ڈاکٹر فریدہ زین
میں نازش ہر قدم ہوں میں فخر وطن ہوں
سینچا ہے لہو سے جسے سب نے وہ چمن ہوں
نفرت کا دھند لکا نہیںچاہت کی کرن ہوں
اخلاص کا پیکر ہوں‘ میں پاکیزہ بدن ہوں
میں رنگا رنگ تہذیب‘معاشرہ مذہب اور عقائد کی علمبردار ہوں۔ میرا انگ انگ اقدار انسانی کا امین ہے ۔ میں کسی کی میراث نہیں میں تو ایک خوشبو ہوں جو چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے‘ موسیقی کا جادو ہوں جو ہر سماعت کو مسحور کررہا ہے۔
دراصل میر ی پیدائش اخوت اور ایک جہتی کی فضاؤں میں ہوئی۔ میں ازل سے تعصب اور تنگ نظری سے دور اتحاد و اتفاق کے ماحول کی متلاشی رہی یہ بات بالکل درست ہے کہ ماضی‘ حال اور مستقبل کا رشتہ ایک دوسرے سے مربوط ہے ۔ حال ماضی کا طواف کرتا ہے‘ ماضی اپنی روایتوں کے دائرے میں رقص کرتا ہے اور مستقبل ماضی و حال کے دریچوں سے جھانکتا ہوا اپنی سمت کا تعین کرتا ہے ۔
میں نے کئی انقلابات دیکھے ۔ تخت نشینی سے معزولی تک‘ امن سے جنگ تک‘موسم بہار سے خزاں تک‘ ہر ماحول میں‘ ڈوبتی ابھرتی رہی۔ اپنے دامن کو کشادہ کر کے ہر مذہب‘ ہر جماعت ‘ ہر فرقے کو سمیٹ لیا۔ میں نام ہوں ہندوستانی ورثے کا تہذیب کا اور سماج کا۔ میں نے سب کو سینے سے لگایا ۔ ہر موڑ پر میں نے سب کا ساتھ دیا۔ چھاپ تبک سے لے کر بیاباج پیالہ تک‘ ولی کی لعل بدخشاں سے لے کر میر کی پنکھڑی گلاب کی تک‘ غالب کی دل ناداں سے لے کر حسرت کی چپکے چپکے تک آزادی ہند کی جدوجہد شروع ہوئی تو بسمل نے انقلاب زندہ باد کا نعرہ بخشا۔ اقبال نے وحدت کے گیت گائے۔ فیض نے مجھ سے پہلی سی محبت نہ مانگ کی آواز لگائی ۔ ساحر کی شکایت کہ ’’ایک شہنشاہ نے بنوا کے حسین تاج محل………‘‘مخدوم نے چاند تاروں کا بن سجادیا اور پھر میں نکھرتی گئی‘ سنورتی گئی۔
میرا سفر بھی عجیب ہے۔ لشکر سے صوفیوں کے پاس گئی۔ صوفیوں سے درباریوں کے اور پھر حکومتوں کے درمیان تعطل کا شکار ہوگئی۔ حالانکہ میرے پاس انجذاب کی کیفیت ہے ۔ میں تجارت میں ساتھ دیتی ہوں‘ ایک دوسرے سے معاملت رکھتی ہوں۔ دنیا کے ہر خطے میں مجھے پکارنے والے موجود ہیں۔ یہانتک کہ میں عالمی زبانوں کی صف میں آکر کھڑی ہوگئی ۔ بلا شبہ میں زندہ اور تابندہ ہوں ۔ ایک دور تھا جب میرے لئے عثمانیہ یونیورسٹی قائم کی گئی اور اب مولانا آزاد یونیورسٹی میرے نام سے ادب کے گاگر چھلکارہی ہے ۔
مسلمانوں کا سارا سرمایہ مجھ میں ہے مگر نوجوان نسل میری پہنچ سے دور ہے آزادی کے بعد میرے فروغ پر اثر پڑا میرے ساتھ سازشیں رچی گئیں جس کی و جہ میں روٹی روزی سے دور کردی گئی ۔ دفاتر سے نکالی گئی مجھ میں اختلاط کی غیر معمولی صلاحیت ہے ۔ میں نے خود کو لسانی رنگ میں رنگ لیا ۔ سنسکرت‘ پالی‘ فارسی‘ عربی اور ترکی کے ساتھ انگریزی زبان کا بھی رنگ و روغن سمیٹ لیا۔ ‘میرا خمیر اسی اختللط کی بناء الفت ‘ محبت اُنس ‘رواداری دردمندی اور و فاشعاری سے لبریز ہے میرے قلمکار اخوت کے پیغام کو عام کرتے ہیں۔ انسانیت کو وقار بخشتے ہیں۔ امن و آشتی کے گیت گاتے ہیں ۔ صلح اور دوستی کے پھول بھیجواتے ہیں۔ اسی ہمہ جہتی کی بنا پر میں دبستان لکھنو اور دہلی سے نکل کر دیار غیر میں بھی اپنی گل افشاں نی سے خوشبو بکھیرنے لگی ہوں۔مگر آج آج میں دیکھ رہی ہوں میرے ساتھ سوتیلا پن کا سلوک کیا جارہا ہے کیا مجھے مٹا کر اپنی تہذیب اپنے ورثے کی پہچان مٹالوگے ……….؟
رسم الخط ہی تو میرا پیرہن ہے اسے تار تانہ کرو۔ دفاتر میں‘ دوکانوں میں اداروں میں میرا نام نہیں دیگر زبانوں کی گلکاریاں موجود ہیں۔ بینرس پر ہورڈنگ پر میں کالعدم ہوگئی ۔
اگرچہ ادبی اجلاس و مشاعرے مجھے فروغ دیتے ہیں مگر کسی ٹھوس کام کے بغیر میری بقاء کیسے ممکن ہے ۔ کہنے کو میری بے شمار کتابیں منظر عام پر آرہی ہیں ۔ رسم اجرا کی محفلیں آباد ہوتی ہیں مگر کیا آپ لوگوں کو ان محفلوں میں سامعین کی گھٹتی تعداد کا اندازہ نہیں ہورہا ہے ۔
کتابوں کے خریدار ہی نہ رہے تحفتاً دینا شعار بن گیا ہے۔
گھروں میں میرا داخلہ بند ہوگیا ۔ ’’امی‘‘ کی جگہ Mom ابو کی جگہ ڈیڈ خدا حافظ کی جگہ بائی ‘ بھائی کی جگہ ’’برادر‘‘ بہن کی جگہ ’’سیس‘‘ عجیب خلفشار ہے ۔ سارے کوے ہنس کی چال چلنے لگے ہیں۔ میرے نام سے جو اسکول چلائے جاتے ہیں ان کی تعداد کم سے کم ہوتی جارہی ہے ۔ کہیں جگہ مناسب نہیں تو کہیں انفراسٹرکچر کی کمی ‘ کہیں اساتذہ کا فقدان‘ کہیں کتابیں عدم دستیاب ۔ دم توڑتے ہوئے ایسے اسکول بلا کسی جبر کے خودبخود بند ہوجاتے ہیں۔ میرے اپنے ہی میرے حق میں ستمگر بن گئے ہیں۔
لائبریریاں سماجی زندگی کا اہم حصہ ہوا کرتے ہیں۔ اب وہا ںبھی خاک اڑ رہی ہے۔ کتابیں چھولیں تو الرجی کا خوف نایاب و نادر کتب دیمک کی نذر قارئین کی تعداد ناکہ برابر۔ نوجوان نسل تورخ بھی نہیں کرنا چاہتی کچھ عمر رسیدہ وظیفہ یاب حضرات کی دلچسپی مطالعہ ہے بس یہی اکا دُکا آجاتے ہیں۔
والدین ہزاروں روپئے ڈونیشن میں دے کر مشنری اسکولوں میں انگریزی تعلیم کے ہی خواہاں ہیں۔ میری ضرورت کسی کو محسوس نہیں ہوتی ۔ یہ بھی نہیں ہوسکتا ہے کہ اسکول والوں سے مل کر متحدہ طور پر میری کلاسس آراستہ کریں۔ یہ بھی ممکن نہ ہو تو محلہ واری سطح پر کم سے کم ہفتے میں ایک دو بار میری کلاس کا اہتمام کریں۔ وہ تو شکر ہے کہ ’’سیاست‘‘ نے مجھے سنبھالے رکھا ہے اس کی آغوش میں‘ پل بڑھ رہی ہو ںجہاں غیر اردو داں اصحاب بھی امتحان میں شرکت کرلیتے بلا لحاظ عمر و مذہب میرے کچھ خیر خواہوں ہیں جو میرے نام سے تنظیمیں چلا رہے ہیں میری بقاء کیلئے جلسے منعقد کرتے ہیں۔
انٹر نیٹ اور ٹی وی کا چلن تو عام ہے ۔ فلم اور ٹیلی ویژن کی دنیا مجھی سے آباد ہے ۔ الفاظ میرے استعمال کرتے ہوئے اسے میر سکھی ’’ہندی‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ کچھ ایسے ناقدر بھی ہیں کہ ہر لفظ انگریزی زبان کا استعمال کرتے ہوئے اپنی قابلیت کی دھونس جماتے ہیں۔ کیا ان لفظوں کے متبادل میرے پاس نہیں؟ یہ لوگ خواہ مخواہ مجھے اپنی کم مائیگی کا احساس دلاتے ہیں۔ اچھا ہوا گر یہ اپنے ناموں کے متبادل انگریزی میں ہی لکھا کریں۔ نئی ٹکنالوجی میں میرا حصہ نہیں مجھے حصول روزگار سے مربوط نہیں کیا جاتا۔!!
ستم در ستم شادی بیاہ ‘ نام رکھائی‘ تسمیہ خوانی و دیگر تقاریب میں آپ انگریزی میں رقعے چھپوانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ صرف اس بناء پر کہ میرے پڑھنے والوں کی تعداد کم ہوگئی۔ خاص کر نوجوان نسل نے مجھ سے منہ موڑ لیا ۔ اس کے ذمہ دار کون ہیں؟ آپ جو میری چاہت کا دم بھرتے ہیں اپنے بچوں کی ر سائی مجھ تک ہونے نہیں دیتے ! مجھے اپنے وقت کی ضرورت اپنی تہذیب کی حفاظت ‘ اپنا ورثہ سمجھ کر سنبھالنا نہیں چاہتے آخر کیوں؟
اور تو اور اپنے بچوں کے نام بگاڑ کر ’’کبری کو ’’ماہ مے‘‘ سد وہ کو ’’سیدھ ‘‘ ’’صمعام‘‘کو Sam شمیم کو ’’شوم‘‘ بنادیتے ہیں۔ اپنا نیم پلیٹ انگریزی میں گلواتے ہیں۔ اب عنقریب کتبے بھی اسی زبان میںکھائے جاینگے ۔ دوسری زبان کے رسائل اور اخبار تو گھر میںآتے ہیں۔ میرے لئے کوئی گنجائش نہیں۔ چند ادب نواز قلمکاروں کے پاس رسالے آجاتے ہیں جنہیں ان کے پڑوسی اور احباب مستعارلے کر پڑھتے ہیں میرے نام پر خرچ کرنے میں کوتاہی جو ہے ۔ ادب اطفال تو کم سے کم دستیاب ہے۔ ایک دور تھا کھلونا‘ پھلواری اور بھی کئی بچوں کے رسائل ہر گھر میں ہوتے۔ اب یہ جواز تلاش کرایا گیا ہے کہ ادبی رسائل معیاری نہیں رہے ۔ کوئی ان سے پوچھے تمہارے بچوں کا معیار کیا ہے ۔ وہ تو کارٹون نیٹ ورک ‘کامکس اور ویڈیو گیم کے رسیا ہیں۔ آپس کی گفتگو میں بلا جھجھک انگریزی الفاظ کا حساب استعمال کرتے ہیں سچ تویہ ہے ایک ”Thanks”زمیرے کئی لفظوں کا متبادل ہے شکر یہ ‘نوازاش ‘مہربانی‘ کرم ‘عنایت ‘جزاک اللہ ممنون۔
اس تجاہل عارفانہ پر میں دو کھڑی سکتی ہوں ۔ میرے وجود کو مٹانے کی ایک کوشش خطوط کا تبادلہ ہے ۔ کہاں وہ شیرینی وہ مٹھاس کہ ہزار کوس سے بہ زبان قلم باتیں کریں‘ ہجر میں وصال کے مزے لیں‘وفاوں کی شمعیں روشن کریں‘ نظاروں کا حسن دکھائیں‘ محبت کے انمول موتی لٹائیں۔ میرے ایک شعر میں ایک فسانہ سنادیں نئی دنیا کی نئی ٹیکنک چیاٹنگ اور Massage بھیجنے میں ماہر ہوگئی ۔ ناشتے کو بریک فاسٹ ‘ظہرانہ کو لنچ‘عصرانہ کو ٹی پارٹی اورعشائیہ کو ڈنر کہنے والے لذتوں کا مفہوم کیا جانیں پیزا اور برگر نے سارے ذایقے سمیٹ لئے ۔
ڈاکٹر زور نے گھر گھر اللہ گھر گھر اردو کا نعرہ دیا تھا مگر آپ اسے بھول گئے ۔معصوم بچے اسکول میں ٹوینکل ٹوینکل لٹل اسٹار پڑھتے ہیں تو ماں باپ کی خوشی کی انتہا نہیں رہتی۔ بچوں کی انگریزی بول چال پر ناز کرتے ہیں۔ ’’لب پر آتی ہے دُعا ‘‘ پڑھانے کا خیال تک بھی نہیں آتا ۔
سچ تو یہ ہے کہ مادری زبان کو بھولنے والے بڑے بد قسمت ہوتے ہیںکیونکہ ان کا ورثا ہی ان کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے ۔ سیاست کی شاطرانہ چال یہ بھی ہوتی ہے کہ کسی قوم کو مٹانا ہو تو سب سے پہلے اس کی زبان کو ختم کیا جائے ۔ آپ خواب غفلت میں ہیں۔ جلد بیدار ہوجائیے ۔
اپنی زبان سے محبت کا زندہ ثبوت اسرائیلی قوم دیتی ہے ۔ اب تک ان کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں مگر پھر بھی وہ جگہ اپنی زبان کو لئے گھومتے ہیں۔ جرمن حملے اور اقتدار نے فرانسیوں کو سب کچھ تج دینے پر مجبور کیا تو انہیں اس وقت الوداعی سبق انہی کی زبان میں پڑھوایا گیا تو شدت جذبات سے معمر افراد کی ہچکیاں بند گئیں یہ مادری زبان سے اُن کی محبت کا کھلا ثبوت ہے ۔
احکام حکومت کے تحت آپ علاقائی زبانیں سیکھنے پر مجبور ہیں مگر میری ترقی و بقاء کیلئے جستجو نہیں کرتے خدا بھلا کرے میرے محبان کا جو سنگلاخ زمین میں بھی میرے لئے گلستان کی فکر میں ہیں۔ آج میں اپنے تڑپتے دل سے یہ صدا دیتی ہوں
سارے جہاں کی شان میں اردو زبان ہوں
ہندوستاں کی جان میں اردو زبان ہوں
مخدومؔ نے بخشی ہے مجھے نغمہ سرائی
امجدؔ کی رباعی میں نظر آئی خدائی
چنداؔ کے تغزل میں ملارنگ حنائی
جس کی نہ کبھی عمر ڈھلے وہ جوان ہوں
ہندوستاں کی جان میں اردو زبان ہوں
اے اہل وطن آج ذرا دیکھ بھال کے
واقف ہو تم بھی خوب زمانے کے جال سے
مجھکو سنبھالنا ذرا دشمن کی چال سے
میں پتھر وں کے شہر میں ثیثہ مکان ہوں
(تسنیم جوہرؔ)