میلاد بلڈ ڈونیشن کیمپ

سوال :   میلاد  النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر آج سے چھ سال قبل آپ حضرات علمائے کرام نے میلاد بلڈ کیمپ افضل گنج لائبریری میں قائم کرنے کی آواز اٹھائی لیکن الحمدللہ اب دیکھتے ہی دیکھتے دیگر تنظیموں خانقاہوں ، اداروں نے اس کارخیر کا حصہ بن رہے ہیں۔ بڑی خوشی کی بات ہے کہ اس سال بلڈ ڈونیشن میں جلوسیوں نے بھی بڑی دلچسپی لی ۔ اللہ جزائے خیر دے ۔ اس کام کے شروع کرنے والوں کو لیکن اس کے متعلق کچھ شکوک شبہات ابھی ذہنوں میں باقی ہیں۔
میرا سوال یہ ہے کہ خون کا عطیہ کن کن صورتوں میں دیا جاسکتا ہے؟ کیا غیر مسلم کو خون دے سکتے ہیں؟ کیا کوئی آدمی اپنا خون فروخت کرسکتا ہے۔اس طرح بلڈ بینک میں خون کو اسٹور کیا جاتاہے ۔ کیا ہم بلڈ بینک قائم کرسکتے ہیں۔ کیا بلڈ بینکس خون فروخت کرسکتے ہے ۔ اس موضوع پر تفصیلی روشنی ڈالیں تو مہربانی ہوگی ؟
محمد سعد اللہ قادری، کنچن باغ
جوا ب:  مطلق خون حرام ، ناپاک و نجس ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انما حرم علیکم المیتۃ والدم (سورہ بقرہ 173 ) اود مامسفوحا (سورہ انعام 145 )
حرام شئی سے علاج و معالجہ کرنا شرعاً منع ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ۔ ولا تتداووا بحرام (فتح الباری جلد 10 ص : 135 )
خون انسان کے بدن کا بہتا جز ہے جو کہ ناپاک ہے، اس لئے خون کے بدنِ انسانی کا جز اور ناپاک ہونے کی وجہ اس کو فروخت کرنا شرعاً منع ہے ۔ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نھی عن ثمن الدم (صحیح البخاری بشرح فتح الباری جلد 10 ص : 314 )
البتہ بفحوائے آیت قرآنی ’’ الاما اضطر رتم الیہ‘‘ بوقت ضرورت بقدر ضرورت حرام چیز سے علاج کی اس وقت اجازت ہے جبکہ مریض کو بطور خود اس بات کا یقین ہو کہ اس کے استعمال سے شفاء ہوگی یا کوئی مسلمان طبیب اس کو یہ بات کہے اور حرام شئی کے علاوہ اس بیماری کے لئے کوئی اور جائز دوابھی نہ ہو، ورنہ شئی حرام سے علاج کرنا شرعاً حرام ہے ۔ رد المحتار جلد 4 ص : 224 میں ہے : صاحب الخانیۃ والنھایۃ اختار الجوازہ ان علم فیہ شفاء ولم یجد دواء  غیرہ قال فی النھایۃ و فی التھذیب یجوز للعلیل شرب البول والدم والمیتۃ للتداوی اذا اخبرہ طبیب مسلم ان فیہ شفاء  ولم یجد من المباح ما یقوم مقامہ ۔
پس صورت مسئول عنہا میں حسب صراحت بالا بوقت ضرورت کسی کی جان بچانے انسان کا خون چڑھانا خواہ وہ مسلمان کا ہو یا غیر مسلم کا، مرد کا ہو یا عورت کا ’’الاامور بمقاصد ھا کے تحت شرعاً درست ہے ، اسی طرح بلا معاوضہ خون کا عطیہ دینا بھی شرعاً جائز ہے ۔ چونکہ بلڈ بینک میں خون کو صفائی ، تحقیق اور معائنہ کے بعد ضرورت مند کو دیا جاتا ہے ۔ اس لئے کسی مسلمان کا ضرورت مند کو بوقت ضرورت کام آنے کیلئے وقت سے پہلے بلڈ بینک کو خون کا عطیہ دینا تاکہ وہ اس کی صفائی اور معائنہ کرسکے ، شرعاً درست ہے اور ’’وتعاو نوا علی البروالتقوی‘‘ ( تم آپس میں ایک دوسرے کی نیک اور تقوی پر مدد کرو) کے تحت مستحسن ہے ۔ بلڈ بینک اگر صرف معائنہ اور محنت کے اخراجات وصول کرتا ہے تو اس کا یہ عمل درست ہے اور اگر وہ فروخت کرتا ہے تو شرعاً درست نہیں۔

نکاح مسیار
سوال :   ’نکاح مسیار‘ کیا ہے ؟ اسکی تعریف کیا ہے ؟ کیا اسلام میں اسکی کوئی گنجائش ہے؟
مخدوم شرف الدین، اے سی گارڈ
جواب :  ’ نکاح مسیار‘ یہ ہے کہ مرد کسی خاتون سے عقد نکاح کرتاہے اورعقد نکاح کے ارکان و شروط کو ملحوظ رکھتا ہے ۔ البتہ عاقدہ اپنے ازدواجی حقوق مثلاً شوہر کے ذمہ رہائش کی فراہمی، نان نفقہ کی ادائیگی یا ’’حق حبیت‘‘ یعنی بیوی کو اپنے ساتھ رکھنا، رات میں اس کے ساتھ رہنا اس قسم کے بعض حقوق سے وہ رضامندی سے دستبردار ہوجاتی ہے ۔
طلاق کی کثرت ، اونچے مہر، لڑکیوں کی نکاح میں تاخیر، شادی کے مصارف کی عدم استطاعت دیگر اسباب و عوامل کی بناء ’نکاح مسیار‘ کی خبریں آرہی ہیں۔ شرعاً صحت نکاح کیلئے عاقد و عاقدہ کا دو گواہوں کے روبرو ایجاب و قبول کرنے سے نکاح منعقدہوجاتا ہے اور شوہر پر بیوی کے لئے رہائش کی فراہمی ، نان نفقہ کی ادائیگی ، دیگر حوائج ضروریہ کی تکمیل لازمہوجاتی ہے ۔ تاہم عقد سے قبل یا عقد نکاح کے بعد بیوی کے اپنے چند حقوق مثلاً نان نفقہ کی شوہر پر ذمہ داری سے دستبردار ہوجانے سے شوہر کے فرائض و واجبات اس کے ذمہ سے ساقط نہیں ہوں گے۔ نکاحت منعقد ہوجائے گا ۔ شرائط باطل ہوجائیں گے۔ نان و نفقہ شوہر کے ذمہ لازم رہے گا ۔ نکاح متعد اور نکاح موقت (مقررہ مدت کیلئے نکاح) کی شریعت میں گنجائش نہیں۔ عالمگیری جلد اول ص : 553 میں ہے : المرأۃ اذا أبرأت الزوج عن النفقۃ عن النفقۃ بأن قالت أنت بری من نفقتی اور امامکنت امرأ تک فان لم یفرض القاضی لھا التفقۃ فالبراء ۃ باطلۃ وان کان فرض لھا القاضی کل شھر عشر دراھم یصح الا براء من نفقۃ الشعر الاول ولم یصح من نفقۃ ماسوی ذ لک الشھر … النح۔

فتویٰ کو نہ ماننا، شریعت کی توہین نہیں ہے؟
سوال : (1  فتویٰ کی اہمیت کیا ہے۔ (2) فتویٰ کس حد تک پابند ہوتا ہے ؟ (3) کیا فتویٰ قابل عمل ہے ؟ (4) اگر کسی فتویٰ پر عمل نہ کیا جائے تو اس کا مذہبی رد عمل کیا ہوگا ۔ (5) اگر فتویٰ پر عمل نہ کیا جائے تو دوسرا اقدام کیا کیا جاسکتا ہے؟ (6) اگر فتویٰ کا احترام نہ کیا جائے تو شریعت کا کیا حکم ہے ؟
نام …
جواب :  کسی بھی مسئلہ کے شرعی حکم یا اس مسئلہ کے حل کا نام ’’ فتویٰ ‘‘ ہے جو سوال کی صحت پر موقوف ہوگا۔ (2) فتوی فقہ (جو قرآن ، حدیث اور اجماع و اجتہاد) سے حکم شرعی کے مطابق ہوتا ہے۔ ( 3 تا 5) اگر انسان کے ذاتی عمل سے متعلق ہے (جیسے صحت نماز) تو مستفتی کو اس پر عمل کرنا چاہئے ورنہ وہ عنداللہ ماخوذ ہوگا اور کسی دوسرے کے حقوق سے متعلق ہے تو اس پر عمل نہ کرنے کی صورت فریق ثانی کو یہ حق ہے کہ حاکم مجاز سے رجوع ہو۔  (6)  فتویٰ چونکہ حکم شرعی ہے، اس کا احترام کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے۔ اس کی توہین سے شریعت کی توہین ہوگی جس میں کفر کا اندیشہ ہے۔

مذاق میں طلاق دینا
سوال :  میری بہن کو ان کے شوہر نے گھریلو تکرار کے دوران تین مرتبہ طلاق طلاق طلاق کہا۔ بعد میں یہ کہہ رہا ہے کہ ’’ میں نے مذاق سے کہا ہوں‘‘۔ میری بہن حاملہ ہے۔ ایسی صورت میں شرعاً کیا حکم ہے ؟
نام ۔۔۔
جواب :   صورت مسؤل عنہا میں شوہر نے بیوی کو اگر مذاق میں طلاق دی ہے تو بھی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوکر تعلقِ زوجیت بالکلیہ منقطع ہوگیا ۔ عالمگیری جلد اول کتاب الطلاق فصل فیما یقع طلاقہ میں ہے۔ و طلاق  اللاعب والھازل بہ واقع ۔ اور اسی کتاب میں ہے : وزوال حل المناکحۃ متی تم ثلاثا اب بغیر حلالہ دونوں آپس میں دوبارہ عقد بھی نہیں کرسکتے۔ کنزالدقائق کتاب الطلاق فصل فیما تحل بہ المطلقہ میں ہے : و ینکح مبانتہ فی العدۃ و بعدھا لا المبانۃ بالثلاث ولو حرۃ و بالثنتین لو أمۃ حتی یطأھا غیرہ۔ حاملہ کی عدت وضع حمل (زچگی ) پر ختم ہوتی ہے ۔ فتاوی عالمگیری جلد اول باب العدۃص : 528 میں ہے ۔ ولیس للمعتدۃ بالحمل مدۃ تواء ولدت بعد الطلاق أوالموت بیوم أو أقل ۔

مسجد میں نکاح
سوال :  آج کل مسجد میں نکاح کو ترجیح دی جارہی ہے۔ کیا مسجد میں نکاح ضروری ہے ؟ اور اگر مسجد کے علاوہ شادی خانہ میں نکاح انجام پائے تو کیا وہ خلاف سنت ہے ؟
محمد حبیب الدین ، نامپلی
جواب :  شریعت مطہرہ میں نکاح دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کا نام ہے۔ تاہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے اعلان کو پسند فرمایا ہے۔ امام نسائی نے نکاح کے اعلان سے متعلق ایک مستقل باب ’’ اعلان النکاح بالصوت و ضرب الدف‘‘ قائم فرمایا اور اس کے تحت ایک حدیث نقل فرمائی : ’’ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فصل مابین الحلال و الحرام الدف والصوت فی النکاح ‘‘ (نسائی ج : 2 ص : 75 )

اس حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال و حرام میں تمیز  کے لئے نکاح کے اعلان پر زور دیا۔ چونکہ مسجد، خیر و برکت کی جگہ ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب مقام ہے اور اس میں نکاح ہونے سے لوگوں میں نکاح کا اعلان ہوجاتا ہے، اس لئے شریعت میں مسجد میں نکاح مستحسن و پسندیدہ ہے۔ چنانچہ ترمذی شریف، کتاب النکاح، باب اعلان النکاح میں بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ اعلنوا ہذا النکاح  واجعلوہ فی المساجد الخ ‘‘نکاح کا اعلان کرو اور مسجد میں نکاح کرو۔ فقہاء کرام نے مسجد میں نکاح کو مستحب قرار دیا ہے۔ مسجد میں نکاح ہو تو آداب مسجد کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔ لیکن مسجد میں نکاح کرنا ہی لازم و ضروری نہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بی بی صفیہ سے خیبر و مدینہ کے درمیان جبکہ آپ وہاں تین دن مقیم تھے نکاح فرمایا۔ ’’ عن انس قال اقام النبی صلی اللہ علیہ وسلم بین خیبر والمدینۃ ثلاثاً …‘‘ (البخاری ، کتاب النکاح ج : 2 ص : 775 )
اسلام میں نکاح از قسم عبادت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کی پیروی ہے۔ اس میں مقام کی تعین شرعاً مقرر نہیں، بلکہ وہ عاقدین کی صوابدید اور سہولت پر موقوف ہے اس لئے صحابہ کرام مسجد نبوی کا التزام کئے بغیر حسب سہولت نکاح کیا کرتے۔چنانچہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ پر شادی کی بشاشت اور  پلساہٹ کے آثار ملاحظہ فرمائے تو ارشاد فرمایا ’’ کیا ماجرا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے شادی کرلی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے برکت کی دعا کی اور ولیمہ کرنے کا حکم فرمایا ۔ ’’ عن انس ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم رأی علی عبدالرحمن بن عوف اثر صفرۃ قال : ماھذا ؟ قال تزوجت امرأۃ علی وزن نواۃ من ذھب قال بارک اللہ لک اولم ولو بشاۃ‘‘ (بخاری ۔ کتاب النکاح ج : 2 ص : 775-774 )

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند خواتین اور بچوں کو شادی کی تقریب سے واپس آتے ہوئے ملاحظہ فرمایا تو ارشاد فرمایا : تم لوگ میرے نزدیک محبوب لوگوں میں سے ہو۔
’’ عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ قال : ابصرالنبی صلی اللہ علیہ وسلم نساء و صبیانا مقبلین من عرس فقام فقمنا فقال : اللھم انتم من أحب الناس الی‘‘ (بخاری ، کتاب ال نکاح ج : 2 ص : 778 )
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک غزوہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا جب ہم مدینہ واپس ہورہے تھے تو میں جلدی کرنے لگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم کیوں جلدی کر رہے ہو؟ میں نے عرض کیا : حال ہی میں میری شادی ہوئی ہے۔ ’’ عن جابر قال : کنت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی غزوۃ فلما قفلنا تعجلت علی بعیر قطوف فلحقنی راکب من خلف فالتفت فاذا انا برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ما یعجلک ! قلت انی حدیث عھد بعرس…‘‘ (بخاری شریف ۔ کتاب النکاح ج : 2 ص : 789 )
ان احادیث مبارکہ اور صحابہ کرام کے عمل سے ثابت ہے کہ نکاح کے لئے مسجد کا التزام ضروری نہیں اور اگر شادی خانہ میں سنت کے مطابق عقد کیا جائے تو عقد ، مسجد میں نہ ہونے کی وجہ سے اس کو خلاف سنت نہیں کہا جائے گا۔