موسمِ حج اور ایبولا وائرس کا خطرہ

پچھلے چند برسوں میں وقفہ وقفہ سے کوئی نہ کوئی مہلک بیماری یا خطرناک قسم کے وائرس کے پھیلنے کی خبر آتی رہی ہے۔ اس سلسلے کا نیا اور اب تک کا سب سے خطرناک مانا جارہا وائرس ’’ایبولا‘’ وائرس ہے ۔ جب جب دنیا میں کوئی وائرس کے پھیلنے کی اطلاع آتی ہے تو عوام کو اس سلسلے میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایات دی جاتی ہیں، جن میں عام ہدایت یہ ہوتی ہے کہ لوگ ان ممالک کے سفر سے گریز کریں جن ممالک میں یہ وائرس پھیلا ہواہے اور ان ممالک کے افراد کو بھی دیگر ممالک کے سفر سے منع کیا جاتا ہے تاکہ وائرس دنیا کے نئے مقامات پر نہ پھیلے لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ حرمین شریفین وہ مقامات ہیں

جہاں دنیا کے ہر کونے سے عازمین حج ، معتمرین اور زائرین آتے رہتے ہیں اور موسم حج میں تو ایک مخصوص وقت میں دنیا کے کونے کونے سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ان مقدس شہروں میں جمع ہوتی ہے اور اس سالانہ عظیم اجتماع کو نہ منسوخ کیا جاسکتا ہے نہ ملتوی ۔ یعنی اس اجتماع کو ہرحال منعقد ہونا ہی ہے اور اب موسم حج 1435 ھ کے آنے میں کوئی زیادہ وقت باقی نہیں رہا ہے اور حج انتظامیہ کے آگے حج کے تمام انتظامی امور کے علاوہ ایبولا وائرس سے نمٹتے ہوئے اس موسم حج کو خیر خوبی پایۂ تکمیل کو پہنچانا ایک بڑا چیلنج ہے ۔اس سلسلے میں مقامی میڈیا میں بھی مسلسل مختلف تجاویز ، مضامین اور اداریے شائع کر کے اپنا تعلق خاطر ظاہر کیا جارہا ہے ۔ عربی اخبار عکاظ نے اپنے ادارتی صفحہ پر ایک مضمون شائع کیا جس میں کہا گیا کہ سعودی عرب جسے اللہ تعالیٰ نے بے شمار خصوصیات سے نواز رکھا ہے ، ان خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس ملک میں صبح و شام ہزاروں افراد کی آمد و رفت رہتی ہے ۔ اس آمد و رفت میں حج و عمرہ اور عمومی وزٹ سر فہرست اسباب ہیں۔ یہاں لاکھوں افراد حج و عمرہ کی غرض کے تحت آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو حرمین شریفین کی خدمت کیلئے چن لیا ہے ۔ لہذا اہم اپنی برّی، بحری اور
فضائی سرحدیں لوگوں کے لئے کسی بھی وجہ سے بند نہیں کرسکتے۔
اب حکام کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ یہ ملک ہمیشہ کی طرح ہر آنے جانے والے کیلئے کھلا رہے جس طرح ازل سے ہی اس کی تقدیر رہی ہے ۔ لوگ پرامن طریقہ سے آئیں اور یہاں سے بقدر ضرورت فیض یاب ہوتے رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس ملک کے شہریوں اور اس میں مقیم غیر ملکیوں کو مختلف وبائی امراض سے بھی بچائیں، جن کا وقفے وقفے سے ظہور ہوتا رہتاہے ۔ سابقہ مختلف وائرسوں کی طرح آج کل ایبولا نامی وائرس نے دنیا میں خوف و ہراس مچا رکھا ہے اور جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ بعض افریقی ممالک میں اس کا ظہور ہوا۔ اب کسی کو نہیں معلوم کہ ایبولا کیا گل کھلائے گا ۔ کہاں تک پہنچے گا اور کیا تباہی مچائے گا۔ بس دعا ہے کہ جس طرح سعودی حکام نے اس سے پہلے کرونا وائرس پر قابو پایا اسی طرح ایبولا پر بھی قابو پالے۔

ہمیں انتہائی خوشی ہوئی جب یہ معلوم ہوا کہ مبینہ طور پر ایبولا سے متاثر ہوکر وفات پانے والے سعودی شہری پر کئے گئے لیباریٹری ٹسٹ نے ثابت کردیا کہ اس کی وفات کا سبب ایبولا نہیں تھا ۔ وہ سیر الیون سے آیا تھا اور طبی ماہرین کو خدشہ تھا کہ وہ ایبولا کا شکار ہے ۔ اب کم سے کم یہ اطمینان تو ہوگیا ہے کہ اس کی وفات ایبولا سے نہیں ہوئی ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اطمینان کی سانس لیں اور بے فکر ہوجائیں۔ اس بات کا خدشہ ابھی تک موجود ہے کہ لاکھوں معتمرین اور حجاج کی آمد کے ساتھ کسی نہ کسی طرح ایبولا بھی ہم تک پہنچ سکتا ہے ۔ حکام کیلئے یہ ناممکن ہے کہ لاکھوں معتمرین، عازمین اور زائرین میں سے ایک ایک شخص کی جانچ پڑتال کریں اور ملک میں آنے سے پہلے یہ یقین کرلیں کہ وہ ایبولا سے پاک ہے۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ ہماری بری ، بحری اور فضائی سرحدوں میں ابھی تک وہ جدید ٹکنالوجی نہیں جس کی مدد سے اس بات کا یقین کرلیا جائے کہ جن کو مملکت میں داخل ہونے کی اجازت دی جارہی ہے ، وہ ایبولا سمیت دیگر وبائی امراض میں مبتلا نہیں ہیں۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ طبی ماہرین مقدور بھر کوشش کر رہے ہیں کہ ایسا ہی ہو مگر اس کے نتائج سو فیصد نہیں۔

ایسے میں ہمارا بحیثیت اس ملک کے شہری، اس ملک میں رہائش پذیر غیر ملکی، معتمرین، زائرین یا حجاج، ہمارا فرض بنتا ہے کہ اس ملک کو جہاں چند دنوں بعد پوری دنیا سے آنے والے مسلمانوں کا سالانہ اجتماع حج کی صورت میں منعقد ہونے جارہاہے، اس ملک کو ایبولا سمیت دیگر متعدی اور وبائی بیماریوں سے بچائیں۔ یہ اس ملک میں آنے والے تمام افراد کی ذمہ داری ہے کیونکہ خدانخواستہ اس ملک میں وبائی بیماری پھیل گئی تو لا محالہ پوری دنیا میں پھیل سکتی ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ حرمین شریفین کے علاوہ یہاں دنیا کے اکثر و بیشتر ممالک سے آنے والے لاکھوں لوگوں کی آمد و رفت رہتی ہے ۔ باہمی اختلاط سے اس بات کا اندیشہ ہے کہ یہ وباء بہت تیزی سے پھوٹ پڑے۔ اسی لئے سعودی حکام خواہ ان کا تعلق ایرپورٹ سے ہو، صحت یا حج و عمرہ یا دیگر اداروں سے ہو، ان پر دوہری ذمہ داری ہے کہ اس ملک کو تمام وبائی بیماریوں سے پاک رکھیں۔ اس سے پہلے بھی سعودی حکام توقعات پر پورے اترے ہیں، جن دنوں سارس ، سوائن فلو اور دیگر وبائی بیماریاں عام تھیں اور دنیا کو حج کے اجتماع سے بڑے خدشات تھے تو سعودی حکام حج موسم کو وبائی بیماریوں سے پاک کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اسی طرح امسال بھی ایبولا سے پاک کرنے میں کامیاب ہوں گے مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم زیادہ چوکنا ہوں اور زیادہ محنت سے کام کریں۔ ہم عام شہری ہوں ، مقیم غیر ملکی ہوں یا معتمرین و زائرین، ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم بھی محتاط رہیں۔

بہرحال دنیا کے اس بے مثال اور مقدس اجتماع کو مہلک امراض اور وائرس وغیرہ سے پاک رکھنے کیلئے حج انتظامیہ ، دیگر متعلقہ افراد، میڈیا وغیرہ اپنی سطح پر کوشش کر رہے ہیں۔ اب عام مسلمانوں کی سطح پر جو سعودی عرب کے مقامی افراد اور دنیا کے دیگر ممالک کے مسلمان حج یا عمرہ کا ارادہ رکھتے ہیں وہ اگر اپنے ارادے کو کچھ وقت کیلئے ملتوی کریں تو اس سے وہ کارخیر کے ثواب کے مستحق ہوں گے ۔ سعودی حکومت مکہ مکرمہ میں توسیعی کام کے جاری رہنے کی وجہ سے مطاف کے حصہ میں گنجائش میں کمی واقع ہوئی ہے لہذا حج انتظامیہ دنیا کے مسلمانوں سے اپیل کر رہا ہے کہ وہ ایسے افراد جو حج و عمرہ ایک مرتبہ کرچکے ہیں اور دوبارہ حج یا عمرہ کرنا چاہتے ہیں تو وہ اپنے ارادے کو کچھ عرصہ ملتوی رکھیں۔ اس سے اجتماع کی تعداد میں کمی سے وائرس یا وبائی امراض پھیلنے کے خدشات میں بھی کمی ہوگی اور یہ وائرس دنیا کے نئے علاقوں میں نہیں پھیلے گا۔ خصوصاً ان افراد کو رضاکارانہ طور پر حج یا عمرہ پر آنے سے احتیاط کرنا چاہئے جہاں یہ ایبولا وائرس کا ہونا ثابت ہوچکا ہے۔ اپنے ہم نفسوں کو وباء اور ہلاکت خیز امراض سے بچانے میں تعاون کرنا بھی ایک عمل خیر اور کار ثواب ہے ۔ نیز مفاد عامہ میں ہر ملک اپنے حاجی کو مملکت روانہ کرنے سے قبل پوری طرح اس کی طبی جانچ کرے اور یہ اطمینان کرے کہ کہیں اسے کوئی وبائی مرض تو لاحق نہیں ہے کیونکہ ایک مخصوص وقت میں ہر روز ہزاروں افراد جو حج کیلئے یہاں پہنچتے ہیں اور حج انتظامیہ کیلئے ممکن نہیں ہوسکتا کہ وہ ہر شخض کا طبی معائنہ کرے ۔ لہذا ساری دنیا کے حجاج کی صحت و سلامتی کیلئے بہتر ہے کہ ہر ملک خود اپنے حجاج کی روانگی سے قبل ان کی صحت کی مکمل جانچ کرے تو یہ ساری دنیا کے حجاج کے حق میں اور حج انتظامیہ کیلئے باعث آسانی ہوگا۔