میرزایگانہ چنگیزی (آبروئے لکھنؤ خاک عظیم آبادہوں)

 

سرورالہدیٰ
شعبۂ اردو ، جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی
اردو کا ہر سنجیدہ طالب علم یگانہ کو ایک منفرد شاعر کی حیثیت سے جانتا ہے۔ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ یگانہ کی شاعری اور شخصیت ادب کی دنیا میں بڑی متنازع رہی ہے۔ آج بھی ایسے ادیب اور ناقد موجود ہیں جو یگانہ کو پسند نہیں کرتے اور ان کا یہ خیال ہے کہ بے وجہ یگانہ کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ یگانہ کے انتقال کے بعد ایک عرصہ بیت گیا ہے لیکن اب بھی ان کا نام سن کر منہ بنانے والے اور پہلو بدلنے والے کیونکر موجود ہیں۔ جو یگانہ کے معاصرین تھے ان سے یگانہ کے معاملات جیسے بھی رہے ہوںوہ اب تاریخ کے اوراق کا حصہ ہیں لیکن اس زمانے میں یگانہ کا نام سن کر بدکنے اور غصے کا اظہار کرنے کا جواز کیا ہے۔ اس سوال پر غور کیا گیا ہوگا مگر اس کا جواب جس طرح سامنے آنا چاہئے تھا وہ سامنے نہیں آسکا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب اردو کے ایک تاریخی ادارے نے لکھنؤ میں یگانہ پر سیمینار کرنا چاہا تو لوگوں نے اس کی مخالفت کی۔ لکھنؤ میں یگانہ کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا اور خود یگانہ نے اہل لکھنؤ کے ساتھ جس طرح کا سلوک روا رکھا اس کے پیش نظر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہاں یگانہ کی مخالفت ہو۔ لیکن اب تو کئی ایسی نسلیں آچکی ہیں جو نہ تو یگانہ کو ٹھیک سے جانتی ہیں اور نہ یگانہ کے معاصرین کو۔ چند پرانے لوگ اس درد کو محسوس کرتے ہیں جو یگانہ نے برداشت کئے اور یگانہ نے اپنے معاصرین پر جو حملے کئے ان کا حوالہ بھی موقع موقع سے آتا رہتا ہے۔ مجموعی طور پر اب تو یگانہ کی شاعری ہی موضوع گفتگو ہے یا اسے موضوع گفتگو ہونا چاہئے۔ یگانہ کے ساتھ جو لکھنؤ میں افسوسناک واقعہ پیش آیا اس کی تھوڑی تفصیل عابد سہیل نے اپنی خودنوشت سوانح’’ جو یاد رہا‘‘ میں پیش کی ہے۔ اس کی اہمیت اس لئے بھی ہے کہ اس واقعے کو عابد سہیل نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اس وقت ان کی عمر کم وبیش سولہ سترہ سال تھی۔ عابد سہیل نے اخبار کا وہ تراشا بھی شائع کردیا ہے جس میں اس حادثے کی خبر شائع ہوئی تھی۔ یہ پہلی تحریر ہے جو میں نے ایک ایسے شخص کی پڑھی ہے جس نے اس افسوسناک واقعے کو دیکھا تھا۔ عابد سہیل نے نہایت ہی دردمندی کے ساتھ واقعے کو درج کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ نیرمسعود کے بعد عابد سہیل دوسرے ایسے لکھنؤ کے ادیب ہیں جن کے یہاں یگانہ کے تعلق سے درمندی بھی ہے اور ایمانداری بھی۔ یگانہ کو ناپسند کرنے والے لوگ آج کیونکر مل جاتے ہیں اس بارے میں جب میں غور کرتا ہوں تو پتا چلتا ہے کہ مسئلہ یگانہ کا نہیں بلکہ ناپسند کرنے والوں کا ہے۔ یگانہ شخصیت اور شاعری کے تعلق سے اپنا کام کرکے رخصت ہوگئے لیکن انہیں بھی اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ ان کی تحریروں میں جو شور اور توانائی ہے وہ تادیر قائم رہے گا۔ جس طرح ان کے مخالفین ان کی شخصیت اور شاعری کو داخلی سطح پر پسپا نہیں کرسکے آنے والا وقت بھی اسے زیر نہیں کرسکے گا۔ میں نے یگانہ کے تعلق سے ایسی تحریریں پڑھی ہیں جن میں یگانہ کے ساتھ نہ صرف پورا انصاف کیا گیا ہے بلکہ یگانہ کی انفرادیت بھی سامنے آتی ہے۔ لیکن ایسی گفتگو بھی سنی ہے جو یگانہ کو شاعر تک تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو یگانہ کے داخلی شور اور توانائی کو سننے اور محسوس کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں۔ بعض سمجھدار لوگ بھی جو ایک لفظ کی رعایت سے یگانہ کے یہاں دوسرے لفظ کو تلاش کرتے ہیں اور جب وہ نہیں ملتا ہے تو کہتے ہیں کہ دیکھئے کیسی شاعری ہے ۔ یہ ایک ایسی محرومی ہے جس کو محسوس کرنے میں ایک عمر گزر جاتی ہے۔ یگانہ پر جو تنقیدی سامنے آئیں ان کی ایک لمبی فہرست ہے اور ان میں سے کوئی بھی یگانہ کا دوست اور رشتہ دار نہیں۔شاعری کی طاقت نہیں تو اور کیا ہے کہ یگانہ کے بعض اشعار نہ صرف یاد ہیں بلکہ وہ موقع موقع سے پریشان کرتے ہیں۔ ان شعروں میں ایک ایسی زندگی ہے جو تصنع اور اوڑھی ہوئی اشرافیت اور علمیت کے دامن کو چاک کرتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ فریب میں جینا کوئی جینا ہے۔ یگانہ نے عام زندگی میں جو روش اختیار کی اس کا براہ راست رشتہ ان کی شاعری سے مل جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی مثال ہے جو یگانہ کے زمانے میں اور اس کے بعد کہیں نہیں ملتی۔

شمیم حنفی نے اسی لئے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ یگانہ کی شاعری سے اٹھنے والے ہر سوال کا جواب یگانہ کی شخصیت فراہم کرتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یگانہ کی شاعری یگانہ کی شخصیت کا محض عکس ہے۔ یگانہ کا قاری محسوس کرسکتا ہے کہ یگانہ کی شخصیت کی لہریں ان کی شاعری میں پوری طرح درآئی ہیں۔ یہ کچھ اس طرح ایک دوسرے کے یہاں سفر کرتی ہیں کہ کبھی شاعری شخصیت معلوم ہوتی ہے تو کبھی شخصیت پر شاعری کا گمان ہوتا ہے۔ یگانہ کی ناپسندیدگی کے اسباب مختلف ہوسکتے ہیں مگر ایک سبب جس کی طرف اشارہ کیا جاچکا ہے، اس کی روشنی میں یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ یگانہ کے جیسا شعر کہنے کے لئے اس قیامت سے گزرنا پڑے گا ۔ بعض شاعروں نے یگانہ کی جو مخالفت کی یا کررہے ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ وہ یگانہ کے جیسا نیا اور منفردشعر نہیں کہہ سکتے ۔ وہ کلاسیکیت کو توڑ کر کوئی نئی حسیت کی طرف قدم نہیں بڑھا سکتے۔ یگانہ کے بیشتر اشعار یگانہ کے معلوم ہوتے ہیں۔ یہ سعادت بھی کتنے لوگوں کے حصے میں آئی۔ شمیم حنفی نے یہ بھی لکھا ہے کہ یگانہ کے تمام معاصرین کا خاتمہ بالخیر ہوا۔ یگانہ آج بھی موضوع گفتگو ہیں اور وہ پریشانی کا سبب ہیں تواسے یگانہ کی جیت نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے۔یگانہ کے بارے میں شمس الرحمن فاروقی نے نئی غزل کے سیاق میں یگانہ کی بعض خوبیوں کی تعریف کی تھی۔ یہ تعریف ان کی کتاب لفظ ومعنی میں دیکھی جاسکتی ہے۔ لیکن بعد کو ان کے یہاں یگانہ کے تعلق سے رائے تبدیل ہوگئی۔ فاروقی صاحب نے یگانہ کی انانیت، غصے اور جوش کو نام نہاد اکڑفوں کا نام دیا اور اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ یگانہ نے اپنی غزل کے ذریعہ بہت معمولی اور اوپری سطح پر تبدیلی کی۔ ان کا کلام استعارے سے خالی ہے وغیرہ وغیرہ۔ باقرمہدی، راہی معصوم رضا، ممتاز حسین، میکش اکبرآبادی، نیر مسعود، شمیم حنفی، سلیم احمد وغیرہ نے یگانہ کی بڑی تعریف کی ہے۔ باقر مہدی نے تو یگانہ کو اردو غزل کی تیسری آواز قرار دیا اور وہ تمام عمر یگانہ کے مداح رہے۔ پچھلے دنوں نجیب جمال کی ایک اہم کتاب ’یگانہ‘پاکستان سے شائع ہوئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ یگانہ پر ابھی تک لکھی جانے والی کتابوں میں سب سے اہم کتاب ہے۔ نجیب جمال نے بعض ایسے نکات اور دستاویزات کی نشاندہی کی جن کی طرف یگانہ کے ناقدین کی نگاہ نہیں گئی تھی۔ اس کتاب کی اشاعت سے اس بات کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ یگانہ میں دلچسپی وقت کے ساتھ بڑھی ہے۔ مشفق خواجہ نے کلیات یگانہ مرتب کرکے یگانہ کے بعض مخالفین کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ آپ کسی خاص مقام یا خاص لوگوں کے درمیان بیٹھ کر کسی اہم شاعر کو رد نہیں کرسکتے یا اپنی رائے منوا نہیں سکتے۔ مشفق خواجہ یگانہ کے ایک ایسے محقق اور قدرداں ہیں جنہوں نے نئے سرے سے یگانہ کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا۔ انہوں نے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اب تو یگانہ کی شاعری ہی یگانہ کا حوالہ ہے۔ ان کے شخصی معاملات کو زیر بحث لانا اور اسے بار بار شاعری کے ساتھ خلط ملط کرنا ایک اچھی شاعری سے محروم ہوجانا ہے۔
یگانہ کا تعلق دکن حیدرآباد سے بھی رہا ہے۔ انہوں نے دکن حیدرآباد سے جو خط مسعود حسن رضوی ادیب کو لکھے ہیں ان سب پر ’لاتور، دکن‘ درج ہے۔ ایک خط میں مسعود حسن رضوی ادیب کو لکھتے ہیںکہ’’کشتگان و زخم خوردگان مرزا غالب شکن کا کیا حال ہے؟آپ تو بہت کچھ تماشے دیکھا کرتے ہوں گے۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ الناظر میں حیات وجدانی پر مسلسل تنقید ہورہی ہے مگر مجھے یقین ہے کہ میری رفتار زندگی اور افتاد مزاج وغیرہ پر دل کی بھڑاس نکال لینے کے سوا کلام پر کوئی صحیح اعتراض میرے مسلک کے تحت نہ کرسکے گا۔ خیر دیکھا جائے گا۔‘‘
لاتور، دکن ۷ فروری ۳۶ مرزا یگانہ چنگیزی، سب رجسڑار
یگانہ نے اپنے معاصرین کے بارے میں یہ بات کہی تھی کہ میرے کلام پر کوئی صحیح اعتراض میرے مسلک کے تحت نہ کرسکے گا۔ اس کا اطلاق آج کی دنیا پر بھی ہوتا ہے ۔ بہرحال اخیر میں یگانہ کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے:
علم کیا علم کی حقیقت کیا
جو بھی جس کے گمان میں آئی
ہاں وسعت زنجیر تک آزاد ہوں میں بھی
دنیا مری مجموعہ اضداد رہے گی
امیدوبیم نے مارا مجھے دوراہے پر
کہاں کے دیر وحرم گھر کا راستہ نہ ملا
پچھلا پہر ہے کاتب اعمال ہوشیار
آمادۂ گناہ کوئی جاگتا نہ ہو
گناہ گار ہوں لیکن وہ دل دیا تم نے
تری جناب میں پہنچوں تو تھرتھری نہ لگے
یگانہ کم سے کم اتنی تو لاج رکھنی تھی
کہ لکھنؤ سے وفا اہل لکھنؤ کرتے
جان سے بڑھ کر سمجھتے ہیں مجھے یاس اہل دل
آبروئے لکھنؤ خاک عظیم آباد ہوں