موسم حج 1439 ھ کا آغاز

کے این واصف
دنیا کے سب سے بڑے مذہبی اجتماع حج بیت اللہ کیلئے مہمانانِ رب العزت کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ 14 جولائی (یکم ذی القعدہ 1439 ھ) کو ہندوستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش سے افتتاحی پرواز کے طور پر ان تین ممالک کے حجاج کرام بذریعہ طیارہ یہاں پہنچے۔ ہندوستان اور پاکستان کا پہلا قافلہ مدینہ منورہ کے بین الاقوامی ایرپورٹ پر اترا جبکہ بنگلہ دیش یک فلائیٹ کی جدہ میں آمد ہوئی ۔ سفیر ہند احمد جاوید ، قونصل جنرل ہند نور رحمن شیخ اور حج قونصل محمد شاہد عالم نے طیرانگاہ پر پہلے ہندوستانی قافلے کا استقبال کیا ۔ اب سے ایک ماہ سے کم کے عرصہ میں اقطاع عالم سے لاکھوں حاجی یہاں جمع ہوجائیں گے ۔اس موسم حج کیلئے 8 ذوالحجہ سے 13 ذوالحجہ تک منیٰ کی قیمہ بستی پھر آباد ہوجائے گی ۔ بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے ، مختلف تہذیبوں نمائندے ، الگ الگ ملکوں سے تعلق رکھنے والے گورے ، کالے سب ایک بستی کے مکین ہوجائیں گے اور دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوکر عبادتوں میں مشغول ہوجائیں گے ۔ حجاج کرام اور مختلف ممالک سے حج ڈیوٹی پر آنے والوں کیلئے سعودی وزارت حج اپنے انتظامی امور کی بہتر انجام دہی اور حجاج کرام کی سہولت کی خاطر ہر موسم حج میں کچھ نئی ہدایات جاری کرتا ہے ۔ دنیا کے مختلف ممالک جہاں سے ہر سال بہت بڑی تعداد میں لوگ فریضہ حج کی ادائیگی کیلئے یہاں آتے ہیں ، ان ممالک کے سفارت خانے یا قونصلیٹس اپنے ملکوں سے عارضی طور پر کچھ کارکنان کو وزیر فراہم کر کے عارضی ڈیوٹی پر یہاں بلواتے ہیں۔ ان میں خادم الحجاج ، ڈاکٹرز اور دیگر میڈیکل اسٹاف وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ یہ لوگ ڈیوٹی انجام دینے کے علاوہ 8 ذوالحجہ کو احرام باندھ کر حج بھی ادا کرلیتے ہیں اور عین ممکن ہے کہ مناسک کی ادائیگی کی مصروفیت کی وجہ سے وہ اپنے فرائض منصبی میں کچھ کوتاہی بھی کرجاتے ہوں گے ۔ یعنی وہ حکومت کے خرچ پر یہاں ڈیوٹی دینے آنے والے اپنا حج بھی ادا کرلیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مناسک حج کی ادائیگی کیلئے مختلف اوقات میں الگ الگ مقامات جانے میں وہ اپنی ڈیوٹی پر حاضر نہیں رہ جاتے ہوں گے ۔ اس لئے امسال عارضی اور موسمی ویزوں کومنظم کرنے والی کمیٹی نے واضح کیا ہے کہ حج موسم میں بیرون ممالک سے ارض مقدس ڈیوٹی پر آنے والوں کو احرام باندھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ انہیں ویزے ڈیوٹی کیلئے دیئے جاتے ہیں، حج کیلئے نہیں۔ یہ وضاحت اتوار کو مکہ مکرمہ ریجن میں وزارتِ محنت و سماجی بہبود کے دفتر میں مذکورہ کمیٹی نے انتظامات کے جائزہ اجلاس کے دوران کی گئی ۔اس کمیٹی کے اعلیٰ عہدیدار نے واضح کیا کہ حج موسم میں ڈیوٹی کیلئے جاری کئے جانے والے ویزوں سے متعلق لائحہ عمل تیار کرلیا گیا ہے ۔ اس پر امسال حج میں عمل کیا جائے گا ۔ حج خدمات پیش کرنے والے اداروں کو موسمی ویزے جاری کردیئے گئے ہیں۔ اب اس بات پر نظر رکھی جائے گی کہ ان ویزوں پر آنے والے جدہ اسلامی بندرگاہ ، جدہ کے کنگ عبدالعزیز ایرپورٹ ، مدینہ منورہ کے امیر محمد بن عبدالعزیز ایرپورٹ اور طائف کے ایرپورٹ پر احرام میں ملبوس نظر نہ آئیں۔ موسمی ویزوں پر حجاج کی خدمت کیلئے آنے والوں کو احرام پہننے کی اجازت نہیں ہوتی۔ خلاف ورزی کرنے والوں کی سرزنش ہوگی اور موسمی ویزے حاصل کرنے والے اداروں پر چھاپے مارے جائیں گے اور اس کو یقینی بنایا جائے گاکہ موسمی ویزوں کو حج ویزوں کے طور پر استعمال نہ کیا جائے۔
یہاں غور طلب امر یہ ہے کہ کیا ہم اپنی عبادتوں کو بھی اس طرح انجام دیں گے ۔ غلط اور صحیح میں فرق کئے بغیر ، اچھے اور برے کی تمیز کئے بغیر ، جائز و ناجائز پر غور کئے بغیر ہم حج ادا کریں گے اور وہ بھی یہ عمل ارض مقدس پر ۔ دوسری طرف یہی حال ہمارے مقامی حجاج کا بھی ہے ۔ یعنی مملکت میں مقیم خارجی باشندے حج پر متعلقہ سرکاری ادارے سے اجازت حاصل کئے بغیر ہی حج کی ادائیگی پر نکل پڑتے ہیں ۔ اس پر ان کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ حکومتی اداروں سے اجازت حاصل کرنا کوئی شرعی پابندی نہیں لیکن ان لوگوں کو اس عمل سے پیدا ہونے والے انتظامی مسائل اور بااجازت آنے والے حجاج کو ہونے والی تکلیف کا خیال کرنا چاہئے ۔
حج انتظامیہ نے اس سال کے حج انتظامات کے سلسلے میں ایک اور اعلان جاری کیا کہ شعایر مقدسہ میں حجاج کرام کیلئے کھانے کا نظام جاری کردیا گیا ہے ۔ یہ اعلان ایسے وقت میں کیا گیا جبکہ جدہ اور مدینہ منورہ ایرپورٹ پر عازمین حج کے ابتدائی قافلے پہنچنے شروع ہوگئے ۔ اعلان میں اس کی تفصیلات دیتے ہوئے واضح کیا گیا کہ وزارت حج و عمرہ حجاج کرام کو پیش کئے جانے والے کھانوں اور انہیں تیار کرنے والی کمپنیوں کی نگرانی کرے گی۔ حجاج کیلئے کھانے کے انتظامات کے حوالے سے 8 بڑے چیلنج مدنظر رکھے گئے ہیں۔ اس سلسلے کی سب سے اہم مشکل یہ تھی کہ موجودہ حالات میں کھانوں کا ٹھیکہ لینے والی کمپنی کو منافع کی شرح بہت کم دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سارے لوگ حجاج کرام کو مشاعر مقدسہ میں کھانے پیش کرنے سے متعلق پروگرام کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اس مخالفت کو کم کرنے کیلئے یہی حل سوچا گیا کہ کھانا معیاری ہو اور سستا ہو تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس پروگرام کی طرف مسائل ہوں۔ وزارت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پہلے سے تیار کھانوں اور روایتی انداز میں تیار کر کے کھانے پیش کرنے کے نرخوں میں بھی فرق ہے۔ حج اداروں نے پہلے سے تیار کھانے فراہم کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ اس حوالے سے یہ دلیل بھی دی گئی کہ پہلے سے تیار کھانوں کی فراہمی کے سلسلے میں ٹھیکے کی بابت بنیادی سہولتیں مہیا نہیں ہیں۔ ویسے بھی عام حاجی پہلے سے تیار کھانے ذہنی طور پر قبول نہیں کرتے ۔ وزارت حج یہ بھی چاہتی ہے کہ مشاعر مقدسہ میں جدید طرز کے باورچی خانے قائم کرنے کیلئے متعلقہ کمپنیوں کی ہمت افزائی ہو۔ وزارت کی یہ بھی کوشش ہے کہ جس ملک کے لوگ جس طرح کے کھانے پسند کرتے ہوں ویسے ہی کھانے یکساں شکل میں انہیں مہیا کئے جائیں۔ حج انتظامیہ ایک عرصہ سے عام حجاج کو اپنا کھانا حود تیار کرنے کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ اس سے ماضی میں بہت تلخ تجربے ہوئے ہیں۔ یعنی منیٰ کے قیموں میں آگ لگنے وغیرہ جیسے بھیانک واقعات کا پیش آنا وغیرہ ۔ اس سلسلہ میں ہمیں یہ بھی خیال کرنا چاہئے کہ حج انتظامیہ کسی بھی سلسلے میں جو ہدایتیں جاری کرتا ہے ، وہ حجاج کرام کے عظیم تر مفاد میں ہوتے ہیں۔ ان کی بھلائی کیلئے ، ان کی حفاظت اور منیٰ وغیرہ کے علاقے کو حادثات سے پاک رکھنے کیلئے ہوتے ہیں اور انتظامیہ کو کامیابی اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جب حجاج کرام انتظامیہ کے ساتھ پورا تعاون کریںاور ان کی جاری ہدایات پر عمل کریں۔ جہاں تک اپنا روایتی کھانا کھانے کا سوال ہے حجاج کو چاہئے کہ وہ کم از کم 8 ذوالحجہ سے 12 ذوالحجہ کے درمیان یعنی جب تک کہ وہ منیٰ کی قیمہ بستی میں قیام پذیر ہیں، کھانے پینے کی عادات و اطوار میں تھوڑا سا سمجھوتہ کریں۔ حجاج کو یہ سوچنا چاہئے کہ وہ فریضہ حج کی ادائیگی پر ہیں تاکہ پکنک پر ۔ ہمیں یاد ہے کچھ عرصہ قبل مقامی اخبار میں یہ خبر پڑھ کر حیرت ہوئی تھی کہ کچھ ہندوستانی حجاج اپنی رہائش گاہ میں پانی کی سربراہی غیر اطمینان بخش ہونے پر احتجاج کرتے ہوئے سڑک پرنکل آئے ، ایک ہنگامہ بپا کردیا۔ خیر تب فوری طور پر جدہ انڈین قونصلیٹ کے ذمہ داران وہاں پہنچ گئے اور مسئلہ حل کروادیا ۔ حج ارکان اسلام کا آخری رکن ہے ۔ مسلمان کو ادائیگی حج کی منزل تک پہنچے پہنچے تک دینی اخلاقی اقدار ، بردباری ، صبر و تحمل ، قوت برداشت امن سلامتی کا خیال رکھنا ، خدا ترسی ، رحم دلی ، عفو و درگزر ، امانت کی حفاظت اور صداقت کوپنی فطرت کا حصہ بنالینا ، ہم نفسوں کے ساتھ ہمدردی کا معاملہ کرنا وغیرہ جیسے وصف ہمارے اندر بدرجہ اتم پیدا ہوجانا چاہئے تاکہ خانۂ کعبہ کی حاضری کے وقت ’’کعبہ کس منہ سے جاؤ گے…‘‘ جیسا خیال دل میں پیدا نہ ہونے پائے۔ دراصل ان پانچ دنوں میں ہماری لو صرف اللہ سے لگی رہنی چاہئے ۔ ان پانچ دنوں میں حجاج کو صرف اپنے گناہوں اور خطاؤں سے توبہ کرنے ، انہیں بخشوانے ، رب کریم کی رضا حاصل کرنے ، مابقی زندگی کو رضائے الٰہی اور صراط مستقیم پر قائم رہنے کی توفیق کیلئے رب رحیم کے آگے گڑگڑانے میں گزارنا چاہئے ۔ نہ کہ اپنی رہائش اور غذا کے معیار کو پرکھنے میں یہ بات سننے میں کچھ سخت ضرور ہے مگر ہم خود احتسابی پر مائل ہوں تو یہ بات بری ہے نہ سخت۔ فریضہ حج کی ادائیگی کیلئے بندگانِ خدا دنیا کے کونے کونے سے ارض مقدس پر جمع ہوتے ہیں۔ یہ سلسلہ 14 سو سال سے جاری ہے ۔ بہت سے قارئین کو یاد ہوگا کہ آج سے پچپن (55) برس قبل تک بھی بہت محدود تعداد میں لوگ عازم سفر برائے بیت اللہ کرتے تھے ۔ اس کی بڑی وجہ وسائل کی کمی تھی ۔ وقت کے گزرتے حالات بدلے ، مسلمانوںکی آبادی میں قابل لحاظ اضافہ ہوا۔ مسلمانوں میں دین کے تئیں شعور بیدار ہوا اور آج کل اگلے وقتوں کی طرح حج پر صرف ضعیف ، ناتواں اور عمر رسیدہ افراد ہی نہیں نظر آتے بلکہ آج نوجوان ، توانا اور صحتمند لوگ بھی بڑی تعدادمیں حج میں نظر آتے ہیں ۔ اسے ایک خوش آئین تبدیلی کہا جاسکتا ہے لیکن لاکھوں کی تعداد میں نظر آنے والے حجاج میں ایسے بہت سے افراد بھی ہوتے ہیں جو بار بار حج پر آنے والے ہوتے ہیں۔ اس سے بھی مکہ ، منیٰ ، عرفات اور مزدلفہ کے میدانوں میں گنجائش سے زیادہ لوگ ہوجاتے ہیں۔ بار بار حج پر آنے والے اس پہلو پر غور کریں کہ ان کی وجہ سے وہ افراد اپنی عبادت کے خشوع و خضوع سے محروم ہورہے ہیں جو پہلی بار حج پر آئے ہیں اور ان کی استطاعت بھی ایک مرتبہ سے زیادہ حج پر آنے کی نہیں ہوتی ۔ یہ بات درست ہے کہ باربار حج پر آنے میں کوئی شرعی احکام کی خلاف ورزی ہے نہ کوئی گناہ لیکن بار بار حج پر آکر آپ جو گنجائش سے زیادہ تعداد بنا رہے ہیں اس سے نہ صرف آپ اپنے ہم نفسوں کیلئے زحمت کا باعث بن رہے ہیں بلکہ لاکھوں افراد کی عبادتوں کے خشوع و خضوع میں خلل ڈال رہے ہیں۔ نیز آپ حج انتظامات کرنے والوں کو تکلیف پہنچا رہے ہیں۔ بار بار حج کرنا کار اجر و ثواب ہے لیکن ہم حصول اجر و ثواب کیلئے کچھ متبادل اعمال پر بھی غور کرسکتے ہیں اور کار خیر کے ان اعمال کی انجام دہی کیلئے ہمیں کوئی مشقت اٹھانے ڈھونڈنے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ بس اپنے ارد گرد ہی نظر دوڑانے کی ضرورت ہے ۔ آپ کو بہت سے مستحقین اور ضرورت مند مل جائیں گے جن کی مدد کر کے اجر و ثواب حاصل کیا جاسکتا ہے۔
بہرحال ایک طویل کوشش کے بعد حج انتظامیہ نے گنجائش سے زیادہ حجاج کو جمع نہ ہونے دینے ، غیر قانونی طور پر حج پر آنے والوں پر کافی حد تک قابو پالیا اور گزشتہ سال کا حج ایک مثالی حج رہا جہاں پہلے کی طرح ہجوم ، فٹ پاتھوں پربستر لگانے والے اور راہ داریوں میں اڈے جمانے والے نظر نہیں آئے ۔امید کہ حکومت کی کوشش اور حجاج کا تعاون اسی طرح قائم رہے گا اور لوگ اطمینان اور خشوع و خضوع کے ساتھ اپنے مناسک ادا کرسکیں گے۔
knwasif@yahoo.com