بدری رائنا
موہن بھاگوت کے فارمولے اتنے پیچیدہ ہیں کہ انھوں نے لفظ ہندو کی جس طریقہ پر تعریف کی ہے اُسے سمجھنے میں اور آج تک بھی کسی کے ذہن میں جگہ بنانے سے قاصر ہے ۔ اس لئے کہ اگر آپ سمجھنے کیلئے ذہن پر زور دیں گے تو اس میں پوشیدہ پیچیدہ معانی کو سمجھنا اور بھی دشوار ہوجائے گا ۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر انسان کے پاس کچھ مخصوص لفظوں کے متعین معانی و مفاہیم ہوتے ہیں جن کے بل بوتے پر وہ زندگی میں اپنا ایک الگ تشخص رکھتا ہے جبکہ کسی بھی لفظ کی تعریف اتنی کھلی اور واضح ہونی چاہئے کہ کوئی بھی بہ آسانی اُسے سمجھ سکے اور اپناسکے ۔
موہن بھاگوت نے کہاکہ جو کوئی بھی ہندوستان میں رہتا ہے ، یعنی بھارت میں ’وہ ہندو ‘ ہے ۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان سے باہر رہتے ہوئے یا ہندوستان سے باہر پیدا ہوئے ہوں کیا وہ ’ہندو‘ نہیں کہلائے جائیں گے ؟
اس مرحلہ پر دو سوال اُٹھتے ہیں پہلا یہ کہ سنگھ پریوار کا ’اکھنڈ بھارت‘ کا نظریہ ابھی بھی باقی ہے یا نہیں ؟
کیونکہ ’اکھنڈ بھارت‘ کے نظریہ میں ، سنگھ پریوار کے بموجب ، افغانستان ، نیپال ، پاکستان ، بنگلہ دیش اورمیانمار شامل ہے ۔ دوسرا سوال یہ کہ سچے ہندو این آر ائیز جو ہندوستانی قومیت کو اہمیت دیتے ہیں اُن کے بارے میں کیا خیال ہے ۔ مذکورہ بالا دو سوالات ایسے ہیں جس کی وجہ سے لفظ ہندو کی تشریح ، بھاگوت کے مطابق فٹ نہیں ہوتی ۔
اب دوسری طرف لوک سبھا میں پیش کیا گیا بل ’’ترمیم شہریت بل ‘‘ پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے ، جس کی راجیہ سبھا میں منظوری باقی ہے اس بل میں یہ نکتہ واضح کیا گیا ہے کہ ہندو ، سکھ ، جین ایک طرف اور مسلمانوں کو دوسری طرف رکھا گیا ہے ۔
اس کامقصد صاف ظاہر ہے کہ مسلم ممالک سے غیرمسلم کا ہندوستان میں خیرمقدم ہے جسے ہندوستانی شہریت دی جائے گی جبکہ کسی مسلم کو دوسرے مسلم ممالک سے آئے ہوئے کو ہرگز نہیں دی جائے گی چاہے وہ دستورِ ہند کی تمام شرائط کو پورا ہی کیوں نہ کرتے ہوں ۔
اس مسئلہ میں مسلم اور غیرمسلم کے ساتھ زبردست جانبداری کا واضح اظہار دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ اہم سوال یہ ہے کہ اگر غیرمسلم جو ہندوستان سے باہر رہتے ہوں یا باہر پیدا ہوئے ہوں وہ ہندوستان میں بہ آسانی ’’ہندوستانیت‘‘ میں گُھل مل جائیں گے لیکن یہی چیز مسلمانوں کیلئے کیوں نہیں ہوسکتی ؟
اس سے یہ بات منتج ہوتی ہے کہ ’’ہندو‘‘ اور ’’نان ہندو‘‘ایک مذہبی اصطلاح ہے جو انتہائی باریک لائین سے واضح ہوتی ہے ۔ اس ملمع ساز جھوٹ سے سنگھ پریوار کا کلچرل مزاج اور انداز کی وضاحت ہوتی ہے ۔ سنگھ پریوار کے ذہنی دیوالیہ پن کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ ایک طرف تمام ہندوستانیوں کو ’’ہندو‘‘ کہتے ہیں تو دوسری طرف ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک لکیر کے ذریعہ انھیں الگ بھی کردیتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہندوستان میں پیدا ہونے والے اور ہندوستان میں رہنے والے سبھی ’’ہندو‘‘ ہیں تو مذکورہ بھاگوت کے ’’لاجک‘‘ کی کیا ضرورت ہے ۔ اور اگر ہم سب ’’ہندو‘‘ ہی ہیں تو پھر مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان ’’خطِ فاصل‘‘ کی کیا ضرورت ہے؟
یہاں ایک بات مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ بھاگوت نے شاید’’’ہندوتوا‘‘ کے معنی کی وضاحت کی ہو ۔ انھوں نے کہا تھا کہ مسلمانوں کی موجودگی کے بغیر ’’ہندوتوا‘ کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ جبکہ ساورکر نے سال 1923 ء میں ’’ہندو‘‘ کی وضاحت کی تھی۔ ساورکر نے اپنے نظریہ کی وضاحت کرتے ہوئے برملا اور واضح طورپر کہا تھا کہ سوائے ہندوؤں کے مقدس مقامات کے ، دیگر مذاہب کے مقدس مقامات جو ہندوستان میں نہ ہوں وہ ’’ہندوستانی شہریت‘‘ کے اہل نہیں ہیں۔
حالیہ برسوں میں ہندوتوا کے آپریشنس کو مدنظر رکھا جائے تو ہمیں صرف نفرت انگیز مہمات اس ضمن میں دیکھنے کو ملیں گی ۔
موہن بھاگوت کاہندوتوا کچھ بھی ہوسکتا ہے جس میں مسلمانوں کو شامل کرتے ہوئے مسلمانوں کو انھیں باور کروایا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کے ہیں پاکستان ہی ان کا مقام ہے ۔ جبکہ بھاگوت کا کرپٹک فارمولیشن اصل مدعا کو چھپاتے ہوئے دوسرے الفاظ میں پیش کیا جاتا ہے۔
’’ہندوتوا‘‘ کو متشدد ، سیاسی ہندوازم کے تحت ایک ’’رول پلے ‘‘ جس کے تحت ان کے خفیہ ایجنڈے کو روبعمل لایا جاتا ہے تاکہ کوئی بھی گائے کو ذبح نہ کرے ، ’لوجہادی‘ نہ رہیں ، نہ ہندوؤں کو تبدیلی مذہب پر مائل کرنے والے اور نہ میگا فون والی مساجد اور اس طرح کئی دیگر چیزیں ، ہندوتوا یقینا ان مذکورہ بالا اُمور کے ساتھ بیکار ہیں۔ کیا موہن بھاگوت یہی پیغام دینا چاہتے ہیں؟
ہم نہیں جانتے ۔ تاہم کسی مثبت پیغام کے بغیر ہمیں یہی صحیح لگتا ہے ۔
موہن بھاگوت نے کہا کہ دستور ہند ’’نیشنل کونسس‘‘ ہے اور اسے اسی انداز میں قبول کرنا چاہئے لیکن ساتھ ہی اُسی سانس میں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہندوستان ’’ہندوراشٹرا‘‘ ہے ۔ اب کوئی یہ کیسے سمجھے کہ ہندوستان کے ’’دستورِ ھند‘‘ میں ’’ہندوراشٹرا‘‘ کا وجود کیسے ہوگا ؟
بھاگوت کو دونوں میں سے ایک چیز منتخب کرنا ہوگا کہ ’’دستورِ ہند‘‘، ’’نیشنل کونسس ہے یا پھر ان کے بقول ہندو راشٹرا‘‘ ہے لیکن دونوں ایک ساتھ قبول نہیں کئے جاسکتے ۔
اسی طرح بھاگوت نے قانون کی حکمرانی کی ستائش کی لیکن ساتھ ہی ساتھ ’’رام مندر‘‘ کی تعمیر کیلئے ایودھیا میں اجازت نہ دیئے جانے پر ’’مہابھارت ‘‘ کا انتباہ دیا کہ اگر کیس میں فیصلہ بقول ان کے ہندوؤں کی اُمنگوں کے خلاف آئے ۔ ایسی کیا چیز وہ جانتے ہیں جو ہم نہیں جانتے ؟
ہمیں یہ کہنا نہایت مشکل ہے کہ سنگھ پریوار کافارمولیشن ’’ہندوؤں‘‘ کے متعلق کیا ہے کہ کیا وہ کلچرل ہیں یا مذہبی یا دونوں۔ ہندوستان میں موجود مسلمانوں کو ہندو اور اگر وہ اپنے عقیدہ کے مطابق عمل کریں تو Antagonist ۔ جب ہم کلچر کے بارے میں غور کریں تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان کی تاریخ کا سچائی کو سامنے رکھتے ہوئے مطالعہ کریں تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ’’ویدک وقتوں‘‘ سے حال تک ہمارا حال پگھلتے ہوئے گھڑے کے مصداق ہے ۔ یعنی جیسے سنگھ پریوار اپنے آپ کو فخر کے ساتھ جب ’’ہندو‘‘ کہتا ہے ۔ سب سے زیادہ مشکلات کا حامل لفظ تاریخ ہند میں ’’مسلم ‘‘ ہے جیسا کہ امیر خسروؔ نے جو اٹاوہ اُترپردیش میں پیدا ہوئے تھے ، اپنے آپ کو ’’ہندوی‘‘ کہا تھا اور ہم اپنے آپ کو ایک زمانہ میں ’’ہند‘‘ کہتے تھے جس کے بارے میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ دراصل وہ لفظ سندھ تھا اور جیسا کہ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ’’ہندی ہیں ہم ، وطن ہے ہندوستان ہمارا‘‘ ۔ اور ہماری عصری ہندی زبان میں امیر خسروؔ کے ’’ہندوی‘‘ اور ’’کھڑی بولی‘‘ میں جیسا کہ کہا گیا’’بہت کٹھن ہے ڈگر، پنگھٹ کی‘‘ ۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ کسی بھی سناتن ٹیکسٹ میں کہیں بھی لفظ ’’ہندو‘‘ موجود ہی نہیں ہے جبکہ یہ لفظ ’’ہندو‘‘ چیتنیا اسکرپٹ میں سب سے پہلے 16 ویں صدی میں استعمال کیا گیا۔ اور کلچر کے معاملہ میں یہ بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی کہ اس کا سماجی وجود ، معاشی میکانزم میں کوئی تخلیقی صلاحیت رکھتا ہے جو مہارت اور آرٹ ، لٹریچر اور فلاسفی یا پھر صفائی کے ساتھ ’’ہندو اور مسلم ‘‘ کو منقسم کیا جاسکے ۔ درحقیقت دونوں اقوام میں ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ وہ ’’ناقابل جدا‘‘ ہیں۔ پھر چاہے وہ تاریخی ہو جوکہ ہندوستانی تاریخ دنیا کو دستیاب ہے ۔
سنگھ پریوار کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ اس ہندوستان پر کئی مسلم بادشاہوں اور سلاطین نے ہندوجنرلس کے ساتھ اور بعض مرتبہ ہندو بادشاہوں اور سلاطین نے مسلم ناموں کے ساتھ ’’ہندوجرنلس‘‘ کے ساتھ حکومت کی ہے جوکہ ہندوستان میں جمہوریت کے در آنے سے پہلے کی بات ہے ۔ ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ سنگھ صرف ایک ایسا ’’فریم ورک‘‘ چاہتی ہے کہ جس طرح مسلمانوں میں ہے جو کلمہ ، نماز ، روزہ ، زکوٰۃ اور حج جس میں سے زکوٰۃ اور حج کمزور مسلمان پر سے ذمہ داری ساقط کی گئی ہے جوکہ نہایت ہی منضبط ہے ۔
جب شری ایل کے اڈوانی نے اپنی بدنام زمانہ رتھ یاترا ، دو سال قبل شہادت بابری مسجد نکالی تھی ، انھوں نے خاموش انداز میں ہندوازم کو ایک مرکز پر لانے کی خواہش ظاہر کی تھی کہ ایک مارشل گاڈ ، ایک کتاب ، ایک مقدس مقام اسی طرح دیگر چیزیں شامل ہیں۔
چاہے اچھا محسوس کریں یا پھر برا محسوس کریں لیکن اگر ہم فیصلہ کرتے ہوئے اچھائی کا فیصلہ کریں تو ہندوازم میں بالمقابل مخالف سوچ ، انسان کا خدا سے رابطہ میں رشتہ میں تناؤ ، ایک آدمی پر تمام مذہبی ذمہ داریاں جس کی وجہ سے Caste اور جنس جس میں ایک جنس کی فوقیت وغیرہ ہے۔ سنگھ پریورا کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک طرف تو ملٹری ازم اور مردوں کی اجارہ داری پر ہندوؤں میں مفتخر ہے جو سماج میں کسی کے سامنے بھی جواب دہ نہیں ہیں۔
اس سے سب سے زیادہ اہمیت والا معاملہ کہ آیا وہ مغربی ممالک کا نیشنل ازم یا پھر گاندھی جی ، نہرو ، مولانا ابوالکلام آزاد ، امبیڈکر و دیگر جنھوں نے دیرپا باقی رہنے والی ہارمونی اور قومیت سے بھرپور جذبات والا نیشنل ازم ، جسے دستور ہند نے قانونی ہندوستانی پن کے لئے تحریر کیا ہے۔ یہ کوئی آسان پراجکٹ نہیں ہے ۔ امریکہ نے بھی ایسا ہی کچھ کیا ہے ۔ یہ کچھ ایسے حقائق ہیں جو اپنے آپ میں ثابت شدہ ہیں کہ سب کو مساوی حیثیت کے ساتھ پیدا کیا گیاہے ۔ وغیرہ
جیفرسن نے لکھا تھا جبکہ دونوں کو پیدا کرنے والے نے آزاد پیدا کیا تھا جبکہ ان پر حکمرانی کرنے والے انھیں آزاد کرنا نہیں چاہتے ۔ ہمارے انڈین Contentions کو بین الاقوامی سطح پر دی گئی مساوات کے برابر لانے کی کاوشیں کی جارہی ہیں جوکہ زمینی حقیقت ہے ۔ کیا سنگھ پریوار کیلئے یہ بہتر نہیں ہوگا کہ وہ اس ضمن میں ایمانداری سے اپنا جائزہ لیتے ہوئے Honest ایجنٹ بن جائے ؟