مسئلہ کتنا سنگین ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ مہم جنگل کی آگ کے طرح دنیا بھر میں پھیل گئی اور اس آگ نے کئی شریف اور نامور افراد کے سوکھی گھاس سے بنے شرافت کے محل کو راکھ کرکے رکھ دیا ہے ۔ می ٹو کی وجہ ہندوستان میں بالی ووڈ میں نانا پاٹیکر اور الوک ناتھ جسے ناموں کے علاوہ صحافت اور سیاست میں ایم جے اکبر بدنام ہوگئے ہیں ۔اس مہم نے ہندوستان کی ناتواں خواتین کی بھی ہمت وحوصلہ کو بڑھا دیا ہے اور جنسی زیادتی کیخلاف وہ میدان میں اتر گئیں ہیں۔ ہندوستان بھرمیں ’’می ٹو‘‘ یعنی ’مجھے بھی ‘نام سے ٹیوٹر پر چلنے والی مہم نے سوشل میڈیا کے علاوہ عوام کی زبانوں پر خوب چڑھ چکی ہے۔ جب سے ’’می ٹو ‘ کے تحت مختلف شعبہ ہائے زندگی میں جنسی تشدد کی شکار ہونے والی خواتین نے آگے بڑھ کر اپنے تلخ تجربات سنانے شروع کئے ہیںتب سے ہی پورے ہندوستان میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔سماجی ، سیاسی ، صحافتی اور حقوق انسانی کے دفاع کا راگ الاپنے والوں کے چہروں سے جب نقاب اتراہے تو ان کااصلی چہرہ دنیا کے سامنے آنا شروع ہوا ہے تو ہرسمت سناٹا طاری ہوگیاہے۔ انصاف کا تقاضہ تو یہی تھا کہ اگر کوئی فرد مضبوط اور بے داغ کردارکا مالک ہے تو اسے اپنے پر لگائے گئے الزامات کی تردید کیلئے پوری قوت کے ساتھ میدان میں اتر جانا چاہئے لیکن نہ جانے کیا وجہ ہے کہ گزشتہ چند دنوں سے جن سیاسی اورفلمی شخصیات پر یہ الزامات خواتین کے ذریعہ لگائے گئے ہیں ، اس کی مدلل تردید نہیں کی جارہی ہے۔ 4 اکتوبر کو ٹوئٹر پر سب سے پہلے کامیڈین اْتسو چکرورتی پرکئی خواتین نے جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا۔ بعد ازاں 33 سالہ اْتسو پر کئی خواتین نے برہنہ تصاویر طلب کرنے اور اپنی برہنہ تصویریں بھیجنے کا الزام عائد کیا۔ حالانکہ فلمی دنیا کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہاں اس قسم کے سانحات کا رونما ہونا عام بات ہے، لہذا اس دنیا میں مردوخواتین کے درمیان جنسی ہراسانی کو برا نہیں سمجھا جاتا، اس کے باوجود اتسو نے اپنے گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے ٹوئٹر پر اپنا موقف رکھا اورمتاثرہ خواتین سے معافی مانگ لی۔ اس الزام اور معافی کے درمیان ہی ’’ ‘می ٹو‘‘ کے تحت کئی کامیڈینز، صحافیوں، مدیروں، مصنفوں، اداکاروں اور فلم سازوں کے خلاف الزامات سامنے آئے۔ خواتین نے سوشل میڈیا پر اپنے میسیجز کے اسکرین شاٹ شیئر کئے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اسی نوعیت کی جنسی زیادتی کا الزام ایک خاتوں صحافی نے معروف صحافی اور مرکزی وزیر ایم جے اکبر پر بھی لگایا ہے۔ اطلاعات کے مطابق’’می ٹو‘‘ کے تحت مملکتی وزیر خارجہ اور ٹیلی گراف کے بانی ایڈیٹر ایم جے اکبر اور اداکار آلوک ناتھ پر کئی خواتین نے ان کے ساتھ نازیبا رویہ اور جنسی ہراسانی کا الزام عائد کیا ہے ۔ می ٹو مہم کے دوران تقریباً تمام ہی آن لائن اکاونٹس میں ایک ہی رجحان اور طریقہ کار دیکھا گیا۔ ایم جے اکبر پر خاتون صحافی سے ہوٹل کے کمروں میں انٹرویو لینے اور انٹرویو کے دوران انھیں بستر پر بیٹھنے کے لئے کہے جانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔اکبر کے خلاف سب سے پہلے الزام لگانے والوں میں شامل ایک خاتون جرنلسٹ پریہ رامنی بھی شامل ہے، جس نے ایک سال پہلے ’ایک مرد ایڈیٹر‘ کے بارے میں آن لائن الزامات پوسٹ کئے تھے ۔ پریہ نے کہا کہ یہ ایڈیٹر ان کے ساتھ نازیبا اور نامناسب سلوک کیا کرتے تھے، تاہم اْنھوں نے اس ایڈیٹر کے نام کا انکشاف نہیں کیا لیکن پریہ نے ٹوئٹر پر انکشاف کیاکہ وہ دراصل اکتوبر2017 کے پوسٹ میں ایم جے اکبر کا حوالہ دے رہی تھیں، جنہوں نے ممبئی کے ایک عالیشان ہوٹل میں انٹرویو لیا تھا۔ دوران انٹرویو شراب کی پیشکش کی تھی اور بستر پر اپنے بازومیں بیٹھنے کے لئے کہا تھا جس سے پریہ نے انکار کردیا تھا۔ پریہ نے یہ الزام بھی عائد کیاکہ انٹرویوکے دوران اس سے موسیقی اور گیتوں کے شوق کے بارے میں سوال کرتے ہوئے اکبر نے ایک رومانی نغمہ بھی گایا تھا۔ پریہ نے کہاہیکہ اس کے باوجود اس نے کئی سال تک ایم جے اکبر کے ساتھ کام کیا ہے لیکن اس نے کسی سے کچھ نہ کہنے کی قسم کھائی تھی۔پریہ کے الزامات کے بعد شرافت کا تقاضہ یہی ہے کہ ایم جے اکبر خود سامنے آتے ، ان کی پارٹی بلا چون وچرا ان پر عائد کئے گئے الزامات کی تحقیقات کا اعلان کرتی اور اپنے پسندیدہ قائد کے بے گناہ ہونے کا ثبوت پیش کرکے مخالفین کی زبان پر ہمیشہ کیلئے تالے ڈال دیتی لیکن کئی دن گزرنے کے باوجود نہ صرف ایم جے اکبر خاموش ہیں ، بلکہ مرکز کی مودی حکومت نے بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہے۔ ایک پروگرام کے بعد متعددخواتین صحافیوں نے مرکزی وزیر برائے امور داخلہ محترمہ سشما سوراج کے سامنے اس موضوع پر سوال کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا اور موضوع کو گھماکر پھراکر ٹال گئیں۔ می ٹو مہم میں مرکزی وزیر ایم جے اکبر پر الزامات لگنے پر کانگریس نے مطالبہ کیا کہ اکبر صفائی پیش کریں یا پھر اپنے عہدہ سے استعفی دیں۔ پارٹی کے سینئر ترجمان ایس جے پال ریڈی نے میڈیا سے کہا کہ میرا ماننا ہے کہ ایم جے اکبر کو اطمینان بخش صفائی پیش کرنی چاہئے یا پھر استعفی دیدینا چاہئے۔ اب ان کیساتھ کام کرچکی سینئر جرنلسٹوں نے الزام لگایا ہے تو پھر وہ عہدہ پر کیسے برقرار رہ سکتے ہیں۔ لیکن یہ تمام سوالا ت وہاں معنی رکھتے جہاں اخلاقی قدروں کی اہمیت ہو اور کردار کی بلندی و شفافیت کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز باورکیا جاتا ہو۔ فلمی دنیا ساری کی ساری گندی ہے یہ کہنا بھی زیادتی ہوگی کیونکہ بالی ووڈ کے سوپر اسٹار عامرخان نے خواتین کے ساتھ جنسی ہراسانی کے خلاف پہلا قدم اٹھاتے ہوئے فلم ’’مغل ‘‘ چھوڑنے کا اعلان کردیا ہے۔ عامر خان نے جنسی استحصال کے ملزم ڈائریکٹر سبھاش کپور کی فلم ’’مغل ‘‘ چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے خواتین کی حمایت کی ہے ۔ عامر نے اپنی اہلیہ کرن راو کے ساتھ ٹویٹر پر ایک نوٹ لکھا ہے۔ اس نوٹ میں جنسی استحصال کے خلاف زیرو ٹولیرینس (عدم برداشت ) کی بات کہی ۔عامر خان نے کسی بھی طرح کے استحصال کی مذمت کرتے ہوئے لکھا کہ کریٹیو لوگ ہونے کے ناطے ہم سماجی مسائل کے حل نکالنے کے پابند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عامر خان پروڈکشن میں ہمیشہ جنسی استحصال کے تئیں زیرو ٹولیرینس پالیسی اپنائی جاتی ہے۔ می ٹو مہم نے ہندوستان کو جکڑ لیا ہے اب دیکھنا ہے کہ مزید کتنے چہروں سے شرافت کا نقاب ہٹتا ہے اور کتنی نامور شخصیتیں متاثرہ خواتین کے حمایت میں آواز بلند کرتی ہیں۔