مہیب مشکلات میں گھرے عوام

خیراللہ بیگ
آندھراپردیش کی سیاست میں اب متمول افراد اور سب سے بڑے سرمایہ داروں کی چاندی ہے۔ ٹی آر ایس کے سربراہ چندر شیکھر راؤ کے تعلق سے ایک خبر آئی ہے کہ انہوں نے یہ واضح کردیا ہے کہ اب کی مرتبہ وہ صرف کروڑپتی یا کھرب پتی لیڈروں کو ہی ٹی آر ایس کا ٹکٹ دیں گے ۔ گویا پارٹی میں سینیاریٹی اور وفاداری عوامی خدمت گزاری کی کوئی قدر ہی نہ رہی جس کے پاس دولت ہے یا جو کوئی نوٹوں سے بھرے بیاگ دے گا، ٹکٹ اسے ہی ملے گی ۔ سیاست تو معاشرہ کی رہنمائی کا نام ہے ۔ ایسی رہنمائی جو منزل تک پہونچادے ۔عوام کو ان کی ضروریات کی تکمیل کرادے لیکن اب ایک کاروبار ہے، ایک دکانداری ہے اور جو جیتنا بڑا سرمایہ دار ہے وہ کسی وقت بھی اتنا بڑا سیاستداں بن سکتا ہے ۔ آ خر کیا وجہ ہے کہ ٹی آر ایس کے سربراہ نے صرف دولت والوں کو ہی پارٹی ٹکٹ دے کر ایم پی بنانے کا خیال کیا جو خدمت کا جذبہ ظاہر کرتے ہیں وہ ہی لوٹ لیتے ہیں ۔ ریاست کا قیام اور اسے ٹھیک ٹھیک چلانا سیاست کا کام ہے ۔ تلنگانہ بنانے سے پہلے ہی یہ انکشافات ہورہے ہیں کہ دولت ہی سب کچھ ہے تو ٹی آر ایس کے وفاداروں کی بے وفائی کے بعد ان کے زبان سے نکلنے والے جملے بھی حیران کن ہیں۔ٹی آر ایس ہائی کمان نے حال ہی میں اچانک پارٹی لیڈر رگھونندن کو معطل کردیا ، اس معطلی کے تعلق سے کئی شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ ایک لیڈر کی اچانک معطلی کی نوعیت اور وجہ کیا ہوسکتی ہے۔ جس لیڈر نے پارٹی کے قیام سے اب تک ہر گھڑی اور ہر لمحہ خدمت کی اسے سزا کیوں دی گئی ۔ یہ موضوع ان دنوں زیر گشت ہے تاہم ٹی آر ایس سربراہ نے اپنے وفادار ساتھی کو معطلی کی سزا دے کر سنسنی پھیلادی ہے ۔ اس سے زیادہ سنسنی معطل شدہ لیڈر پھیلا رہے ہیں بلکہ چندر شیکھر راؤ اور ٹی آر ایس کے دیگر اہم قائدین پر الزام لگارہے ہیں کہ یہ لوگ تلنگانہ ریاست کے قیام کا نعرہ باقاعدہ لگاتے ہیں۔ انتخابات کے دوران کئی راستوں سے یہ قائدین روپیہ بٹورتے ہیں۔ ٹی آر ایس کے معطل شدہ لیڈر رگھونندن نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پاس ٹی آر ایس لیڈروں کی دولت خوری کی فہرست ہے ۔ بلکہ ان تمام چیکس کے زیراکس کاپیاں ہیں جو ان لیڈروں نے حاصل کی ہیں ۔ ٹی آر ایس لیڈر کے ٹی آر سے ان کی ہوئی بات چیت کے چند ریکارڈس بھی میڈیا کو بتائے گئے ۔ ٹی آر ایس میں کے سی آر کے بھتیجہ ہریش راؤ کا نام بھی اہم ہے لیکن ان پر الزام ہے کہ انہوں نے کے ٹی آر کو شکست دینے کیلئے ان کے حریف کے لئے مہندر ریڈی 50 لاکھ روپئے دیئے تھے ۔ رگھونندن نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ ہریش راؤ ایک بلیک میلر ہیں۔ پدمالیہ اسٹوڈیو میں تعمیرات کے خلاف عدالت میں درخواست داخل کرتے ہوئے فلمی شحصیتوں سے بلیک میل کی لیکن وجئے شانتی کے گھر پر سمجھوتہ کرلیا گیا اور ایک خطیر رقم ہریش کو دی گئی۔ اس طرح کے انکشافات سے ٹی آر ایس کے سیاسی امیج پر کیا آنچ آئے گی یہ 2014 ء کے عام انتخابات کے نتائج سے معلوم ہوگا ۔ فی الحال پارٹی لیڈروں ورکرس اور رائے دہندوں میں یہ غور ہورہا ہے کہ رگھونندن نے جو کچھ انکشافات کئے ہیں وہ سچ ہوں گے کیونکہ وہ کے سی آر کے قریب رہ چکے ہیں اور پارٹی کے قیام سے لیکر اب تک کئی اعلیٰ قائدین سے ان کے بہتر مراسم رہے ہیں۔ بہرحال اس تعلق سے جتنے منہ اتنی باتیں ہیں۔ ایک طرف تلنگانہ کے وعدوں اور بلند بانگ دعوؤں سے عوام کو گولی دی جاتی ہے اور دوسری طرف تلنگانہ قائدین کے خلاف الزامات ہیں۔ اس موضوع پر کانگریس کے قائدین بھی پرجوش ہیں مگر وہ چیف منسٹر کو ہٹاکر اپنی پسند کا لیڈر لانے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوئے ۔ چیف منسٹر کرن کمار ریڈی بھی دہلی میں ہائی کمان سے ملاقات کر کے وزراء کو برطرف کرنے کی مہم کو انجام نہیں دے سکے ۔ اب اس ریاست اور ریاستی نظم و نسق کا جو کچھ حشر ہوگا وہ برا ہوگا ۔ ریاست تو ایک معاشرہ نہیں بنایا جاسکے تو کانگریس حکمراں کس طرح کامیاب کہلائیں گے۔ وہ اگر اپنے طرز حکمرانی کے ذریعہ کہاں کا سماج ، کہاں کی تبدیلی ، کہاں کی حکمرانی کے خیال سے حکومت کریں گے تو ایک ذلت ہوکہ مسلسل بڑھ رہی ہے کے م ص داق عوام کا حال دن بہ دن برا ہوگا ۔ چیف منسٹر سے کہا جارہا ہے کہ وہ اپنی حکمرانی کی طرف دیکھیں کیا انہیں یہ نہیں نظر آرہا ہے کہ عوام میں ناراضگی بڑھ رہی ہے ۔ کانگریس کے یوراج کہہ رہے ہیں کہ ان کی پارٹی مجرموں کا ساتھ نہیں دے گی۔ مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والوں کو ٹکٹس نہیں دے گی مگر انتخابات کے وقت سب کچھ جیسا کہا گیا ویسا نہیں ہوتا۔ راہول گاندھی کو معلوم ہے کہ داغدار وزرا کی وجہ سے پارٹی تو بدنام ہورہی ہے پھر بھی وہ داغدار وزراء کو داغ اچھے ہیں کہہ کر کسی اشتہاری ڈٹرجنٹ پاؤڈر کی تشہیر کی طرح اپنی پارٹی کی خرابیوں کو نظر انداز کر رہے ہیں ۔ اگر کانگریس سمجھتی ہے کہ داغدار وزراء کو رکھ کر داغ اچھے ہیں تو پھر اسے اپنے سیاسی حریفوں کی بڑھتی عوامی مقبولیت کا جوکھم مول لینے کے لئے بھی تیار رہنا ہوگا ۔ اس وقت ریاست کی بیوریو کریسی نے بھی ایک مخصوص طرز عمل کو فروغ دیا ہے ۔ سرکاری محکموں میں ترقیوں اور تیاریوں کیلئے اکثر سیاستدانوں وزراء اور حکمراں پارٹی کے لیڈروں کی سفارشات پر عمل کیا جاتا تھا لیکن اس مرتبہ بیوریو کریسی نے لیڈروں کی سفارشات کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر خالص محکمہ جاتی اصولوں پر عمل کیا ہے ۔ اس سچائی کے درمیان یہ تلخ حقیقت بھی ہے کہ نیا تعلیمی سال شروع ہونے والا ہے مگر سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں اساتذہ اور لکچررس کی خاطر خواہ تعداد نہیں ہے ۔ ریاست کے ہزاروں اسکولس اساتذہ سے محروم ہیں وہاں نہ سائنس کے ٹیچر ہیں اور نہ ہی آرٹس کے ماسٹر ہیں۔ آخر ہمارے پڑھے لکھے اور ہم سے کم پڑھے لکھے حکمراں کیوں محسوس نہیں کرتے کہ آرٹس مضامین بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے سائنسی مضامین ، اسکولوں اورکالجوں میں جب ضرورت کے مطابق تدریس کا انتظام نہ رہے تو یہ بچے کیا پڑھیں گے ۔ سرکاری اسکولوں اور کالجوں کے نتائج کس طرح بہتر ہوں گے جو حکومت اپنی ہی کابینہ کو پاک صاف کردار والے لوگوں سے چلانے میں کامیاب نہیں ہے وہ عوام خاص کر اس ریاست کے طلباء کو اچھے اساتذہ کہاں سے دے گی ۔ یہ حکمرانی کا بڑا المیہ ہے اسے عوام کے مسائل حل کرنا نہیں آتا۔ وہ شعوری یا لاشعوری طور پر اپنی سوچ کو ہائی کمان کی چھوٹی چھوٹی سرخیوں اور دائروں میں محدود کئے ہوئے ہے۔ یہ صرف کرن کمار ریڈی کا ہی نہیں بلکہ کچھ اور سیاستدانوں کا بھی مسئلہ ہے ۔ ریاستی سطح پر سیاستدانوںکو ان دنوں یہ باتیں زیب نہیں دیتیں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے راہ فراری اختیار کرلیں ۔ آندھراپردیش میں فقط وہی طاقتیں حقیقی سیاستداں ہیں جو عوام کے مسائل سے مکمل آگہی رکھتے ہیں۔ عوام کے مہیب مشکلات میں سے بیشتر کی وجہ کوئی اور نہیں حکومت کی غلط پالیسیاں اور کوتاہیاں ہیں ۔ کانگریس کی حکومت نے ریاست میں اپنی مدت کے تقریباً دو دور پورے کرلئے ہیں مگر ریاست میں بدعنوانی اور داغدار چہرے بڑھتے ہیں اس کی بھاری قیمت عوام اپنی جیبوں سے ادا کر رہے ہیں ۔ اس کی وجہ سے وہ سب سے زیادہ مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ ان کے لیڈروں اور داغدار وزراء کا کچھ نہیں بگڑے گا۔
kbaig92@gmail.com