غضنفر علی خان
عالم اسلام نے اس دور میں یوروپ اور دیگر ممالک میں علم و حکمت کے چراغ جلائے جبکہ آج اپنی ترقی پر نازاں یوروپ اور امریکہ گمراہی ، جہالت اور بے راہ روی کی زندگی گذار رہا تھا ۔ فن تعمیر سے لیکر ہر شعبہ حیات میں اسلام نے دنیا کو راہ دکھائی لیکن آج یہی عالم اسلام کم علمی اور گمراہی کا شکار دکھائی دیتا ہے ۔ تاریخ کے کسی بھی طالب علم سے پوچھئے کہ 12 ویں صدی عیسوی تک تقریباً تمام علوم کے موجد اور امام یہی مسلمان تھے ۔ سائنس ، ٹکنالوجی ، علم طبیعات ، علم کیمیا ، ریاضی ، الجبرا ، جومیٹری ، علم ہندسہ ، علم فلکیات، غرض کونسا شعبہ تھا جس میں مسلمانوں نے دنیا کو ان علوم سے روشناس نہیں کیا ۔ عربی زبان کی کتب جیسے ہی یوروپی اور دیگر بیرونی ممالک کے ہاتھ لگیں ان کی کایا پلٹ گئی ۔ ان علوم کے بنیادی اصول اور ضوابط مسلمانوں نے مرتب کئے تھے ۔
جبکہ یوروپ کے تمدن کا یہ عالم تھا کہ وہاں حفظان صحت کا تک کوئی معیار نہیں تھا۔ اونچی اور خوبصورت دیدہ زیب عمارتوں کی تعمیر بھی عالم اسلام ہی کی دین ہے ۔ آج کیوں ’’علوم کی امامت‘‘ کرنے والے علم کی دولت سے ایسے محروم ہوگئے کہ ان کا کہیں شمار تک نہیں ہوتا ۔ خود مسلمانوں کی نئی نسل اس بات سے واقف نہیں ہیکہ ان کے ہی آبا و اجداد نے ان علوم کو ایجاد کیا ۔ ساری دنیا کو یہ بتایا کہ انسان فضاؤں میں اڑسکتا ہے ، سمندروں کا سینہ چیر کر آسمانوں کی بلندیوں کو چھو کر کائنات کے تمام رازہائے سربستہ معلوم کرسکتا ہے ۔سورج کی شعاعوں کو گرفتار کرسکتا ہے ۔ ستاروں کی گذر گاہوں کا پتہ چلاسکتا ہے ۔ یہ کائنات حضرت انسان ہی کے لئے پیدا کی گئی ہے اور اس کائنات کو مسخر کرنے کا کام انسان کو دیا گیا ہے ۔ قرآن حکیم میں انسانی عقل ، فہم و ادراک کو بار بار دعوت دی گئی ہے کہ ’’ہم نے چھپا رکھی ہیں آسمانوں میں اپنی نشانیاں‘‘ ان کی پہچان ان کی تسخیر کر اے انسان کہ تو اشرف المخلوقات ہے ۔ یہ دنیا انسان کی عقل و دانش کے سپرد کی گئی تھی اور ابتداء میں مسلمانوں نے قرآن کے اس پیام کو خوب سمجھا ، ایجادات کے مظاہر کائنات کی تسخیر کی اور سارے عالم جہاں کے امام بن گئے ۔
یوروپ نے نشاۃ ثانیہ کے بارے میں خواہ کتنے ہی جھوٹے دعوے کئے جائیں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہیکہ آداب زندگی اسلام نے سکھائے ، یوروپ کا نشاۃ ثانیہ اسلامی علوم ہی کا مرہون منت ہے ۔ اس جانب حضرت اقبال کا اشارہ ہیکہ اپنے آباو اجداد کی وہ کتابیں ، وہ تصانیف ، وہ ایجادات وہ تحقیق و تجسس جو علم و حکمت کے بیش بہا موتی تھے انھیں یوروپ میں دیکھ کر (ان سے استفادہ کرکے) آج مغربی ممالک نے ترقی کے تمام منازل طے کرلئے ہیں ۔ دوسری طرف عالم اسلام پر نظر ڈالیں توہمیں سخت مایوسی ہوتی ہے ۔ ہم نے کتنا بڑا اثاثہ کھودیا ۔ آج ہم کشکول گدائی لئے پھررہے ہیں ۔ کہنے کو 56 سے زیادہ مسلم ممالک ہیں ، کہیں جمہوریت ہے تو کہیں ملوکیت کا بول بالا ہے ۔ مسلم ممالک نے مادی ترقی بھی کی ہے ۔ کئی ممالک بے حد خوشحال ہیں ، ان کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں ، قدرت نے انھیں تیل کی دولت سے مالا مال کررکھا ہے ۔ ان ممالک کے شہروں میں بے حد دیدہ زیب اور فلک بوس عمارتیں بھی ہیں ،
کشادہ سڑکیں ، عالیشان رہائشی مکانات ، حد درجہ اعلی پیمانہ کے لباس ، عمدہ غذائیں ، سبھی کچھ ہے ، لیکن ان میں کوئی ملک ایسا نہیں ہے ، جہاں علم کی شمع روشن ہے ۔ علم کی شمع سے مراد نصابی تعلیم ہی نہیں ہوتی بلکہ اعلی تحقیقی تعلیمی ادارے ، ریسرچ انسٹی ٹیوٹس ، تجربہ گاہیں البتہ خال خال ہی پائی جاتی ہیں ، گویا اسلامی ممالک نے مادی ترقی ضرور کی ہے لیکن علم کے میدان میں وہ آج پچھڑے ہوئے ممالک ہی کہلاتے ہیں ۔ روزنامہ سیاست کی 29 ستمبر 2014 کی اشاعت میں صفحہ 4 پر آکلینڈ سے سید مجیب نے ایک رپورٹ روانہ کی جو موقر روزنامہ میں شائع ہوئی ۔ اس خبر میں یہ دردناک انکشاف کیا گیا ہیکہ دنیا کی سرکردہ اور اعلی معیار کی یونیورسٹیوں کی فہرست میں عالم اسلام کی کوئی یونیورسٹی نہیں ہے۔ اس معیار کی 800 یونیورسٹیوں کو مذکورہ فہرست میں شامل کیا گیا ہے ۔ امریکہ اس میدان میں بھی سرفہرست ہے جسکی 200 جامعات کو اعزاز حاصل ہوا ہے لیکن اس سے ہمیں کیا فائدہ ہوگا کیونکہ اسلامی دنیا کی ایک بھی جامعہ (یونیورسٹی) 800 کی فہرست میں جگہ نہ پاسکی اور نہ اس کا کوئی اشارہ ملتا ہیکہ آئندہ چند سالوں میں کسی ملک کی یونیورسٹی کو یہ اعزاز حاصل ہوگا ۔ اس سے قبل 2001 میں بھی دنیا کی 500 ممتاز یونیورسٹیوں کی فہرست شائع ہوئی تھی یعنی 13 برسوں میں کسی مسلم ملک نے تعلیمی میدان میں ترقی کی راہ اختیار نہیں کی ۔ یہ بات اتنی اہم نہیں کہ کچھ برسوں میں عالم اسلام کے کسی ملک نے تعلیمی میدان میں کوئی قابل ذکر کارنامہ نہیں کیا ، اہم بات یہ ہیکہ 12 ویں صدی کے بعد جو ذہنی انحطاط پیدا ہوا تھا اس کو گذشتہ 9 صدیوں سے نہ صرف برقرار رکھا گیا ہے بلکہ اس میں اضافہ کیا گیا ۔ جہالت کی تہیں ہیں کہ دبیز سے دبیز ہوتی جارہی ہیں
اور عالم اسلام غفلت کی نیند سورہا ہے ۔ کیسے کیسے ہنرمند اور ذی علم اسلام نے پیدا کئے ، آج عالم اسلام تہی دامن ہوگیا ہے ۔ کسی گوشہ سے امید کی کرن بھی پیدا نہیں ہورہی ہے ۔ اس افسوسناک صورتحال کا ایک بدبختانہ اور تاریک پہلو یہ ہیکہ مسلم ممالک میں کوئی شیبانی بھی نہیں کہ ’’ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے‘‘ ۔ ایک زمانہ تھا جبکہ بغداد علم کی معراج کو پہنچ گیا تھا ۔ دنیا بھر کے ایسے افراد یہاں حصول علم کے لئے آیا کرتے تھے جن میں کچھ سیکھنے کا جذبہ ہوتا تھا ۔ بغداد ، عراق ہماری عقل و دانش کے نگہبان تھے ، ہماری علامت ہوا کرتے تھے ۔ یہی حال جامعہ ازہر کا تھا۔ مصر و قاہرہ کا رعب ساری دنیا پر چھایا ہوا تھا ۔ کیونکہ دنیا کو معلوم تھا کہ اس خطہ کے علماء نے دنیا کو الجبرا سکھایا ۔ اسی جگہ سے علم و حکمت کے گل ہائے صد رنگ کھلتے تھے ۔ لیکن آج یہ علم کے سوتے سوکھ چکے ہیں ۔ کچھ ہماری اپنی غفلت کی وجہ سے اور بہت کچھ اسلام دشمنوں کی ریشہ دوانیوں کے سبب ہم ایک لٹے لٹائے ہوئے کارواں بن گئے ہیں ۔ ہم نے کبھی اپنی اس حالت زار پر غور نہیں کیا ۔ کبھی اپنی کھوئی ہوئی دولت (علم) کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ صدیوں کی تاریکی نے ہمیں کم مائیگی کا شکار بنادیا ہے ہم نے علم کا تاج زرتار کیا کھویا کہ دنیا نے ہمیں ٹھکرادیا ، حکومتیں تو بنتی بگڑتی ہیں ۔ انھیں کوئی کھوتا ہے کوئی پاتا ہے ۔ یہ سب عارضی مظاہر ہیں لیکن جو قومیں اپنے عالمی اثاثے سے محروم ہوجاتی ہیں انھیں پھر سے سنبھلنے کے لئے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس سمت مسلم ممالک نے کوئی توجہ نہیں کی اور نہ آثار بتاتے ہیں کہ ہم پھر امامِ علوم بن جائیں گے ۔ آج 800 جامعات میں مسلم دنیا کی کوئی یونیورسٹی نہیں ہے تو اس پر افسوس کرنے والا تک کوئی نہیں ۔ موجودہ دور میں تو ہمارا دور انحطاط اور ابتزال پورے عروج پر ہے ۔ مسلم دنیا کو اس بات کا کوئی غم نہیں کہ دنیائے علم میں ان کی ایک بھی نمائندہ جامعہ یا یونیورسٹی نہیں ہے ، کیونکہ انھیں آپسی رنجشوں ، صف آرائیوں اور برادرکش تصادم ہی سے فرصت نہیں جو دیگر مسائل پر غور کریں ۔ کتنے مراکز علوم تہس نہس ہوگئے ۔ کتنے علم پرور شہر تباہ ہوئے ۔ ہمارے کان پر جوں تک نہیں رینگی ۔ دنیائے اسلام آپسی آویزش اور لڑائیوں سے جتنی توانائی ، جتنے وسائل ضائع کررہا ہے اس کا 5 فیصد حصہ بھی اگر علم پروری پر صرف کیا جائے تو شاید کچھ ہوسکتا ہے ۔ انسانی تاریخ نے ہمیشہ خطا کرنے والی قوموںکو سزا دی ہے اور خطا سے بہت زیادہ سزا ملتی ہے ۔ دوسری قومیں اپنی علمی ترقی پر زور دے رہی ہیں اور عالم اسلام نے ذاتی چپقلش ہی کو سب کچھ سمجھا ہوا ہے ۔