مودی کشمیر کی تاریخ سے لاعلم

کلدیپ نیر
مجھے اس بات پر خوشی محسوس ہورہی تھی کہ دوتہائی اکثریت نے اپنی رائے دہی کا استعمال کیا اور اس وقت تک مسئلہ کشمیر الیکشن ایشو نہیں تھا۔ بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں اس بات کا ذکر کیا کہ وہ آرٹیکل 370 کو ختم کردے گی جو ریاست ایک علیحدہ تشخص فراہم کرتا ہے، لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بی جے پی برسوں سے اس بات کا مطالبہ کرتی آرہی ہے ،لیکن اس پر آج تک کسی نے بھی کوئی توجہ نہیں دی۔ بی جے پی کے بہار کے لیڈر گری راج سنگھ نے یہ کہتے ہوئے دھماکہ کردیا کہ جو لوگ نریندر مودی کو ووٹ نہیں دینا چاہتے، انہیں پاکستان چلے جانا چاہئے۔ ان کی اس دھمکی نے ہنگامہ برپا کردیا، لیکن معمول کے حالات اس وقت آئے جب بی جے پی نے خود کو ان کے اس بیان سے دوری اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پارٹی کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے۔ بلاشبہ کشمیر کے لیڈر فاروق عبداللہ نے یہ کہتے ہوئے ایک ہنگامہ کھڑا کردیا کہ جن لوگوں نے مودی کو ووٹ دیا ہے، انہیں سمندر میں ڈوب مرنا چاہئے لیکن فاروق عبداللہ کے اس بات سے ماحول پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا کیونکہ اس سے قبل بھی وہ اس طرح کی باتیں متعدد بار کہہ چکے ہیں اور شاید ہی کبھی ان کی باتوں کو کسی نے سنجیدگی سے لیا گیا ہو۔

لیکن سب سے زیادہ ماحول کو جس شخص نے خراب کیا، وہ نریندر مودی ہیں، انہوں نے ملک کے ماحول کو جس طرح آلودہ کرنے کا کام کیا ہے، شاید اس آلودگی کو دُور کرنے میں اچھا خاص وقت لگے گا۔ انہوں نے ہندو اور مسلمان کے درمیان جس طرح کی نفرت پھیلانے کی کوشش کی ہے، اس خلیج کو پاٹنے میں اچھا خاصا وقت لگے گا۔ انہوں نے مقبول رہنما شیخ عبداللہ کو نشانہ بنایا اور کہا کہ کشمیر کے جو موجودہ حالات ہیں، اس کیلئے شیخ عبداللہ ذمہ دار ہیں۔ مودی کو انٹیگریشن کے مرحلے کے متعلق قطعی کوئی اطلاع نہیں ہے لیکن جہاں تک شیخ عبداللہ کا تعلق ہے تو انہوں نے ہندو ۔ مسلم یکجہتی کے لئے جتنی کوششیں کیں، اتنی کسی نے نہیں کی ہیں۔ ان کی اس قابل ستائش اقدام سے کوئی انحراف نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کشمیر کے اکثر مسلمانوں کو ملک کے کثیر ہندوؤں کے قریب لانے میں بڑی محنت کی۔

شیخ عبداللہ کے فرزند فاروق عبداللہ کا یہ بیان کہ کشمیر کبھی بھی فرقہ پرست ہندوستان کا حصہ نہیں بن سکتا ہے، نے فرقہ پرستی پر کاری ضرب لگانے کا کام کیا ہے۔ تمام سکیولر طاقتوں کو چاہئے کہ وہ فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف نبردآزما ہوجائیں۔ فاروق عبداللہ اس میں اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ ہمیں ملک کو سکیولر اور جمہوری راستے پر لانے کے لئے بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔ وہ اپنی بات پر پوری طرح قائم ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ ملک کی جمہوریت پر آئے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے پورے ملک کو متحد ہوجانا چاہئے۔ ان کا یہ نظریہ بھی درست ہے کہ پورے ملک کو فرقہ پرستی سے لڑنے کے لئے تیار ہوجانا چاہئے لیکن ان پاکستانیوں کے بارے میں وہ کیا کہیں گے جنہوں نے آزادی کی خاطر اپنی جانوں کی قربانی دی۔ ہندوستان کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے پاکستان کے مفاد کو تسلیم کیا تھا۔ انہوں نے شیخ عبداللہ کو اسلام آباد بھیجا تھا تاکہ مشترکہ زمین ہموار کی جائے ۔ شیخ عبداللہ نے جنرل محمد ایوب سے ملاقات کی، لیکن اس کا کوئی خاص نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ جب شیخ عبداللہ نے مئی 1964ء میں ایوب خان سے ملاقات کی تو تعطل ختم کرنے کی کوشش کی۔ ایوب نے اسلام آباد میں مجھ سے اپریل 1972ء میں کہا تھا کہ ان کا تاثر یہ تھا کہ نہرو ان کے تعلق سے بہتر تاثر نہیں رکھتے تھے۔ لفظ ’’پاکستان‘‘ کے تعلق سے جو منطق پیش کی گئی تھی، وہ نہرو کو پسند نہیں تھی۔ لیکن شیخ عبداللہ کے دورے سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوسکا۔ یہاں تک کہ نہرو کے ذریعہ آغاز کئے گئے مذاکرات بھی اپنی اہمیت کھونے لگی تھیں۔ پاکستان دھاگے چننے میں خود کو غیرمطمئن محسوس کررہا تھا، لیکن لال بہادر شاستری اور ایوب کی ملاقات نے بھی کوئی مسئلہ حل نہیں کیا۔ شاستری جب کشمیر مسئلہ پر کوئی بات چیت نہیں کرنا چاہتے تھے تو اس کی وجہ سے نااُمیدی کا ماحول فروغ پارہا تھا۔ انہوں نے اس مسئلہ کو مشترکہ اجلاس میں بھی اس مسئلہ کو اٹھانا مناسب نہیں سمجھا۔ یہ مشترکہ اجلاس وزیر داخلہ حکومت ہند اور پاکستان کے درمیان عمل میں آیا تھا۔
جہاں تک آزادی کا تعلق ہے توجنگجوؤں کو یہ بات محسوس نہیں ہوئی کہ طالبان اس طرح کا ماحول دنیا میں پیدا کررہا ہے کہ کشمیری بغاوت پسندوں کو انتہا پسند تصور کیا جاتا ہے۔ سید علی شاہ گیلانی جیسے سخت گیر لیڈر نے واضح طور پر کہتے ہیں کہ ریاست کی آزادی کا مطالبہ ایک ہی سکے کے دوسرے پہلو کے مترادف ہے۔ پاکستان نے ایک دفعہ آزادی کے تصور کی سخت مخالفت کی تھی، لیکن اب وہ خاموش ہے۔ اسٹیبلشمنٹ میں سے کچھ ایسے ہیں جو آزادی کا مطالبہ کررہے ہیں کیونکہ ان کی توقعات یہ ہیں کہ کشمیر کی آزادی کا مطلب پاکستان میں شمولیت ہوگی۔میں مودی یا ان کی بی جے پی کی کامیابی پر انہیں ضرور مبارکباد دوں گا، لیکن مرکز میں بی جے پی کی حکومت اس سے قبل بھی رہ چکی ہے۔ مودی ہندوتوا کا ایک موزوں چہرہ ہوسکتے ہیں، لیکن دستور ہند سب سے بالاتر ہے اور وہ اس بات کی یقین دہانی کراتا ہے کہ قانون کے سامنے تمام برابر ہیں۔ ہندوستان ایک طویل عہد سے کثیرالمذاہب ملک رہا ہے اور اس کی ہزاروں سالہ تاریخ رہی ہے۔ مودی نے خود اپنی ایک تقریر میں کہا ہے کہ اگر وہ منتخب ہوتے ہیں تو وہ ملک کے تمام طبقات کو ایک ساتھ لے کر چلیں گے اور ترقی کے اپنے ایجنڈے پر تمام کو شریک رکھیں گے۔
دستور ہند کا آرٹیکل 370 جموں و کشمیر کو اسپیشل اسٹیٹس فراہم کرتا ہے۔ مودی یا ان کی پارٹی اس آرٹیکل کو ختم نہیں کرسکتے کیونکہ ہندوستان میں اس ریاست کا انضمام اسی شرط پر عمل میں آیا تھا۔ یہ اس ریاست پر منحصر ہے کہ وہ اپنے اسٹیٹس کو تبدیل کرے۔ اگر اس کی مرضی تو تبھی اس میں تبدیلی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔ یہ بات نہایت اہمیت کی حامل ہے اور ضروری ہے کہ کشمیر کا مسئلہ تینوں فریقوں ہندوستان، پاکستان اور کشمیر کا مسئلہ ہے۔ ان تینوں فریق کے لئے یہ ایک نہایت پیچیدہ مسئلہ ہے۔یہ مشکل اس لئے ہے کیونکہ بی جے پی نے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس آرٹیکل کا اختتام نہرو اور شیخ عبداللہ کی مفاہمت کی خلاف ورزی ہوگی۔ فاروق عبداللہ کے ذریعہ دیئے گئے بیان میں ایک نکتہ یہ پوشیدہ ہے کہ آرٹیکل 370 کے ختم کئے جانے سے کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ انٹگریشن پر سوالیہ نشان قائم ہوجائے گا۔ اس لئے اس آرٹیکل کو چھیڑنا ہندوستان کی سالمیت کے لئے خطرہ بن سکتا ہے اور بی جے پی یہی چاہتی ہے کہ ہندوستان میں انتشار پیدا ہو۔ ہندوستان میں پھوٹ پڑے اور وہ آسانی سے ملک پر حکمرانی کرسکیلیکن بی جے پی کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہونے والا ہے۔