فیض محمد اصغر
ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے بیرونی دوروں پر انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مودی کے مخالفین طنز و طعنوں کے تیر برساتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ 4 برسوں کے دوران انہوں نے ملک کی ترقی اور داخلی حالات میں بہتری لانے کے بجائے صرف بیرونی دوروں کو ترجیح دی ہے۔ وہ ملک میں کم اور بیرون ملک زیادہ رہے۔ مودی کے بعض مخالفین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ مودی کو اقتدار پر فائز ہونے کے بعد اپنے بیرونی دوروں کا شوق پورا کرنے میں مدد ملی ہے اور انہوں نے اس ضمن میں کوئی کسر بھی نہیں چھوڑی اور نہ ہی کوئی موقع ہاتھ سے جانے دیا۔ اب ایک رپورٹ آئی ہے کہ مودی کے بیرونی دوروں پر بتایا جاتا ہے کہ 387.26 کروڑ روپے کے مصارف آئے اور حکومت نے یہ رقم ایئر انڈیا کو ادا کی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حقیقت میں مودی کے بیرونی دوروں پر 387 کروڑ روپے نہیں بلکہ 1400 کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کی بہ نسبت نریندر مودی نے بیرونی ممالک میں زیادہ دن گذارے ہیں۔ انہوں نے تاحال 182 دن بیرونی ممالک میں گذارے ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ تقریباً ساڑھے چھ ماہ ملک سے باہر رہے اور تقریباً 3 سال 5 ماہ ملک میں رہنے کے باوجود انہوں نے کسانوں اور سماج کے محروم طبقات کو ملاقات کا موقع نہیں دیا۔ ہاں مودی جی نے اس مدت کے دوران مختلف ریاستوں کے اسمبلی انتخابات اور پارلیمنٹ کے ضمنی انتخابات میں اپنی پارٹی کے حق میں مہم چلائی۔ مودی جی کے بارے میں اپوزیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ 4 برسوں کے دوران اپنے اقتدار میں مودی جی نے جس انداز میں گفتگو کی ہے اور اشارے کنایوں میں ان کی جو باتیں رہی ہیں اس سے ایسا لگا کہ عہدہ وزارت عظمیٰ پر فائز کوئی شخص نہیں بلکہ گلی کا کوئی لیڈر بات کررہا ہو۔ مثال کے طور پر انتخابی فوائد کے لئے انہوں نے اترپردیش میں قبرستان اور شمشان کا نعرہ لگایا، گجرات میں پاکستان کا خوف دلایا، اور کئی موقعوں پر ایسی باتیں کیں جس سے وزیر اعظم کی فرقہ پرستانہ ذہنیت کا اظہار ہوتا ہے۔ ہندوستان 130 کروڑ نفوس پر مشتمل ایک ہمہ تہذیبی عظیم ملک ہے جس میں بے شمار مذاہب کے ماننے والے، بے شمار زبانوں کے بولنے والے اور کئی ایک رسم و رواج و روایتوں پر عمل کرنے والے رہتے بستے ہیں۔ اگرچہ ہندوؤں کی آبادی ملک میں 90 کروڑ سے زائد بتائی جاتی ہے لیکن ہندوؤں میں بھی کئی ذاتیں ہیں۔ ملک کے شمال، جنوب، مشرق، مغرب میں بسنے والے ہندوؤں کے مذہبی رسم و رواج بھی جداگانہ ہیں۔ وزیر اعظم کے بیرونی دوروں پر کسی کو بھی اعتراض نہیں کرنا چاہئے کیونکہ بحیثیت وزیر اعظم یہ ان کی جمہوری ذمہ داری ہے۔ ہجومی تشدد میں تاحال درجنوں مسلمان شہید کردیئے گئے لیکن وزیر اعظم نے تو ایسی خاموشی اختیار کرلی جیسے انہوں نے مسلمانوں کے قتل عام پر خاموش رہنے کی قسم کھالی ہو۔ حالیہ عرصہ میں تحریک عدم اعتماد پیش کئے جانے کے دوران صدر کانگریس راہول گاندھی نے جب حکومت پر لعن طعن کی اور مودی جی کو غیرت دلائی کہ وہ کم از کم جانوروں کے نام پر انسانوں کے قتل کے خلاف آواز اٹھائیں، اپنا منہ کھولیں تب ایوان میں وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے یہ اعلان کیا کہ لا اینڈ آرڈر کی ذمہ داری ریاستوں کی ہے اس لئے مرکزی حکومت ان ریاستوں کو ہدایت دیتی ہے کہ وہ ہجومی تشدد کے خلاف سخت اقدامات کریں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ایوان میں بیان دیتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی جنہوں نے راہول گاندھی کو پشیمان کرنے کی خاطر یہ کہا تھا کہ انہیں ملک کے 125 کروڑ عوام نے اس کرسی (عہدہ وزارت عظمیٰ پر فائز کیا) پر بیٹھایا ہے اور صدر کانگریس راہول گاندھی ان کے قریب پہنچ کر ان سے ’’اٹھو اٹھو‘‘ کہتے ہیں۔ اپنے اس بیان کا مان رکھ لیتے، کیا انہیں پتہ نہیں کہ 125 کروڑ ہندوستانیوں میں کم از کم 20 کروڑ مسلمان بھی شامل ہیں جن کے خلاف ایک منظم اور منصوبہ بند انداز میں مہم چلائی جارہی ہے۔ بہرحال مودی جی کو یہ جان لینا چاہئے کہ انسان کو چاہے وہ کسی مذہب سے تعلق کیوں نہ رکھتا ہو پہلے ایک اچھا انسان ہونا چاہئے، بعد میں ہندو، مسلمان۔ ویسے بھی کسی بھی مذہب میں دوسرے انسانوں سے نفرت و عداوت کی تعلیم نہیں دی گئی۔ ایسے میں وزیر اعظم کو وزیر اعظم نہیں بلکہ ایک اچھا انسان ہونا چاہئے۔ ایک ایسا انسان جس کے دل میں تمام مذاہب کے لئے محبت، ہمدردی اور ایثار و خلوص کا جذبہ پنہا ہو۔ اس کی نظر میں تمام شہری مساوی حیثیت رکھتے ہوں۔ ہندو برادران وطن بھی اب یہ سوال کرنے لگے ہیں کہ آخر مودی حکومت کو مسلمانوں۔ عیسائیوں۔ دیگر اقلیتوں اور دلتوں سے اتنا بغض کیوں ہے؟ اس کے دل اتنی نفرت کیوں ہے؟ ۔ کاش حکومت ہر چیز کو فرقہ پرستی کی عینک سے دیکھنے کی بجائے غیر جانبداری، انسانیت اور جذبہ ہمدردی کی عینک سے دیکھے تب ملک تیزی کے ساتھ ترقی کی سمت گامزن ہوگا۔ ورنہ صرف اچھے دن کے وعدے ہی کئے جاسکیں گے۔