محمد شمس اللہ شمسؔ
حضرت وفاؔ اُردو، فارسی کے قادرالکلام شاعر تھے۔ جملہ اصناف سخن میں ان کے قلمی نسخے آپ کے خاندان میں موجود ہیں۔ حضرت وفاؔ اطراف بلدہ کے اسکولوں میں مدرس رہ چکے تھے۔ آخر میں صدر مدرس بیدر ہائی اسکول سے وظیفے پر سبکدوش ہوئے۔ پھر اس کے بعد نیم سرکاری اسکولوں میں مدرس رہے اور کئی اداروں میں درس و تدریس کا فریضہ انجام دیا۔ گرانڈ ہوٹل کے روبرو پال صاحب کا ادارہ تھا جہاں پر وہ بی اے کے لڑکوں کو تعلیم دیا کرتے تھے۔ حضرت وفاؔ، ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ کے ہمعصر تھے۔ وفا کی ایک کتاب ’’ آصف نامہ ‘‘ جلد ہفتم پر زورؔ صاحب نے مقدمہ بھی لکھا تھا، اس کے علاوہ ڈاکٹر زور کی کتاب ’مرقع سخن ‘ جلد دوم میں بھی آپ کا تذکرہ آپ کے شاگرد محمد عبدالقادر دبیرؔ نے کیاہے۔ 12محرم1328 ھ میں واحد منزل چنچلگوڑہ میں منعقدہ مشاعرہ میں یہ طرح دی گئی تھی:
’’ باغ رسولؐ کے مرے دامن میں پھول ہیں ‘‘۔
اس مشاعرے میں نامی گرامی شعراء جیسے نامیؔ، برترؔ، واصلؔ وغیرہ کے علاوہ حضرت مائلؔ ، جناب وفاؔ کے استاد بھی موجود تھے۔ وفاؔ صاحب نے اس سنگلاخ زمین میں کلام سنایا، سامعین پر وجد کا عالم طاری ہوگیا۔ حضرت مائلؔ نے برسرِ مشاعرہ فرمایا کہ وفا صاحب نے آج امتحانِ شاعری میں ایم اے کی ڈگری حاصل کرلی۔ دو شعر ملاحظہ فرمایئے:
کیا داغِ دل کے سینۂ روشن میں پھول ہیں
نخل غم حسین کے گلشن میں پھول ہیں
جنت میں گُل کھلائیں گے اعمال نیک ہی
واعظ کہاں بہشت کے گلشن میں پھول ہیں
مولانا مولوی محمد حبیب اللہ وفاؔ بلا کا حافظہ رکھتے تھے، بغیر دیکھے سینکڑوں اشعار سنانا اُن کے نزدیک معمولی سی بات تھی۔ حضرت خواجہ حسن نظامی نے اپنے روز نامچہ میں لکھا ہے ’’ میں نے حیدرآباد کا چپہ چپہ گشت کیا شاعر تو بہت نظر آئے، لیکن حضرت وفاؔ سا حافظ شاعر کسی کو نہیں پایا۔‘‘ مزید لکھتے ہیں کہ ’’ استاد غالبؔ شب میں سوتے وقت فکر سخن کرتے اور شعر کی یاددہانی کیلئے کمر بند میں ایک گرہ لگالیتے، صبح اُٹھ کر گرہوں کی بناء پر اشعار یاد کرکے نوٹ کرلیتے تھے مگر حضرت وفاؔ تو گرہ ڈالنے کے غم سے بھی آزاد ہیں۔ شعر موزوں ہوجائے تو لوحِ دل پر اس کی تحریر محفوظ ہوجاتی ہے۔ اُن کا خداداد حافظہ بلا کا ہے، ہزاروں شعر نوکِ زبان ہیں مسلسل سنائے جاتے ہیں۔حضرت وفاؔ شاعر و نثار ہونے کے علاوہ فنِ تقریر میں بھی خداداد ملکہ رکھتے ہیں ، کوئی علمی یا قومی جلسہ ایسا نہیں ہوتا جس میں حضرت وفاؔ کی تقریر یا نظم نہ ہوتی ہو۔‘‘
مولوی حبیب اللہ وفاؔ کی چند رباعیات جو محفلوں میں فی البدیہہ کہی گئی تھیں پیش ہیں۔علامہ حسام الدین صاحب فاضلؔ کے یہاں 9محرم الحرام 1356ھ کے مسالمہ میں سلام سے پیشتر فی البدیہہ یہ رباعی کہی:
دانہ جو فنا ہو تو شجر دیتا ہے
قطرہ جو فنا ہو تو گہر دیتا ہے
کربلا میں لہو اپنا بہاکر شبیر
سرسبز چمن دین کا کردیتا ہے
محبوبیہ کالج سکندرآباد اور نظام کالج میں بزمِ سخن کی جانب سے مشاعرے ہوا کرتے تھے، جس کی صدارت اکثر ڈاکٹر سید محی الدین قادری زورؔ کرتے تھے۔ ایسی ہی ایک بزم میں حضرت وفاؔ نے کیا خوب کہا ہے جو برجستہ گوئی کی ایک اچھی مثال ہے۔ مشاعرہ غیر طرحی بیاد فصاحت جنگ جلیلؔ منعقدہ دولت خانہ صغرا ہمایوں مرزا، فبروری 1953کے موقعہپر بھی وفاؔ صاحب نے برجستہ رباعیات کہیں:
ہے تاج ِ سخن طبع درافشانِ جلیلؔ
معراج ِ سخن پائیں ذیشانِ جلیلؔ
ہے جانِ سخن ان کی غزل کا ہر شعر
دنیائے سخن بھی ہے ثنا خوانِ جلیلؔ
ہے ذکر جلیلؔ اس میں یہ وہ ہے محفل
اس بزم کے بانی ہیں بڑے زندہ دل
سرتاپا ہے مصداق ہمایوں صفات
کیوں کرنہ ہو گھر ان کاہمایوں منزل
حضرت مولوی محمد حبیب اللہ وفاؔ کے شاگردوں میں دامودر ذکیؔ، ماجد وفائیؔ، ڈاکٹر آفتاب لکھنویؔ ، نذیر الدین ناظرؔ، میر کاظم علی واصل ؔقادری، محمد ظہیر الدین بابرؔ، مولوی احمد شطاری کاملؔ، جذبؔ عالم پوری۔ ان سب شاگردوں میں دامودرذکیؔ کو خاص مقام حاصل تھا۔ اُن کے بعد ماجد وفائیؔ کو بھی بلند مقام حاصل رہا۔ آپ کی چند کتابیں بھی موجود ہیں جن کے نام درج ذیل ہیں: ترکی تلوار، سیلاب موسی، نظم جام شہادت، سلاموں کا مجموعہ شمیم وفاؔ نظموں کا مجموعہ، آصف نامہ ‘ جلد ہفتم۔ یہ سب کتابیں کتب خانہ آصفیہ میں موجود ہیں۔ ان کے علاوہ نثر میں ایک کتاب ’’ شاعری کی حقیقت‘‘ موجود ہے۔ بَہتر شہید اور پارہ ٔ عم کا منظوم ترجمہ قابلِ ذکر ہیں۔ محمد حبیب اللہ وفاؔ نے 24جولائی، 1961 کو داعی اجل کو لبیک کہا۔ چنچلگوڑہ کے قبرستان محمد عباد اللہ شاہ صاحبؒ میں ابدی نیند سورہے ہیں۔ آپ کے دو صاحبزادے بقید ِ حیات ہیں۔ بڑے صاحبزادے محمد اسد اللہ ہیں جو زرعی یونیورسٹی راجندر نگر میں مامور تھے اور اب وظیفہ پر سبکدوش ہوچکے ہیں۔ چھوٹے صاحبزادے محمد شمس اللہ شمسؔ ممتاز کالج میں ملازم تھے اور اب وظیفہ پر سبکدوش ہوچکے ہیں۔
مولوی محمد حبیب اللہ وفاؔ کی رحلت پر اُن کے شاگرد دامودر زکیؔ نے ایک قطعہ اور رباعی لکھی۔ قطعہ اور رباعی پیش خدمت ہے۔
… ( قطعہ ) …
فضائے دل پہ بادل غم کے غم برسا گئے کافی
ہوئے رخصت جہاں سے اور گئے جنت میں استاد ادب
ذکیؔ یہ سال رحلت ہے حبیب اللہ صاحب کا
بسئے دائم جوارِ رحمت حق میں وفاؔ صاحب
…( رباعی )…
اشکِ غم ِامجد ابھی سوکھا ہی نہ تھا
استاد کا اتنے میں اور غم آیا
ہجری میں ہے تحریر ذکیؔ سالِ وفات
فردوسِ نشین ہیں اب استاد وفاؔ