میر تقی میرؔ

ڈاکٹر محمد فیض احمد
میر تقی میرؔ کی شاعری اٹھارویں صدی کے برصغیر کی روح کی آواز اور بے چین دلوں کی پکار ہے ۔ ان میں اس دور کے احساسات ، امید و بیم ، خوف و رجا ، آس و یاس اور غم و الم کی دلخراش چنگاریاں بھی ہیں ۔ ملاحظہ کیجئے میر کے درد انگیز احساسات
اے دوست کوئی مجھ سا رسوا نہ ہوا ہوگا
دشمن کے بھی دشمن پر ایسا نہ ہوا ہوگا
بیٹھا ہوں میرؔ مرنے کواپنے میں مستعد
پیدا نہ ہوں گے مجھ سے بھی جانباز میرے بعد
بنی نہ اپنی تو اس جنگ جو سے ہرگز میرؔ
لڑائیں جب سے ہم آنکھیں لڑائیاں دیکھیں
دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لُوٹا گیا
راہ دور عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
سبز ہوتی ہی نہیں یہ سرزمیں
تخم خواہش دل میں تو بوتا ہے کیا
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میرؔ
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
اگر کوئی شخص بیک وقت متضاد عناصر سے نبرد آزما ہو تب اس کی شخصیت میں بھی اس ماحول کے اثرات دکھائی دیتے ہیں ۔ ان حالات سے فرار کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی تھی ۔ میر کے والد متقی و پرہیزگار بیٹے کو بھی عالم ظہور میں عشق کے ظہور سے روبرو ہونے کی تلقین کرگئے تھے ۔ کہتے ہیں۔

محبت نے ظلمت سے کاڑھا ہے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
دراصل یہی عشق ان کی شاعری کی تخلیقی روح محسوس ہوتی ہے ۔ یہی میرؔ کی شاعری کی رنگ و آہنگ ہے ۔ میرؔ کا گھر اور ملک اس زمانے میں غیر یقینی ماحول سے دوچار تھے ۔ ملک کی صدیوں قدیم معاشرتی ، سماجی ، سیاسی و تہذیبی نظام کے تانے بانے ان کی آنکھوں کے سامنے بکھرتے جارہے تھے ۔ ذاتی غم اور دنیاوی غم دونوں نے حساس اور انا پسند میرؔ کو بے حد رلایا ۔ اسی سبب ان کی شاعری میں نشتریت در آئی ہے ۔ اجڑا نگر ، چراغ مفلس ، چراغ گور ، ویرانہ صحرا ، مرگ جیسی تراکیب وکیفیات اسی سمت اشارہ کرتی ہیں ۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ میرؔ اپنی ذات کے خول میں بند ، اپنی انا پسندی اور اپنی ذات کے احساس کی اہمیت کا تصور ان میں کچھ زیادہ تھا ۔ مصائب و آلام اور زمانے کی دھتکار ، زندگی کے حصول کی کشمکش ، تہذیبی شکست و ریخت اس دور کی سیاسی تبدیلیوں میں راست میرؔ کی شرکت ، ان کی شخصیت پر اثر انداز رہی ہے ۔ 1771 – 1772 تک تقریباً پچیس برس مختلف امراء کے ملازم و مصاحبت کی نوکری کی ۔ امیروں کو فقیر اور شاہ کوگدا بننے کے گواہ رہے ۔ بادشاہوں کے آنکھوں میں سلائیاں پھرتی بھی دیکھیں ۔ میر تقی میرؔ نے ایک زندہ باشعور انسان کی طرح زندگی سے آنکھ سے آنکھ ملائی اور اس احساسات کو اپنی تخلیقی وجود کا حصہ بنالیا ۔ چند اشعار ملاحظہ کیجئے۔
پائے خطاب کیا کیا دیکھے عتاب کیا کیا
دل کو لگا کے ہم نے کھینچے عذاب کیا کیا
کاٹے ہیں خاک اڑا کر جوں گرد باد برسوں
گلیوں میں ہم ہوئے ہیں اُس بن خراب کیا کیا
کچھ گل سے ہیں شگفتہ کچھ سرو سے ہیں قدکش
اس کے خیال میں ہم دیکھے ہیں خواب کیا کیا
انواعِ جرم میرے پھر بے شمار وبے حد
روز حساب لیں گے مجھ سے حساب کیا کیا
کچھ سوجھتا نہیں ہے مستی میں میرؔ جی کو
کرتے ہیں پوچ گوئی پی کر شراب کیا کیا

میر تقی میرؔ کی قدر اس پرآشوب دور میں بھی رعایت خاں ، راجہ جگل کشور ، راجہ ناگرمل ، بادشاہ وقت شاہ عالم ، نواب بہادر جاوید خاں نے قدر افزائی کی ۔ دہلی سے لکھنؤ آکر انہیں فراغت ضرور ملی ، لیکن دہلی اور دہلی کے کوچوں کی یاد ستاتی تھی ۔ کہتے ہیں۔
لکھنؤ دلّی سے آیا یاں بھی رہتا ہے اداس
میرؔ کو سرگشتگی نے بے دل و حیراں کیا
یارب شہر اپنا یوں چھڑایا تو نے
ویرانے میں مجھ کو لابٹھایا تو نے
میں اور کہاں لکھنؤ کی یہ خلقت
اے وائے یہ کیا کیا خدایا تو نے
خرابہ دلّی کا وہ چند بہتر لکھنؤ سے تھا
وہیں میں کاش مرجاتا سراسیمہ نہ آتا یاں
میرؔ کی شاعری کی ابتدائی ریختہ گوئی سے ہوئی اور انہیں فارسی میں شعر کہنے کا خیال بہت بعد میں آیا جیسا کہ ہر زمانے کے علمی تقاضے ہوتے ہیں ۔آج انگریزی زبان میں گفتگو کرنا اور لکھنا پڑھنا تعلیم یافتہ ہونے کی دلیل ہے ۔ٹھیک اسی طرح میر کے زمانہ میں فارسی کا حال کچھ اسی نوعیت کا رہا ۔ میر اپنی اردو شاعری اور اس کے رنگ و آہنگ کے خود ہی موجد ہیں ۔ آپ غنائی صنف سخن غزل کے خدائے سخن ہیں ۔ عشق کی علامات و رمزیات ،جذبات و احساسات ،تجربات کا درک ، اشاروں کنایوں میں اپنی بات کہہ جانا اور فکری اظہار کے تحت میرؔ کے شعر ضرب المثل بن جاتے ہیں ۔ قدآور محقق و نقاد ڈاکٹر جمیل جالبی نے میرؔ کی شاعری کا احاطہ اس طرح کیا ہے :

’’محمد تقی میرؔ ہمارے عظیم شاعر ہیں ، اتنے عظیم کہ ابھی خود ہم ان کی عظمت سے پوری طرح واقف نہیں ہوسکے ہیں ۔ میرؔ ایک ایسا بحر ذخار ہے جس کے مختلف موسم ہیں اور ان مختلف موسموں کی اتنی مختلف کیفیات اور لطافتیں ہیں کہ ساری زندگی ان موسموں کے دائرے میں سمٹ آتی ہے ۔ میرؔ کو جب پڑھئے وہ ایک نئی شان سے ہمارے سامنے آتا ہے ۔ اور شاید ہر آن نئی شان کی وجہ سے انہیں خدائے سخن کہا جاتا ہے ۔ میرؔ کی یہ شان رنگ زمانہ کے ساتھ بدلتی رہتی ہے اور ہر دور میں ایک نیا میرؔ ہمارے سامنے آکھڑا ہوتا ہے ۔ ہر نسل اپنا میر خود تلاش کرتی ہے ۔ اس لئے میرؔ پر لکھنا آسان بھی ہے اور مشکل بھی ، آسان اس لئے کہ جو کچھ میرؔ پر لکھا گیا ہے اسے ہی دہرادیا جائے اور مشکل اس لئے کہ میرؔ کے ساتھ جب تک ایک عمر بسر نہ کی جائے وہ ہم سے کھل کربات نہیں کرتا‘‘ ۔
زندگی میں بہت سے واقعات ہمیں ایک نئے احساس وجذبہ سے متعارف کراتے ہیں ۔ لیکن اس کے اظہار میں جدت ، تخلیقی صلاحیتوں اور یگانہ روزگاری کی دلیل میرؔ کا یہ شعر ہے ۔

ہم فقیروں سے بے ادائی کیا
آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا
ایک معلوم احساس کو نیاپن میرؔ کی شعر گوئی کی انفرادیت ہے ۔ قاری آپ کے اشعار کے معنی و مفہوم سے قبل اس کے تاثر کو قبول کرتا ہے ۔ میرؔ کو غم و الم کا شاعر سمجھا جاتا رہا ہے ۔ غم و الم ، انسانی رشتوں کو سمتیں ،چیختی خاموشیاں ، صبر و استقلال اور جہاں بینی کے احساس کو ان اشعار میں ملاحظہ فرمائیں :
مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کئے جمع تو دیوان کیا
مرنے کا بھی خیال رہے میرؔ اگر تجھے
ہے اشتیاق جانِ جہاں کے وصال کا
بیتاب دل نہ دفن ہوا اے کاش میرے ساتھ
رہنے نہ دے گا لاش کوئی دن مزار میں
میرؔ کی شاعری کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے ایک انوکھے طرز کو جنم دیا جو زبان کے اعتبار سے صاف ،سادہ ، رواں اور سلاست لئے ہوئے ہے ۔ حالات و حوادث زمانہ نے ان کی شاعری کو سوز گداز کا مرقع بنایا ، اس لحاظ سے آپ غزل کے مزاج ، حسن اور تغزل کو نکھارنے اور مخصوص اسلوب میں اپنا مقام آپ رکھتے ہیں ۔