ثریا جبین
قدرت نے مجھے ایک حساس دل عطا کیا ہے ، جو معاشرے میں وقوع پذیر مناظر کا بغور مشاہدہ کرتا ہے ۔ پھر یہ احساس مجھے لکھنے پر اکساتا ہے کہ میرے ذہن میں جو واقعات کے خاکے بنے ہیں، انہیں سماج کے سامنے لاؤں ۔
انسان کی بیداری ، آگہی اور شعور یہ سب ادیبوں کے ہی زور قلم کا نتیجہ ہیں ۔ ادیب ایسا جراح ہوتا ہے جو زخموں کی رفوگری کرکے ان پر مرہم رکھتا ہے ۔ ہر سچا ادیب انسانیت کا بے لوث خادم ہوتا ہے ۔ انسان کا مددگار اور غم گسار ہوتا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ مجھ میں یہ خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ کسی پر ظلم ہوتے دیکھ کر میں خاموش نہیں رہ سکتا ۔ انسانیت کی فلاح کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل رکھتا ہوں ۔ انسانی ضمیر کو جھنجھوڑتا ہوں ۔ مظلوم و بے کس انسانوں کو کرچی کرچی ہونے سے بچانے کے لئے قلم اٹھاتا ہوں ۔ زخم دل کے لئے مرہم کا سامان بھی مہیا کرتا ہوں۔ اپنے دفاع کی ترغیب اور حکمت عملی بھی سکھاتا ہوں ۔ جینے کا قرینہ اور سکون کے لمحے عطا کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ میری کہانیاں انسانوں میں جینے کا حوصلہ پیدا کرتی ہیں ۔ میرا پیغام محبتوں کا پرچار کرنا ہے ۔ نیا پیغام دینا ہے ، سماج کے کمزور طبقے کے زخموں کی جراحی بھی کرنا ہے اور ان پر مرہم بھی رکھنا ہے ۔
آج انسان کتنا دکھی اور مضطرب ہے ۔ ہر آنے والی سحر کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتا ہے اور جب صبح امید شام میں ڈھل جاتی ہے تو پھر وہ دوبارہ نمودار ہونے والی سحر کے انتظار میں کھوجاتا ہے ۔ میرے جلائے ہوئے چراغوں کی لو کا آندھیوں اور طوفانوں سے تصادم ہوتا رہتا ہے لیکن آندھیاں میرا راستہ نہیں روک سکتیں ۔ زمانے کی تند ہواؤں سے بچانے کے لئے انسان کو روشنی دینے کے لئے میں چراغ کی دل و جان سے حفاظت کرتا ہوں ۔ اصلاح معاشرے کی کوشش کرتا ہوں ۔ سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں ، بداعمالیوں کی طرف توجہ مبذول کراتا ہوں ۔ جب لڑکیوں کو ان کے ناکردہ جرم کی سزا دی جاتی ہے، جہیز نہ لانے کے لئے موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے ، شیطان انسانیت پر غالب آجاتا ہے ۔ ایسے ظالم انسانوں کو انسانیت کا واسطہ دیتا ہوں ۔ جہیز کے خلاف آواز اٹھاتا ہوں ۔ لیکن بہت دکھ ہوتا ہے جب میری آواز صدا بہ صحرا کی طرح بے اثر ہوجاتی ہے ۔ میں نے کئی علماء کے وعظ سنے ہیں جو شادی میں جہیز اور لین دین کی زور و شور سے مخالفت کرتے ہیں ۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ وہ اپنے آپ کو اس معاملے سے بری سمجھتے ہیں ۔ اپنے گھر کی شادیوں میں جی کھول کر اسراف کرتے ہیں۔ ایک بار بھی ان کا دل ان معصوم لڑکیوں کے ارمانوں پہ نہیں پسیجتا ۔ اپنی خوشی کی خاطر کیس کی بات خاطر میں نہیں لاتے ۔گونگے بہرے بن جاتے ہیں ۔ اگر توجہ دلائی جائے تو بڑے فخر و تکبر سے کہتے ہیں ’’اللہ تعالی نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے پھر اس کا استعمال نہ کرکے کفران نعمت کیوں کریں؟‘‘ ۔
آج کل تعلیم یافتہ لڑکی کی بھی سسرال میں کوئی قدر نہیں کی جاتی ۔ وہ اپنی تعلیم کا بہتر استعمال کرنا چاہتی ہے ، لیکن اس کے خلاف محاذ کھڑا ہوجاتا ہے ۔ میں اپنے قلم سے دونوں طرف توازن بنائے رکھتا ہوں ۔ عقلوں پر پڑے پردے ہٹاتا ہوں ۔ انہیں جینے اور خوش رہنے کی راہ دکھاتا ہوں ۔ خاص طور سے جب عورت کو ایک پیچیدہ صورت حال سے واسطہ پڑتا ہے ۔شوہر اور ساس کی ہراسانی سے وہ اتنی خوفزدہ ہوجاتی ہے کہ اسے کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا ۔ امید کے دروازے بند ہوجاتے ہیں ۔ زندگی میں اندھیرا چھا جاتا ہے ۔ ایسے وقت مجھ جیسے ادیب کی تحریر اندھیرے میں روشنی کا کام کرتی ہے ۔ زندگی کو نیا پیغام دیتی ہے ۔ نیا حوصلہ دکھاتی ہے ۔ ناکامیوں کو کامیابی سے بدلنے کا ہنر مل جاتا ہے ۔ میں کہنا چاہتا ہوں عورت کمزور نہیں ہے ۔ اگر وہ ظلم کے خلاف آواز اٹھائے ۔ اپنی ہمت اور طاقت سے ظالم مردوں کو منہ توڑ جواب دے اور سسرال میں ظلم کا ڈٹ کر مقابلہ کرے ۔ یوں تو دھو کر قسمت کو الزام نہ دیں ۔ عام طور سے سسرال میں لڑکی کو اذیت پہنچانے کی ایک ہی وجہ ہوتی ہے ۔ وہ ہے جہیز کا مزید مطالبہ ۔ اس لعنت نے کتنے گھر برباد کردئے ۔ اپنی تحریروں سے میں جہیز کے خلاف لعن طعن بھی کرتا ہو ں۔ غیرت دلاتا ہوں ۔ لیکن اس مکروہ رسم سے چھٹکارا پانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ سب متحد ہوجائیں۔ تو یہ وبا ضرور ختم ہوسکتی ہے ۔ صبح کا اخبار دیکھتا ہوں ۔ روزانہ گھریلو مظالم اور حادثات کا کوئی نہ کوئی واقعہ نظر سے گذرتاہے ۔ ان میں اکثریت عورت پر ظلم ، اذیت رسانی کی ہوتی ہے ۔ آپ کوایک واقعہ سناؤں ۔ چند مہینے پہلے کی بات ہے ۔ ایک معزز خاندان کی لڑکی کی شادی طے ہوئی ۔ لڑکی کی ماں نے بات چیت کے وقت کہہ دیا کہ میں اپنی مرضی سے لڑکی کو جہیز دوں گی اور کسی قسم کے مطالبات قابل قبول نہ ہوں گے ۔ لڑکے والے راضی ہوگئے ۔ لڑکی کا رسم شاندار پیمانے پر ہوا ۔ شادی کی تاریخ ایک ماہ بعد کی رکھی گئی ۔ شادی کی تاریخ قریب تھی لڑکی کی ماں نے پوری تیاری کرلی تھی ۔ شادی کو صرف ایک ہفتہ باقی تھا کہ اچانک لڑکے والوں نے ایک نیا مطالبہ پیش کردیا ۔ وہ یہ کہ جہیز میں پانچ لاکھ روپیہ اور ایک کار ۔ لڑکے کے والد کہنے لگے آپ کے لئے تو یہ کوئی مشکل نہیں ۔ ہماری اور آپ کی عزت کا سوال ہے ۔ لڑکی کی ماں نے کہا پہلے تو اس طرح کی کوئی بات نہیں ہوئی ۔ کہنے لگے آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں ، لیکن لڑکے کی ماں بضد ہیں کہ دولہا اسی کار میں بیٹھ کر برات لے کر آئے گا ، جو اسے دلہن کی طرف سے دی جائے گی ۔
ہم نے سوچا تھا کہ آپ خود ان چیزوں کا خیال رکھیں گی ۔لیکن … لڑکی کی ماں نے بات کاٹتے ہوئے کہا بے شک میں اپنی لڑکی کو پانچ تو کیا دس لاکھ دے سکتی ہوں ۔ لیکن بھیک مانگنے والوں کا کشکول نہیں بھرسکتی ۔ آپ کے مطالبات کو پورا کرنا تو کجا میں اپنی لڑکی آپ جیسے لالچی لوگوں کودینے سے انکار کرتی ہوں ۔ یہ رشتہ ختم سمجھئے ۔ لڑکے کے والد نے بڑی منت سماجت کی لیکن لڑکی کی ماں نے انہیں باہر کا راستہ دکھادیا ۔ قابل تعریف ہے وہ ماں جس نے اپنی بیٹی کی زندگی کو دیمک لگنے سے پہلے ہی اس کا علاج کردیا ۔ جرات مندی کی ایسی مثال کہاں مل سکتی ہے ۔ ذرا سوچئے مانگنے والوں کے منہ کب تک بھرتے رہیں گے ۔ یہ بھکاری تو اپنا بڑا سا منہ کھول کر منتظر رہیں گے کہ جتنا بھرسکتے ہو بھردو ہم ڈکار بھی نہیں لیں گے ۔ مہذب و متمدن سماج میں لالچی لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے ۔ اس بگڑے معاشرے کی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اکثر لوگ لڑکی کی شادی کی پیشکش کرتے ہوئے لڑکے والوں کو سنہرے خواب دکھاتے ہیں ۔ معیاری شادی ، شکم پُری یعنی مطالبات کی منظوری ، اس کے علاوہ باہر بھیجنے کی ذمہ داری بھی قبول کرتے ہیں ۔ کم ظرف لوگ اپنی عزت نفس کی پروا کئے بغیر اس چکر میں آجاتے ہیں ۔ ایسا رشتہ کیا آئندہ کامیاب زندگی کی ضمانت دے سکتا ہے ؟میرا ماننا ہے کہ لڑکے خودداری سے کام لیں ۔ اپنے قوت بازو پر بھروسہ کریں ۔ لڑکی کے پیسوں پر کب تک عیش کریں گے ؟ کیا زندگی بھر بیوی سے نظر ملا کر بات کرسکیں گے ۔ کیا عزت سے جی سکیں گے ؟بہرحال میرا قلم معاشرے کی برائیوں کو ختم کرنے ،ہمیشہ رواں دواں رہے گا ۔ اگر میری تحریر سے معاشرے میں خوش آیند تبدیلی آئے تو میں سمجھوں گا مجھے اپنی محنت کا ثمر مل گیا ۔