سڈنی ، 25 مارچ (سیاست ڈاٹ کام ) حریف ٹیموں کو یکے بعد دیگر شکست سے دوچار کردینے کے بعد ہندوستان کو اپنی سخت ترین آزمائش کا سامنا رہے گا جب ڈیفنڈنگ چمپینس کا مقابلہ طاقتور آسٹریلیا سے ہوگا جو آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ کا کل یہاں دھماکو سیمی فائنل ثابت ہونے کی توقع ہے۔ انٹرنیشنل کرکٹ کی موجودہ طور پر شدید ترین رقابتوں میں شامل اس مقابلہ آرائی کا چھ ہفتے بعد احیاء ہونے جارہا ہے جبکہ مہندر سنگھ دھونی کے کھلاڑی مائیکل کلارک کی ٹیم کے خلاف نبردآزما ہوگی جو اپنی صفوں میں بعض اعلیٰ معیار کے کھلاڑیوں کے ساتھ بے حد مسابقتی رہے گی۔ جہاں تک آسٹریلیا اور ہندوستان کے درمیان ورلڈ کپ میں مسابقت کا معاملہ ہے، اول الذکر کو جملہ 9 مقابلوں میں 6-3 کے ساتھ واضح سبقت حاصل ہے۔ تاہم آخری مرتبہ باہمی مقابلہ گزشتہ ورلڈ کپ میں دھونی کی ٹیم نے کوارٹر فائنل میں رکی پانٹنگ زیر قیادت آسٹریلیا کو ہرایا تھا۔ جہاں ایشز کی رقابت کے ساتھ تاریخ وابستہ ہے اور انڈیا۔ پاکستان مقابلوں کا اپنا سیاسی رنگ ہوا کرتا ہے، وہیں ہندوستان بمقابلہ آسٹریلیا کی رقابت حالیہ برسوں میں مساوی طور پر پُرتجسس رہی ہے جہاں معمولی برتری بھی سخت مقابلے کے بغیر نہیں دیتا ہے۔
اصل مقابلے کے اندرون چھوٹی مسابقتیں یقینی
اصل مقابلے کے اندرون چند چھوٹے مقابلوں کی توقع رکھ سکتے ہیں۔ یہ روی چندرن اشوین کے کیرم بال اور گلن میکسویل کی غیرمعمولی جارحانہ بیٹنگ کے درمیان ہوسکتا ہے۔ محمد سمیع کی نپی تلی لمبائی والی گیندوں کے خلاف ڈیوڈ وارنر کے جارحانہ حملے یا مائیکل کلارک کے سالہا سال کے تجربے کی رویندر جڈیجا کی باندھے رکھنے والی گیندبازی کے خلاف مسابقت بھی غیرمعمولی کامیاب مقابلے کی گنجائش رکھتے ہیں۔ یہ بھی فراموش نہ کریں کہ مچل اسٹارک کی ویراٹ کوہلی کے امتیاز کے خلاف چالاکی بھی رہے گی۔ تمام نگاہیں کوہلی پر مرکوز ہوں گی، جنھوں نے اس ٹورنمنٹ کے پہلے میچ میں پاکستان کے خلاف اپنی سنچری کے بعد کوئی 50 یا زائد اسکور نہیں کیا ہے۔ تاہم جتنا بڑا موقع رہے، کوہلی کی بیاٹ اتنی کشادہ ہوجاتی ہے۔ دہلی کے کھلاڑی کو شاید معیاری آسٹریلیائی اٹیک پسند ہے جس کے خلاف انھوں نے تمام موسم گرما رنز بنائے ہیں۔
دونوں ٹیموں میں موجودہ طور پر زیادہ فرق نہیں
کسی ورلڈ کپ کا سیمی فائنل بلاشبہ کاغذ پر نہیں کھیلا جاتا ہے اور اس لئے یہ دونوں ٹیموں کے درمیان فرق کرنے کی بہت کم گنجائش رہے گی، جب وہ سڈنی کرکٹ گراؤنڈ ( ایس سی جی ) پر مدمقابل ہوں گے۔ یہ ایسا میچ رہے گا جس میں موجودہ فام کا مقابلہ حالیہ اعداد و شمار کے خلاف رہے گا جو اسے ’بڑی لڑائی‘ بناتا ہے، جس کے بعد خطابی مقابلہ نیوزی لینڈ کے خلاف 29 مارچ کو ایم سی جی (ملبورن کرکٹ گراؤنڈ) میں کھیلا جائے گا۔ موجودہ فام کی اساس پر سات لگاتار کامیابیوں کے ساتھ ہندوستان ابھی تک اس ٹورنمنٹ کی عمدہ ٹیم رہی ہے لیکن جب معاملہ آسٹریلیا سے کھیلنے کا آتا ہے تو انھوں نے دونوں فارمٹس میں سات میچوں میں کوئی بھی مقابلہ نہیں جیتا، جن میں اس میگا ایونٹ کے وارم اپ میچز شامل ہیں جو لگ بھگ 43 روز قبل کھیلے گئے تھے۔ ان مقابلوں میں چار ٹسٹ (جن میں سے دو میزبانوں نے جیتے)، ٹرائی سیریز کے دو او ڈی آئیز اور اصل ٹورنمنٹ کے آغاز سے قبل وارم اپ میچ ( اَن اَفیشل ) بھی شامل ہیں۔ مگر ہولناک آسٹریلیائی موسم گرما کی یادوں کی جگہ بہت پہلے ہی اس ورلڈ کپ میں شاندار مظاہروں کے جشن نے لے لی، جہاں بعض ٹیموں نے تو بُری طرح شکست مان لی اور بعض دیگر حریفوں کو عمدہ مظاہرے کے ذریعے ناکام بنایا گیا۔
ٹیم انڈیا ماقبل ورلڈ کپ اور اس کے بعد …
انڈین ٹیم کو آسٹریلیا میں گزشتہ چار ماہ کے دوران تبدیل ہونے والے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے دو ڈیویژنس میں الگ کیا جاسکتا ہے : ماقبل ورلڈ کپ مرحلہ جہاں سب کچھ منتشر ہوتا رہا اور پھر ورلڈ کپ مرحلہ جہاں سب کچھ ٹھیک ٹھیک ہوتا نظر آیا ہے۔ وہ بولنگ شعبہ جو ’نیلے لباس والوں‘ کیلئے دائمی کمزوری سمجھا جاتا رہا، اب اُن کی طاقت بن چکا ہے۔ محمد سمیع (17 وکٹیں)، اومیش یادو (14) اور موہت شرما (11) نے آپس میں مل کر اُن 70 کے منجملہ 42 شکار بنا چکے ہیں جو ہندوستان نے سات مقابلوں میں حاصل کئے ہیں۔ آسٹریلیا کیلئے وطن میں سب سے بڑی آزمائش 42,000 نشستوں کی گنجائش والے ایس سی جی کی وکٹ پر کھیلنا رہے گی جو شاید اُن کی پسند کے مطابق نہ ہو۔ اس وکٹ کی نیچی اور دھیمی نوعیت دیکھنے میں آئی جب کوارٹر فائنل میں جنوبی افریقہ نے سری لنکا کی بیٹنگ کے پرخچے اُڑا دیئے تھے، جس میں عمران طاہر اور جے پی ڈومینی نے ترتیب وار چار اور تین وکٹیں لئے ۔ یوں تو پیس بولروں نے ہندوستان کیلئے نمایاں کارکردگی دکھائی ہے، لیکن جمعرات 26 مارچ کا میچ ہوسکتا ہے اشوین اور جڈیجا کی موجودگی کی وجہ سے مہمانوں کے حق میں چلا جائے ۔ بالخصوص اشوین ٹورنمنٹ میں تاحال 12 وکٹوں کے ساتھ آسٹریلیا کیلئے اپنے ’ڈرِفٹرز‘ اور ’دوسرا‘ نوعیت کی گیندوں کے ذریعے مشکل بولر ثابت ہوسکتے ہیں ۔ اسی طرح آسٹریلیا کو اس سست پچ کیلئے اسپیشلسٹ اسپنرز کے فقدان کے سبب نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے۔ اتنا ہی اہم یہ رہے گا کہ کس طرح اسٹیون اسمتھ جو اسپنرز کے خلاف بہترین فُٹ ورک کے حامل شخص ہیں، ہندوستانیوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اکثر ماہرین بشمول سابق انگلینڈ کیپٹن مائیکل وان نے کہا ہے کہ ٹاس جیتنے والی ٹیم کو حالات سے قطع نظر پہلے بیٹنگ کرلینا چاہئے۔
دوسرا سیمی فائنل : آسٹریلیا بمقابلہ ہندوستان بمقام سڈنی بوقت صبح 9:00 بجے (IST)