میرا کالم سید امتیاز الدین
پچھلے دنوں ہم نے ایک نہایت معیاری اردو ماہ نامے میں ایک خبر پڑھی جس نے ہمیں حیرت میں ڈال دیا ۔ خبر یوں ہے کہ پاکستان کے صنعتی مرکز فیصل آباد میں محمد فیاض ماہی ایک آٹو رکشا ڈرائیور ہیں جو اپنے لوڈر رکشا پر تاجروں کا کپڑا ایک مارکٹ سے دوسری مارکٹ منتقل کرتے ہیں ۔ یہی اُن کا پیشہ بھی ہے اور گزر اوقات کا ذریعہ بھی ۔ لیکن آپ کو یہ سن کر تعجب ہوگا کہ محمد فیاض ماہی صرف آٹو رکشا نہیں چلاتے بلکہ وہ ایک ادیب بھی ہیں ۔ اب تک وہ بارہ ناول لکھ چکے ہیں ۔ اس کے علاوہ ایک سو سے زائد ڈرامے بھی وہ لکھ چکے ہیں ۔ اُن کے بارہ ناولوں میں سے گیارہ ناول تین تین بار دوبارہ شائع ہوچکے ہیں جو اُن کی کتابوں کی مقبولیت کی دلیل ہے ۔ فیاض کا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے ۔ ان کے پاس میٹرک کی چالیس روپے داخلہ فیس نہیں تھی اس لئے مڈل یعنی ساتویں جماعت سے آگے تو تعلیم جاری نہ رکھ سکے ۔ تعلیم منقطع ہوئی تو وہ بازار میں کھانے پینے کی چیزیں بیچنے لگے ۔ انھوں نے اس چھوٹے سے کاروبار میں جیسے تیسے گزر بسر کی اور کچھ نہ کچھ پیسے بچا کر اپنے ذوق کی کتابیں خریدنے لگے اور اپنی ایک لائبریری بنالی ۔ مطالعہ کے شوق نے انھیں ادیب بنادیا ۔ ان کا پہلا ناول گھنگھرو اور کشکول 2005ء میں شائع ہوا جس میں انھوں نے طوائفوں کی زندگی پر قلم اٹھایا ہے ۔ اس کے بعد انھوں نے ’’گیلے پتھر‘‘ ’’کاغذ کی کشتی‘‘ ’’کانچ کا مسیحا‘‘ ’’تاوانِ عشق‘‘ ’’عین شین قاف‘‘ ’’موم کا کھلونا‘‘ ’’ٹھہرے پانی‘‘ ’’میرا عشق فرشتوں جیسا‘‘ ’’لبیک اے عشق‘‘ ’’پتھر کے لوگ‘‘ ’’شیشے کا گھر‘‘ شائع کئے جو سب کے سب مقبول ہوئے۔ آج کل موصوف اپنا تیرھواں ناول ’’گستاخ اکھیاں‘‘ لکھ رہے ہیں جو اس سال کے آخر تک شائع ہوجائے گا ۔ ہم بڑے افسوس کے ساتھ اعتراف کرتے ہیں کہ ہم نے محمد فیاض فہمی کی کوئی کتاب اب تک نہیں پڑھی ۔ لیکن ہماری جہالت سے اس پیدائشی ادیب کی مقبولیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ یوں بھی ہم طالب علمی کے زمانے میں بھی کورس کی کتابیں بادل ناخواستہ پڑھتے تھے بلکہ حتی الامکان کلاس کے نوٹس سے کام چلاتے تھے ۔ خیر بات ہماری کم فہمی کی نہیں بلکہ فیاض فہمی کی ہورہی ہے ۔ فیاض فہمی کے ناول ’عین شین قاف‘ کی تین ہزار تین سو کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں اور فیصل آباد کی یونیورسٹی کے طلباء ان کے فن اور شخصیت پر ایم فل کے مقالے لکھ رہے ہیں ۔ اس کے باوجود اپنی چار بچیوں کا پیٹ پالنے اور گھر کا کرایہ ادا کرنے کے لئے اس مایہ ناز ادیب کو آٹو رکشا چلانا پڑرہا ہے ۔
اس خبر کو پڑھنے کے بعد ہمیں خوشی بھی ہوئی اور رنج بھی ہوا ۔ خوشی اس بات پر کہ ایک آٹو ڈرائیور تیرہ مقبول ناولوں کا مصنف ہے اور رنج اس کا کہ تیرہ اردو ناولوں کا مصنف آٹو رکشا چلانے پر مجبور ہے ۔ بعد میں جب ہم نے اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ اردو شاعروں اور ادیبوں کی زبوں حالی کا ایک سبب ہم خود ہیں ۔ اردو کا قاری کبھی کتاب یا رسالہ خرید کر نہیں پڑھتا ۔ اردو والے اپنا سب سے بڑا ناول نگار پریم چند کو تسلیم کرتے ہیں ، لیکن خود پریم چند ہمیشہ مفلوک الحال رہے بلکہ اردو کی صورت حال سے تنگ آکر انھیں ہندی کا رخ کرنا پڑا ۔ حضرت جگر مرادآبادی ایک زمانے میں عینکیں فروخت کرتے تھے ۔ پتہ نہیں وہ لوگوں کی آنکھوں کا معائنہ بھی کرتے تھے یا اپنے گاہکوں کو کوئی بھی عینک یہ کہہ کر پکڑادیتے تھے کہ
آنکھیں ہوں تو وہ کونسا ذرّہ ہے جو اے دوست
خود اپنی جگہ انجمنِ ناز نہیں ہے
اور لوگ خوشی خوشی ان کی دی ہوئی عینک لے کر ایسے ذرّات کی تلاش میں نکل جاتے جو انجمنِ ناز ثابت ہوں ۔ فراق گورکھ پوری غزل کے ستون تھے ، لیکن انھوں نے روزی روٹی کے لئے انگریزی ادب کا پروفیسر بننا پسند کیا ۔ حد تو یہ ہے کہ جب ان کی شاعری پر گیان پیٹھ ایوارڈ ملا جو ایک توصیفی سند ، شال اور ایک لاکھ کے چیک پر مشتمل تھا تو پہلے انھوں نے اسٹیج پر ہی چک کا بغور مطالعہ کیا کہ کہیں کوئی غلطی نہ رہ گئی ہو ۔ مشہور مزاح نگار شفیق الرحمن پیشے سے ڈاکٹر تھے اور فوج میں کرنل تھے ۔ اسی طرح ایک اور مزاح نگار کرنل محمد خاں بھی فوج میں تھے اور انھوں نے اسی مناسبت سے اپنی مزاحیہ کتاب کا نام بجنگ آمد رکھا ہے ۔ مشتاق احمد یوسفی جن کو آج کے دور میں سب سے بڑا مزاح نگار سمجھا جاتا ہے ، بینک کی نوکری میں ہلکان ہوتے رہے ، پھر بھی مزاح نگاری کا دامن نہ چھوڑا ۔ انھوں نے اپنی سوانح عمری کا نام ہی زرگزشت رکھ دیا ۔ حفیظ جالندھری کو فوج میں نوکری ملی تھی ۔ وہاں ان کا کام یہ تھا کہ ایسے مقبول عام اور ہلکے پھلکے گیت لکھیں ، جنھیں سن کر لوگ فوج کی نوکری کی طرف راغب ہوں ۔ اردو شاعر ہمیشہ سے ہی غریب رہا ہے ۔ میر و غالب سے لے کر آج تک کے شعراء صرف اپنے کمالِ فن سے زندہ نہیں رہے ۔ میر نے کہا تھا پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں ۔ غالب نے زندگی کا بڑا حصہ استادِ شہ بننے کی آرزو میں گزار دیا جبکہ خود بہادر شاہ ظفر اُن کو مالا مال کرنے کے موقف میں نہیں تھے ۔ بالآخر جب غالب کو دربار شاہی سے وظیفہ مقرر ہوا تو اس میں قباحت یہ تھی کہ چھ مہینے میں ایک بار ملا کرتا تھا ۔ اس ششماہی وظیفے کو ماہانہ میں تبدیلی کرانے کے لئے غالب کو انتہائی مبالغہ آمیز قصیدہ لکھنا پڑا جس کے آخری شعر ’’تم سلامت رہو ہزار برس… ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار‘‘ کو لوگ آج بھی بے سوچے سمجھے بلا تکلف استعمال کرتے ہیں ۔ علامہ اقبال بیرسٹر تھے ۔ ان کے بارے میں ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ وہ اتنے ہی مقدمے لیتے تھے جن سے گھر کا خرچ چل جائے ۔ چونکہ ان کا مقام بہت بلند تھا ۔ اس لئے بھوپال ،حیدرآباد جیسی ریاستوں سے ان کو ماہانہ وظائف مقرر تھے ۔ اس لئے ان کو مالی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔ پھر بھی ان کی خودداری کا یہ عالم تھا کہ اس زمانے میں ایک ہزار روپے کا چیک محض اس لئے واپس کردیا کہ اسے قبول کرنے میں ان کو اپنی سُبکی محسوس ہوئی ۔ ساحر لدھیانوی ، مجروح سلطانپوری ، شکیل بدایونی ، اختر الایمان ، راجندر سنگھ بیدی اور بعض دوسرے ادیب و شاعر اس لئے خوشحال ہوئے کہ انھوں نے فلمی دنیا سے وابستگی اختیار کرلی تھی ۔ ہمارے بعض شاعر تو ایسے بھی ہیں جن کی زندگی مشاعروں پر ٹکی ہوئی ہے ۔ ایک شہر میں مشاعرہ پڑھا ، دوسرے شہر کو نکل پڑے … نہ جانے ان کو گھر کی صورت کب دیکھنی نصیب ہوتی ہے ۔ یہی حال کتابوں کی رسم اجرا کا ہے ۔ رسم اجرا کے دن صاحب کتاب کی تعریفوں کے پل باندھ دیئے جاتے ہیں ۔ اعلان ہوتا ہے کہ آج کتاب رعایتی قیمت پر فروخت ہوگی ۔ اس اعلان کے سنتے ہی لوگ دل ہی دل میں خبردار کردینے کا شکریہ کہہ کر رخصت ہوجاتے ہیں ۔ کتابوں کا انبار مصنف کے گھر میں رہ جاتا ہے اور فرنیچر کا کام دیتا ہے ۔
اس کے برخلاف انگریزی اور دوسری غیر ملکی زبانوں کے ادیب خوش حالی کی زندگی بسر کرتے ہیں ۔ ہم نے سنا تھا کہ سنسنی خیز کتابوں کی مصنف اگاتھا کرسٹی کی کتابیں اتنی مقبول تھیں کہ اس کی کتاب کے ہر لفظ کا معاوضہ ملتا تھا ۔اگر وہ اپنی کتاب میں کسی کردار کو پستول کی گولی سے ہلاک کرتی تو گولی کی آواز بتانے کے لئے ایک ہی لفظ کو تین بار استعمال کرتی تھی جیسے فائر ، فائر ، فائر ۔ کسی نے اس سے پوچھا کہ آپ گولی کی آواز تین مرتبہ کیوں داغتی ہیں جبکہ مارنے کے لئے ایک گولی کافی ہے تو اس نے ہنس کر جواب دیا ’ہر لفظ کا پیسہ ملتا ہے‘ ۔ جارج برنارڈ شاہ کا ایک قصہ مشہور ہے کہ کسی آرٹسٹ نے اس کی تصویر بنائی ۔چالیس پاؤنڈ معاوضہ طے ہوا ۔ برنارڈ شا نے آرٹسٹ کو بیس بیس پونڈ کے دو چیک لکھ کر دئے ۔ آرٹسٹ نے دو چیک دینے کی وجہ پوچھی ۔ برنارڈ شا نے جواب دیا کہ میرے آٹو گراف کے خواہش مند آپ سے یہ چیک پچیس پونڈ میں خرید لیں گے ۔ اس طرح آپ کو چالیس کی بجائے پچاس پونڈ مل جائیں گے ۔ میرے آٹو گراف کا خواہش مند انھیں بھُنائے گا نہیں اور یوں میرا پیسہ بھی محفوظ رہے گا ۔ ای ۔ ایم فارسٹر کی مشہور کتاب A Passage to India ڈرامہ کی شکل میں پیش کی گئی ۔ پہلے دن کی رائلٹی جو شاید ایک ہزار پاؤنڈ تھی ، فارسٹر نے اردو ہال حیدرآباد کی تعمیر کے لئے بطور عطیہ بھیج دی ۔ فارسٹر اردو نہیں جانتا تھا لیکن اس نے ہندوستان کے قیام کے دوران اردو سنی تھی اور اس کی شیرینی کو محسوس کیا تھا ۔ کیا اردو کا کوئی ادیب ایسی دریا دلی دکھاسکتا ہے ۔ اس کا دل دریا کی طرح ہوسکتا ہے لیکن جیب خالی رہتی ہے ۔
ہمارے ملک میں فلمی ہستیاں لاکھوں بلکہ کروڑوں کماتی ہیں ۔ آرٹسٹ بھی اپنی پینٹنگ سے لاکھوں کمالیتے ہیں ۔ ابھی حال ہی میں ہم نے آرٹسٹ فواد تمکنت کا ایک بیان پڑھا کہ بعض لوگ پینٹنگس کو سرمایہ کاری کے لئے بھی خریدتے ہیں تاکہ کچھ سال گزرنے کے بعد وہ آرٹ کے بیش قیمت نمونوں کو اور زیادہ قیمت پر فروخت کرسکیں ۔ فلمی ہستیاں ، اسپورٹس سے وابستہ مشہور کھلاڑی ، ٹی وی اور اخبار کے اشتہارات میں دکھائی دیتے ہیں ۔ فلاں طاقت کا مشروب میری صحت کا ضامن ہے ۔ آپ بھی پیجئے اور برسوں زندہ رہئے ۔ پانی صاف کرنے کے فلٹر سے لے کر کھیتوں کو پانی دینے والے واٹر پمپ تک ، نئی نئی موٹر کاروں سے لے کر جان لیوا برق رفتار موٹر سائیکلوں تک ، بنیانوں اور انڈرویئر سے لے کر عمدہ سِلے ہوئے سوٹس تک ۔ غرض بازار میں بکنے والی کوئی چیز ایسی نہیں جس کے اشتہار میں فلم اسٹار ، کرکٹ اور ٹینس کے کھلاڑی دکھائی نہیں دیتے ۔ ادیب کا جو رشتہ قلم سے ہے ہر کوئی جانتا ہے ۔ کیا آپ نے کوئی ایسا اشتہار دیکھا ہے جس میں کسی ادیب یا شاعر کو کسی مخصوص برانڈ کے فونٹین پن یا بال پن سے لکھتے ہوئے دکھایا گیا ہو کہ موصوف اپنی شاہ کار تخلیقات فلاں قلم سے لکھتے ہیں ۔
ہمارے ملک میں آزادی تحریر و تقریر تو بہت ہے ، لیکن آج کل عدم رواداری کے سلسلے میں ادیبوں ، شاعروں اور دیگر فن کاروں نے آواز اٹھائی ہے تو بعض حلقوں سے اُن پر ملک دشمن ہونے کا الزام لگایا جارہا ہے اور وطن چھوڑ دینے کی صلاح دی جارہی ہے ۔ ہم نے حال ہی میں کہیں پڑھا کہ مشہور فرانسیسی ادیب ژاں پال سارتر کی بعض تحریروں پر اعتراض کرتے ہوئے فرانس کی پولیس کے ڈائرکٹر جنرل نے اس وقت کے فرنچ پریسیڈنٹ جنرل ڈیگال سے کہا تھاکہ ژاں پال سارتر کو جیل میں ڈال دیا جائے ، تو جنرل ڈیگال نے جواب دیا ’کیا میں سارے فرانس کو قید کردوں‘ ۔ بہرحال ہمارے ادیب و شاعر صرف تعریف کے ایک جملے یا کسی مشاعرے کی بے ساختہ واہ واہ کے سہارے جیتے ہیں ۔ شاید اسی لئے جوش صاحب نے کہاتھا۔
اؑگلے جب بحرِدل نے سو لعل و گُہر
تحسین کے کچھ حباب پائے ہم نے