رام پنیانی
ملک کے پارلیمانی انتخابات کے نتائج بڑے دلچسپ رہے، صرف 31 فیصد ووٹ حاصل کرنے والی بی جے پی کو 282 پارلیمانی نشستیں حاصل ہوئیں جبکہ جملہ ووٹوں کا 19فیصد حصہ حاصل کرنے والی ہندوستان کی قدیم ترین سیاسی جماعت کانگریس (44) 3.8فیصد ووٹ اپنے کھاتے میں ڈالنے والی ترنمول کانگریس (34) 3.4 فیصد ووٹ حاصل کرنے والے ملائم سنگھ یادو کی سماج وادی پارٹی نے 5حلقوں میں کامیابی حاصل کی۔ تاملناڈو میں برسر اقتدار اے آئی اے ڈی ایم کے نے 3.8 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے 37نشستوں پر قبضہ کیا جبکہ 3.3 فیصد ووٹ لینے والی سی پی آئی ایم کو 9 نشستیں ہی مل سکیں۔ دوسری طرف 4.1 فیصد رائے دہندوں کی تائید حاصل کرنے کے باوجود مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی ایک بھی نشست حاصل کرنے سے قاصر رہی۔ ان انتخابی نتائج کو دلچسپ اور حیرت انگیز اس لئے بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس مرتبہ کانگریس 19.3 فصید ووٹ حاصل کرتے ہوئے صرف 44حلقوں میں کامیابی حاصل کرسکی۔ اس کے برخلاف 2009 کے عام انتخابات میں بی جے پی کو 18.5 فیصد ووٹ ملے تھے، اس وقت اس نے 116 حلقوں پر قبضہ کیا تھا۔ انتخابی عمل میں اس تفاوت سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کے انتخابی نظام میں غیر معمولی اصلاحات کا نفاذ ضروری ہے۔
دراصل اس قسم کے تفاوت سے ہماری پارلیمنٹ کا نمائندہ چارٹر کمزور ہورہا ہے۔ کافی عرصہ سے کئی سماجی جہد کار انتخابی اصلاحات کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن ان کے اس مطالبہ پر حکومت اور اس کے اداروں نے کوئی توجہ مرکوز نہیں کی۔
جہاں تک مودی کا سوال ہے، وہ اس انتخابی موسم میں چھائے رہے۔ انتخابی نتائج کے اعلان اور بی جے پی کی مثالی کامیابی کو ان کے ترقیاتی ایجنڈہ کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ترقیاتی ایجنڈہ کے باعث ہی رائے دہندے مودی اور بی جے پی کی طرف راغب ہوئے ہیں۔ عوام نے بلالحاظ مذہب و ملت مودی کی تائید کی۔ لیکن اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ دعوؤں میں کہاں تک سچائی ہے؟۔
مودی اور بی جے پی کی کامیابی کا گہرائی و گیرائی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ملک کے صنعتی گھرانوں نے مودی کی ہر طرح سے بھرپور مدد کی ہے اور روپیہ پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا۔ مزید برآں یہ کہ آر ایس ایس کے لاکھوں ورکروں نے بی جے پی کیلئے اپنی سطح سے انتخابی مہم چلائی۔ اگر ان حقائق کو بھی ایک طرف رکھ دیا جائے تو یہ بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ مودی نے دو مضبوط ستونوں پر اپنے قدم جمائے تھے، ایک طرف کارپوریٹ گھرانے اور دوسری طرف آر ایس ایس مودی کو طاقت بخشتے رہے۔ مودی نے انتخابی مہم کے دوران بار بار اس بات کو دہرایا کہ ’’ اگرچہ وہ آزادی کیلئے نہیں مرسکتے، لیکن ہندوستان کی آزادی کیلئے جی سکتے ہیں۔‘‘ اس طرح کے نعرے لگاتے ہوئے بھی نریندر مودی نے دروغ گوئی سے کام لیا اور یہ مودی کی کئی جھوٹوں میں سے ایک جھوٹ ہے۔ اس لئے کہ مودی نے ہندوستان کی آزادی کے بارے میں جو باتیں کی ہیں اس کا اصل مقصد عوام کی نظروں میں اپنی شبیہہ کو بہتر بنانا تھا حالانکہ ہندوستان بلکہ دنیا میں ہر کوئی جانتا ہے کہ نریندر مودی آر ایس ایس کے سیاسی نظریہ کے حامل ہیں اور ہندوتوا ان کا منشاء و مقصد ہے اور آر ایس ایس کا ہندوستان کی جدوجہد آزادی سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کی ہندوتوا قوم پرستی، تحریک آزادی کی قوم پرستی سے بالکلیہ طور پر مختلف ہے۔ مہاتما گاندھی کی تحریک قوم پرستی، ہندوستانی قوم پرستی کی بنیاد پر تھی جبکہ مودی پریوار کی قوم پرستی ہندو قوم پرستی کے سواء کچھ بھی نہیں۔ اس طرح ہندوستان اور ہندو قوم پرستی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ہندو قوم پرستی‘ محمد علی جناح کی مسلم قوم پرستی کی طرح ہے۔
ایک اور حقیقت یہ بھی ہے کہ آر ایس ایس نے ہمیشہ گاندھی جی کی قوم پرستی اور جدوجہد آزادی کو اپنی تنقیدوں کا نشانہ بنایا۔
ان حالات میں اس بات کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ مودی یا ان کے پیشرو جیسے لوگ اپنے ملک کی آزادی کیلئے قربان ہونے اور مرنے کیلئے تیار ہیں، اس طرح کے بیانات عوام کو گمراہ کرنے کا ایک طریقہ ہی ہوسکتے ہیں۔ اب یہ دیکھتے ہیں کہ آخر مودی کو انتخابات میں کامیابی کیسے حاصل ہوئی اور ان کی کامیابی کیلئے کونسے عوامل ذمہ دار ہیں۔ سب سے پہلے مودی کے جارحانہ تیور کانگریس کی کمزوری سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کی صلاحیت سے کانگریس کی جوش و جذبات بلکہ ہوش سے عاری انتخابی مہم کے جواب میں عوام سے راست رابطہ سے متعلق خوبی اور صدارتی انتخابی طرز کی انتخابی مہم نے مودی کو کامیابی دلانے میں اہم رول ادا کیا۔ یہاں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انتخابی مہم کے دوران کانگریس کرپشن کے اور کمزور حکمرانی کے بوجھ تلے دبی رہی۔ کانگریس نے ایک طرح سے خود اپنی تباہی کا سامان کرلیا۔ اس کے زوال کا آغاز انا ہزارے کی تحریک سے شروع ہوا، انسداد رشوت ستانی کی اس تحریک کی آر ایس ایس نے بھرپور تائید و حمایت کی اور بعد میں اسی طرح اپنے ہاتھ میں لے کر سیاسی جماعت قائم کرنے والے اروند کجریوال نے غیر متوقع اور غیر معمولی کامیابیاں حاصل کرتے ہوئے کانگریس کے خیموں میں انتخابی شکست کا مایوسانہ ماحول پیدا کردیا۔ عام آدمی پارٹی کا دہلی پر قبضہ کوئی چھوٹی بات نہیں تھی بلکہ 15 سال تک برسراقتدار رہنے والی شیلا ڈکشٹ کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے کجریوال نے کانگریس کو مزید کمزور کردیا۔ کجریوال کے معاملہ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے بی جے پی زیر قیادت ریاستوں میں رشوت خوری کو بے نقاب کرنے میں وہ سرگرمی نہیں دکھائی جس طرح کانگریس کو پریشان کرنے میں دکھائی۔
کجریوال کی عام آدمی پارٹی نے 400سے زائد پارلیمانی حلقوں میں اپنے امیدوار ٹھہرائے جن میں سے اکثر کی ضمانتیں ضبط ہوئیں لیکن عام آدمی پارٹی کے امیدواروں کے ذریعہ کجریوال نے مخالف مودی ووٹس تقسیم کردیئے اور اس میں انہیں زبردست کامیابی ملی۔ ایک بات اور ہے کہ عام آدمی پارٹی کے زیادہ تر امیدوار ایسے تھے جنہوں نے سماجی مسائل پر نمایاں کام کیا اور مختلف سماجی تحریکوں میں ان کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اب جبکہ ان سماجی جہد کاروں کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، ایسے میں وہ کیسے دوبارہ اپنے سماجی ایجنڈہ کی تکمیل کیلئے واپس ہوں گے اور کس طرح احتجاجی مظاہرہ منظم کریں گے؟۔ بالفاظ دیگر وہ کس منہ سے عوام سے رجوع ہوں گے؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ ہمارے سامنے ایسے کئی قائدین اور جہد کار ہیں جو انا ہزارے کو دوسرا گاندھی قرار دے رہے تھے اور اب وہی لوگ رام دیو اور مودی جیسے لوگوں کا گاندھی جی سے تقابل کرتے ہوئے انھیں ( مہاتما گاندھی ) کو ایک طرح سے گالیاں دے رہے ہیں۔ مودی کی چاپلوسی کی تمام سرحدیں پار کرتے ہوئے ایک چاپلوس نے یہاں تک کہہ دیا کہ مودی گاندھی سے بہتر ہے۔ مہاتما گاندھی سے رام دیو اور مودی جیسے لوگوں کا تقابل کرنا بہت ہی شرمناک بات ہے۔ گاندھی جی نے ایک قوم کو متحد کرنے کا کام کیا۔ انہوں نے ایک ایسی قوم کو متحد کیا جس کی بنیادیں تخریبی نظریات اور نسلی قوم پرستی کی زمین پر کھڑی ہوئی تھیں۔
ہم اب آتے ہیں نریندر مودی کے ترقیاتی ایجنڈہ کی طرف، یہ سچ ہے کہ گجرات قتل عام میں اپنے رول کو اچھی طرح نبھانے کے بعد انہوں نے بڑی تیزی کے ساتھ گجرات کی ترقی کا پروپگنڈہ شروع کردیا۔ اس پروپگنڈہ کی تشہیر میں صنعتی گھرانوں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا اور سال 2007ء سے مودی کو عہدہ وزارتِ عظمیٰ پر فائز کرنے کی تیاریاں شروع کردیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ترقیاتی ایجنڈہ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے مودی نے کارپوریٹ شعبہ کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ اگرچہ گجرات فسادات کے بعد سے ہی ریاست میں مسلمانوں کو نظرانداز کیا جانا شروع ہوچکا تھا لیکن 2007ء میں صنعتی گھرانوں کی قربت کے بعد اس رجحان میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ مودی نے گجرات کی ترقی کے بارے میں اس قدر پرزور انداز میں دروغ گوئی سے کام لیا کہ ان کا جھوٹ بھولی بھالی عوام کو سچ دکھائی دینے لگا۔ لیکن ماہرین نے جب گجرات کی ترقی کے ڈاٹاکا جائزہ لینا شروع کیا تب اس ریاست کی ترقی کا بھانڈا پھوٹ گیا۔ لیکن اس طرح کی حقیقت سے واقف کروانے کیلئے اس وقت تک کافی تاخیر ہوچکی تھی۔ ان انتخابات میں مودی نے بڑی ہی چالاکی کے ساتھ فرقہ پرستی اور ذات پات کا کارڈ بھی کھیلا۔ انہوں نے گائے کے گوشت کی برآمد پر تنقید کی اور برادران وطن کو ایسا اشارہ دیا کہ گائے کے گوشت کی برآمدات مسلمانوں سے جڑی ہوئی ہیں بلکہ گائے اور اس کے گوشت پوست ہڈیو ں وغیرہ کے کاروبارکرنے والوں میں ہندوؤں کی اکثریت ہے۔ اس طرح اس مسئلہ کے ذریعہ انہوں نے ایک تیر سے دوشکار کئے اور اسے فرقہ وارانہ اور معاشی مسئلہ بنادیا۔ مودی نے انتخابی مہم کے دوران بنگلہ بولنے والے مسلمانوں کے خلاف مسلسل زہر افشانی کی اور اس کیلئے حکومت آسام کو ذمہ دار قرار دیا۔ مودی نے یہاں تک کہہ دیا کہ بنگلہ بولنے والے لوگوں کو انتخابی نتیجہ کے دن 16مئی کو اپنے بوریا بستر باندھ کر ہندوستان سے روانہ ہوجانے کیلئے تیار رہنا ہوگا۔ مودی کا یہ فرقہ وارانہ پیام بالکل واضح تھا۔ بی جے پی کے ترجمانوں نے پہلے ہی سے یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ بنگلہ بولنے والے ہندوپناہ گزین اور مسلم درانداز ہیں۔ بی جے پی نے جن ریاستوں میں کامیابی حاصل کی اگر ان کا جائزہ لیا جائے تو کسی کے بھی ذہن میں ایک پریشان کن حقیقت سامنے آئے گی کہ ترقی کے جھوٹے وعدوں کے ساتھ ساتھ فرقہ پرستی نے بھی اپنا کام کیا۔ مثال کے طور پر مودی کو ان علاقوں میں کامیابی ملی جہاں پہلے ہی سے فرقہ وارانہ فسادات، دہشت گرد حملے کے واقعات پیش آچکے تھے۔ مہاراشٹرا، گجرات، اترپردیش،
مدھیہ پردیش، بہار اور آسام یہ ایسی ریاستیں ہیں جہاں ماضی میں فرقہ وارانہ تشدد کے متعدد واقعات رونما ہوچکے ہیں جبکہ تاملناڈو، کیرالا اور مغربی بنگال کے علاوہ اڈیشہ میں بی جے پی کو کوئی خاص کامیابی نہ مل سکی ۔ ان ریاستوں میں صرف اڈیشہ ایسی ریاست ہے جہاں کندھامل تشدد کا واقعہ پیش آچکا ہے۔ انتخابی مہم میں مودی نے ذا ت پات کا بھی استحصال کیا ۔ پرینکا گاندھی نے جب انھیں نیچ سیاست سے گریز کا مشورہ دیا تو انہوں نے اسے توڑ مروڑ کر نیچ ذات کردیا، مودی گلمانچی ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ بہر حال مودی کی جیت سے ملک کے عوام میں فکر مندی اور خوف کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اب آنے والے دنوں میں یہ فرقہ پرست خاطی کو کلین چٹ ہوگی، بے قصور جیلوں کی کوٹھریوں میں سڑتے رہیں گے اور شرپسند آزادانہ دندناتے پھرتے رہیں گے، سارا کنٹرول مودی کے ہاتھ میں ہوگا۔ ایسے میں گاندھی اور نہرو کے ہندوستان کا مستقبل کیا ہوگا اس کا بہت جلد پتہ چل جائے گا۔
(ترجمہ ابومعوذ )