ابھے کمار
130سال قبل ابوالکلام آزاد کی پیدائش مکہ میں ہوئی تھی۔ دو سال بعد یعنی 1890میں ان کے والد بغرض علاج کلکتہ آگئے۔ ان کے مریدوں اور دیگر احباب نے انھیں واپس جانے نہیں دیا۔ اس طرح مولانا آزاد کی ابتدائی تعلیم اور صحافتی و سیاسی زندگی کی ابتدا ہندوستان میں ہی ہوئی ۔ جب مذہب کی بنیاد پر ملک کو تقسیم کیا جارہا تھا تب بھی انھوں نے نہ صرف نظریہ پاکستان کی پرزور مخالفت کی بلکہ عام مسلمانوں سے بھی پرجوش اپیل کی کہ وہ ہندوستان سے ہجرت نہ کریںاور یہاں رہنے میں ذرا بھی ڈر محسوس نہ کریں۔ اکتوبر 1947ء میں جامع مسجد، دہلی کی سیڑھیوں سے خطاب کرتے ہوئے مولانا آزاد نے مسلمانوں کے دلوں پر طاری خوف و خدشے کی تاثیر کو ان جملوں میں بے جاقرار دینے کوشش کی : ’’ابھی کل کی بات ہے کہ جمنا کے کنارے قافلوں نے وضوکیا تھا اور آج تم ہو کہ تمہیں یہاں رہتے ہوئے خوف محسوس ہو رہا ہے۔ حالانکہ دہلی تمہارے خون سے سینچی ہوئی ہے۔‘‘ (خطبات آزاد، ص: 340)
جب میں مولانا آزاد کی اس تقریر کو پڑھتا ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ مولانا آزاد ہندوستانی سیکولرزم، مشترکہ تہذیب و ثقافت اور اپنی سیاسی جماعت کانگریس کے تئیں وفاداری کی لاثانی اور لافانی علامت تھے۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ کانگریس نے انھیں اپنی پارٹی کا صدر توبنایا، اقتدار میں آنے پر وزیرتعلیم کا منصب عطا کیا، بہت سارے منصوبوں، اداروں کے نام ان کے نام پر رکھے اور دیر سے ہی سہی سال 1991-92 میں انھیں بعد از مرگ ملک کا سب سے بڑا شہری اعزاز ’بھارت رتن‘ سے بھی نوازا۔ مگر جو اہم سوالات مولانا آزاد نے اٹھائے تھے اسے کانگریس کے اعلیٰ رہنماؤں نے اس وقت بھی نظر انداز کیے اور آج بھی نظر انداز کیے جا رہے ہیں۔ یہ سوالات اقتدار میں تمام فرقوں بالخصوص اقلیتوں کی واجب حصہ داری اور نمائندگی سے متعلق ہیں، جن کو مولانا آزاد 1940کی دہائی میں سامنے لاتے ہیں ۔ مولانا آزاد یہ سمجھتے تھے کہ ملک کا بٹوارہ فرقہ وارانہ سوالات کا حل نہیں ہے۔ اقتدار میں تمام فرقوں وطبقات کی حصہ داری سے ہی اقامت امن اور خوش حالی قائم کی جاسکتی ہے۔
تقسیم ہند کے کئی وجوہات تھے مگر اس کا ایک اہم سبب ایک مذہبی گروپ کے ذریعے دوسرے مذہبی گروپ کو اقتدار سے باہر رکھنا تھا۔ اس وقت کے سیاسی رہنماؤں نے مفاد پرستی سے زیادہ اور دوراندیشی سے کم کام لیا۔ اگر انھوں نے مولانا آزاد کی بات مان لی ہوتی تو شاید ملک کی تقسیم ٹل جاتی۔ اگر تقسیم نہ ہوتی تو لاکھوں کی تعداد میں معصوم انسانوں کی جانیں نہ جاتیں۔ اگر ملک نہ بٹتا تو ہندوستان اور پاکستان اپنی آمدنی کے تناسب سے کہیں زیادہ بجٹ اسلحہ اور ہتھیار پرخرچ نہ کرتے۔ اگر ملک کا بٹوارہ نہیں ہوتا تو سرحد کے اس پار اور اُس پار مذہب کے نام پر گندی سیاست نہیں کھیلی جاتی۔
آخری وقت میں مولانا آزاد اکیلے پڑتے گئے۔ ان کے ساتھیوں نے ایک کے بعد ایک ان کے سوالات سے منہ موڑنا شروع کردیا۔ ان کو مسلم لیگ کے قاعد اعظم محمد علی جناح سے بہت زیادہ امید نہیں تھی مگر ستم ظریفی دیکھئے کہ ان کے اپنے عزیز سردار پٹیل اور جواہر لعل نہرو نے بھی آخری وقت میں ان کا ساتھ چھوڑ دیا اور مولانا آزاد کی مرضی کے خلاف وہ لوگ تقسیم ہند کے موقف پر ڈٹے رہے۔ مہاتما گاندھی نے بھی آخری لمحات میں تقسیم ہند کی مخالفت میں وہ تیزی نہیں دکھائی جس کا مظاہرہ وہ شروع سے کر رہے تھے۔
مولانا آزاد چاہتے تھے کہ اقتدار میں ہندو مسلم کو ان کا واجب حصہ ملے اور سیاست میں لیڈران کواس لئے بڑے منصب پر نہ بٹھایا جائے کیونکہ وہ کسی مخصوص مذہب یا فرقے سے تعلق رکھتے ہیںبلکہ ان کی لیاقت کے مطابق ہی انھیں ذمہ داری سونپی جائے۔ مگر کانگریس نے کئی موقعوںپر مولانا کی نصیحت کے برعکس کام انجام دیا جس کی وجہ سے مسلمانوں میں کانگریس کی شبیہ داغدار ہوتی چلی گئی۔
مولانا آزاد نے اپنی کتاب ’’انڈیا ونس فریڈم‘‘ میں دو ایسے واقعات کا تذکرہ کرتے ہیں جہاں کانگریس کے سرکردہ لیڈران راجیندر پرساد اور سردار بلبھ بھائی پٹیل نے اقلیتی طبقات سے تعلق رکھنے والے دو باصلاحیت اور سینئر کانگریس لیڈروں کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا اور ان کی جگہ ہندو فرقے سے تعلق رکھنے لیڈروںکو آگے بڑھاتے ہوئے وزیراعلیٰ کے منصب پر براجمان کیا۔ بات 1937ء کی ہے جب کانگریس مختلف صوبوں میں انتخابات جیت کر حکومت سازی کے دور گزر رہی تھی۔ بہار میں سید محمود کانگریس کے سب سے سینئر اور فعال لیڈر تھے وہیں بامبے صوبے میں پارسی طبقے سے تعلق رکھنے والے مسٹر ناری من دیگر کانگریسی لیڈران سے کئی معاملوں میں آگے تھے مگر راجیندر پرساد اور سردار پٹیل نے ان دونوں لیڈروں کو باہر کر صوبے کی باگ ڈور شری کرشن سنگھ اور مسٹر کھیر کو سونپ دی۔ ان دونوں لیڈروں کی ترقی کی وجہ ان کی لیاقت میں نہیں بلکہ ان کی مذہبی شناخت میں تھی۔ اس طرح کی کھلم کھلا حق تلفی سے مسلمانوں کو غلط پیغام پہونچا۔ مسلم لیگ موقعے کی تاک میں تھی اور اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے مسلمانوں اپنی جانب راغب کرنا شروع کیا۔
مولانا آزاد اس حق تلفی کو دیکھ کر کافی مایوس ہوئے اور انھوںنے صاف طور پر ڈاکٹر راجیندر پرساد اور سردار پٹیل کو اس کا قصور وار مانا۔ مولاناآزاد آگے لکھتے ہیں : ’’کانگریس کی قومیت اس مرحلے پر نہیں پہنچ پائی ہے کہ وہ فرقہ وارانہ تعصب سے بالا تر کسی امیدوار کا انتخاب اس کی لیاقت کی بنیاد پر کرے نہ کہ اس بات پر کہ امید وار اکثریتی یا پھر اقلیتی طبقے سے آتا ہے۔‘‘ (ایضاً، ص: 18)
مذکورہ بالا جملوں کو غور سے پڑھنے پر لگتاہے کہ مولانا آزاد کانگریس رہنماؤں کی تعصب پرستی سے نالاں تو ضرور تھے مگر ان کو لگا کہ کانگریس کی قومیت اپنی خامیوں اور کمزوریوں کو ترک کرتے ہوئے صحیح معنوں میں سچے سیکولر اقدار کی طرف گامزن ہوگی اور تمام فرقوں کو انصاف ملے گا مگر مولانا آزاد یہ خواب آج تک صحیح معنوں میں پورا نہ ہوسکا۔ آگے چل کر یہی تعصب تقسیم ہند کا بڑا سبب بنا۔
بات 1946ء کی ہے جب برطانوی کیبنٹ مشن نے ہندوستان میں کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان مذاکرہ شروع کیا ۔ برطانوی حکومت نے واضح کردیا تھا کہ وہ جلد از جلد اقتدار ہندوستانیوں کو سونپنا چاہتی تھی اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہندو مسلم تنازعہ کو سلجھا دیا جائے ۔ اس مذاکرے میں کانگریس اور مسلم لیگ اس بات پر متفق ہوگئی کہ اقتدار کی تقسیم ہوگی اور مرکز اور صوبے کو علاحدہ امور دیئے جائیں گے۔ منصوبے کے مطابق مرکزی حکومت کو صرف تین امور یعنی دفاع، امورخارجہ اور مواصلات سونپے جائیں گے جبکہ بقیہ امور صوبائی حکومت کے پاس ہوں گے۔ مشن نے ایک اور اضافی پہلو جوڑتے ہوئے ملک کے صوبوں کو تین زمروں میں تقسیم کرنے کا پلان بنایا تھا تاکہ اقلیتی اکثریت والے صوبوں کو زیادہ سے زیادہ خودمختاری عطا کی جائے، جس کا مقصد اقلیتوں کے دلوں سے اکثریتی تسلط اور بالادستی کے خوف کو ختم کرنا تھا ۔اقلیتوں کا خوف واجب تھا کہ اگر ان کے حقوق محفوظ نہیں کیے گئے تو یہ ممکن ہے کہ مرکز میں قابض حکومت جس کی کمان اکثریتی طبقے کے ہاتھوں میں ہوگی، کہیں ان پر مسلط نہ ہوجائے۔ برطانوی کیبنٹ مشن مذاکرے کے خاتمے پر مولانا آزاد بہت خوش تھے کہ مسلم لیگ اپنی ضد سے ہٹ کر اس فارمولے پر راضی ہوگئی اور انھیں ایسا لگنے لگا کہ ہندوستانیوں کو آزادی بھی مل جائے گی اور ہندو مسلم مسائل بھی بات چیت اور آپسی ہفاہمت سے حل ہوجائیں گے۔
بہت جلد ہی تاریخ نے ایسی کروٹ لی اور سیاسی لیڈروں کے دل اس طرح متعصب ہوئے کہ برطانوی کیبنٹ مشن کا فارمولہ ناکام ہوتادکھائی دیا۔ اس وقت کے کانگریسی صدر جواہر لعل نہرو نے پریس کو بیان دیا کہ جب وہ آئین ساز اسمبلی میں داخل ہوں گے تو وہ مشن کے فارمولے کو ماننے پر مجبور نہیں ہوںگے۔ اس بیان نے نہ صرف کانگریس کے سابقہ موقف کی کھلی تردید کی بلکہ مسلم لیگ اور مسلمانوں کے ایک بڑے حصے میں کانگریس کے تئیں عدم اعتمادی کی صورت پیدا کردی۔ جناح بدستور موقع کی تاک میں تھے اور انھوں نے مسلمانوں سے زور زور سے کہنا شروع کیا کہ کانگریس ایک ہندوپارٹی ہے ۔ کھیل بگڑنے میں دیر نہ لگی۔ ہر طرف قتل و غارت کی آگ جلنے لگی۔ اقلیتی طبقہ اس فرقہ وارانہ آگ کا ایندھن بننے لگااور دیکھتے ہی دیکھتے ملک کی تقسیم مولانا آزاد کی آرزوؤں اور امنگوں کے برعکس یقینی ہوگئی۔
جدید ہندوستان کی تاریخ اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ مولانا آزاد کے سوالات کی معنویت کل بھی تھی اور آج بھی ہے۔ اقتدار حاصل کرنے کے لئے اقلیتی طبقے کی حق تلفی تو کی جاسکتی ہے، ملک کو بانٹا تو جا سکتا ہے لیکن ایک پائیدار اور مستحکم امن و امان کی فضا قائم نہیں کی جاسکتی۔ حالت آج اس قدر خراب ہو گئی ہے کہفرقہ پرست سیاسی جماعتیں مبینہ طور پر ہندوستان میں مسلمانوں کی نمائندگی ختم کرنے پر تلی ہیں، وہیں نام نہاد سیکولر جماعتیں جنہیں اقلیتوں نے ہمیشہ اپنی پلکوں پر بٹھایا ،آج وہ ان کے واجب سوالات اور مسائل سے نظریں چراتی نظر آتی ہیں۔ ان سوالات کا جواب دیئے بغیر مولانا آزاد کو حقیقی خراج پیش نہیں کیا جاسکتا۔
ابھے کمار جے این یو میں شعبۂ تاریخ کے
ریسرچ اسکالر ہیں۔
ویب سائٹ: abhaykumar.org