مودی کامسلم پیار: دہلی پولیس نجیب احمد کو تحویل میں لیا۔غم وغصہ کی لہر

نئی دہلی: نجیب احمد کی والدہ فاطمہ دہلی پولیس کے جانب سے گھسیٹے جانے کے بعد سے سکتے میں ہیں۔ دوسو کے قریب جواہر لال یونیورسٹی ( جی این یو) طلبہ کے ہمراہ جی این یو سے لاپتہ طالب علم نجیب احمد کی ماں کو اس وقت حراست میں لیاگیا جب اتوار کے روزہ یہ لوگ انڈیا گیٹ کے قریب میں نجیب کا پتہ لاگنے میں پولیس کی جانب سے تاخیرکے خلاف احتجاج دھرنا منظم کرنے جارہے تھے۔

ایک احتجاجی شاہد رضا نے پولیس پر الزام عائد کیا کہ اُس نے نجیب کی ماں کے ساتھ بدسلوکی کی۔ پولیس کے مطابق بعد ازاں انہیں مندر مارگ پولیس اسٹیشن منتقل کیاگیا۔جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے اندر جاری اسٹوڈنٹس کی سیاست اور نجیب کے لاپتہ ہونے کے پس پردہ سازشی محرکات میں جس اے بی وی پی دائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کے ملوث ہونے کے خدشات شامل ہیں کوبلائے طاق رکھنے کے باوجود اپنے لاپتہ بیٹے کی تلاش کے لئے فاطمہ نفیس کی یہ ایک جدوجہد ایک سیاسی نہیں ہے جو پچھلے تین ہفتوں اے بی وی پی غنڈہ عناصر کے ساتھ جے این یو میں جھڑپ کے بعد سے لاپتہ بیٹے کی تلاش کے لئے کی جارہی ہے۔

اتوار کے روز نجیب احمد کی ماں او ربہن کوسینکڑوں دیگر کارکنوں کے ہمراہ دہلی پولیس نے اتوار کے دن اپنی تحویل میں لے لیاتھا۔زیر حراست ایک طالب علم نے کیچ نیوز کو بتایا کہ احتجاجیوں میں جے این یو او ر جامعہ ملیہ اسلامیہ سے پانچ سو کے قریب طلبہ شامل تھے جہیں مایہ پوری ‘ ائی این اے اور بارہ کھنبہ پولیس اسٹیشن منتقل کیاگیا۔

احتجاج میں شامل جے این یو یونین کے ایک لیڈر ستاروپہ نے کہاکہ ’’ نجیب کی ما ں کوگھسیٹ کر ایک پولیس ویان میں بیٹھایا گیا۔’’ انہوں نے مزیدکہاکہ یہ ایک شرمناک بات ہے کہ دہلی پولیس پچھلے 23دنوں سے نجیب کی تلاش میں ناکام ہے جبکہ آج پولیس نے نجیب کی ماں سے بدسلوکی جواپنے بیٹے واپسی کی متلاشی ہے۔

نجیب کی بہن کو بھی حراست میں لیاگیا۔پولیس نے انڈیا گیٹ جانے والے تمام راستوں کو بند کردیا تھا او رپرامن احتجاجیوں کو نیشنل ارکیوائز کے قریب حراست میں لے کر مختلف پولیس اسٹیشنوں کو منتقل کردیا‘‘۔اس واقعہ پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے چیف منسٹر دہلی ارویند کجریوال نے ٹوئٹ کیا جس میں انہوں نے کہاکہ’’انہوں نے نجیب کی ماں کو کو حراست میں لیا؟میں پولیس اسٹیشن ان سے ملاقات کے لئے جارہا ہوں‘‘۔

پولیس نے دفعہ144نافذ کردیاتاکہ طلبہ کے احتجاج کو ناکام کیا جاسکے۔کیچ نیوز سے بات کرتے ہوئے دہلی کے ڈپٹی چیف منسٹر منیش سیسوڈیہ نے طلبہ کے احتجاج کے پیش نظر نافذ کردہ دفعہ 144پر سوال کھڑا کیا ۔’’انہوں نے کہاکہ اس ملک میں کچھ بھی ممکن ہے ۔ ایک ماں کو گرفتار کیاجاسکتاہے۔ طلبہ ک

https://twitter.com/satarupajnu/status/795241178669072385/photo/1

و تحویل میں لیاجاسکتا ہے‘‘۔کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں نے اپنے تاثرا ت میں کہاکہ دہلی پولیس مرکز میں برسراقتدار نریندر مودی کے اشاروں کے بغیر اتنا بڑا اقدام نہیں اٹھاسکتی ہے۔قبل ازایں چیف منسٹر دہلی ارویندکجریوال نے صدر جمہوریہ ہند پرنب مکرجی سے ملاقات کرتے ہوئے انہیں ایک یادواشت بھی پیش کی جس میں انہوں نے نجیب احمد کے لاپتہ ہونے میں اے بی وی پی کے غنڈہ عناصر کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیاگیا۔انہو ں نے اس یادواشت میں دہلی پولیس کی کارکردگی پر بھی شک وشبہ کا اظہار کیا جس نجیب کوتلاش کرنے میں سنجیدگی اختیار نہیں کررہی ہے۔

باوثوق ذرائع سے ملی اطلاعات کے مطابق صدر جمہوریہ ہند نے نجیب کی گمشدگی کے متعلق وزرات داخلہ سے رپورٹ طلب کی ہے۔ کیچ سے بات کرتے ہوئے جامعہ کے طالب خالد حسن نے کہاکہ ’’ ہم پرامن انداز میں احتجاج کررہے تھے کہ اچانک پولیس وہاں پہنچ گئی اور ہمیں دھکیل نا شروع کردی اورتقریباً ستر طلبہ کو ایک بس میں بھر کروہاں سے لے گئے‘‘۔انہوں نے کہابھی پولیس پر بدسلوکی کا الزام عائد کیا
بشکریہ کیچ نیوز