ظفر آغا
مودی حکومت کا ایک اور شاہی فرمان ! حکومت ہند کے تازہ ترین قانون کے مطابق اب ملک کے کسی بھی کونے میں بھینس، بیل، گائے اور حد یہ ہے کہ اونٹ بھی کھلے بازار میں ذبح کرنے کیلئے فروخت نہیں کیا جاسکتا۔ آپ کی سمجھ میں آیا کہ نہیں کہ یہ قانون کیوں لاگو کیا گیا ہے۔ ماہ رمضان چل رہا ہے اور بقرعید قریب ہے، یہ دونوں مہینے ایسے ہیں جن میں مسلم گھرانوں میں گوشت کی کھپت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ ان دنوں افطار پارٹیوں کا رواج ہے، بھلے ہی نریندر مودی نے خود مرکزی حکومت کی جانب سے دی جانے والی افطار پارٹیوں پر پابندی عائد کردی ہو، لیکن نہ صرف مسلمان بلکہ ہر شہر میں سینکڑوں غیر مسلم افراد تک افطار پارٹیوں کا انتظام کرتے ہیں اور ہر افطار پارٹی میں کم از کم خورمہ اور بریانی ضرور ہوتی ہے۔ پھر دوران رمضان ہر مسلم گھر میں گوشت کا استعمال بڑھ جاتا ہے اس لئے رمضان کا چاند نظر آتے ہی مودی حکومت نے سوائے بکری اور بھیڑ کے تقریباً ہر قسم کے ہی جو پایوں کی خرید و فروخت پر پابندی لگادی۔
صرف اتنا ہی نہیں بقرعید میں تقریباً مسلمان قربانی کا فریصہ ضرور ادا کرتے ہیں۔ جو صاحب استطاعت مسلمان ہیں وہ عموماً بکرے کی قربانی کرتے ہیں اور اوسط افراد زیادہ تر بھینس کی قربانی کرتے ہیں۔ بعض افراد آپس میں مل کر اونٹ کی بھی قربانی دیتے ہیں۔ خود بھینس کی قربانی مجموعی ہوتی ہے، یہی سبب ہے کہ حکومت ہند کی تازہ قانونی پابندی میں ذبح کرنے کیلئے اونٹ کی بھی خرید و فروخت کوممنوع قرار دیا گیا ہے۔
یہ حال ہے مودی حکومت کی مسلم دشمنی کا۔ لب لباب یہ ہے کہ مودی حکومت کی مسلمانوں کے تعلق سے پالیسی کا نچوڑ یہ ہے کہ مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیاجائے۔ تب ہی تو اخلاق احمد کو گھر میں گھس کر مارا جاتا ہے تو کبھی پہلو خان کو راستے میں پیٹ پیٹ کر موت کے گھاٹ اُتار ا جاتا ہے تو کبھی لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ اذان پر اعتراض ہوتا ہے۔ اور اب بقرعید میں قربانی روکنے کیلئے زیادہ تر ایسے جانوروں کی خرید و فروخت پر پابندی لگادی گئی ہے جو قربانی کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ ذرا تصور کیجئے کہ جب لوگ قربانی کیلئے بھینس نہیں خرید سکیں گے تو پھر بکرے کس قیمت میں ملیں گے ۔؟ ظاہر ہے کہ اب بقرعیدکے موقع پر بکروں کے دام آسمان سے باتیں کریں گے۔ ان حالات میں بیچارے غریب مسلمان کیسے قربانی کریں گے۔ یعنی اب یہ حکم ہے کہ ہم تمہیں تمہارے مذہبی تہوار بھی آسانی سے منانے نہیں دیں گے۔
راقم مستقل یہ لکھتا رہا ہے کہ مودی حکومت کی مسلمانوں کے تعلق سے پالیسی یہ ہے کہ مسلمانوں کو نفسیاتی طور پر غلام بنادیا جائے، جب کوئی قوم آزادی سے اپنے مذہب کے مطابق چل نہیں سکتی تو پھر اس قوم کو غلام نہیں تو اور کیا کہا جائے گا۔ اگر آپ خاموشی سے اسی طرح حکومت کے تمام حربے برداشت کرتے رہیں تو اگلی نسل کے مسلمانوں کو یہ احساس بھی نہیں ہوگا کہ وہ تمام چیزیں جو غیرقانونی ہوگئیں وہ کبھی قانونی بھی تھیں۔ ظاہر ہے کہ وہ ثقافتی طور پر ہندو ہوجائیں گے اور سنگھ کا یہی ماننا ہے کہ وہ ایک ملک، ایک زبان کلچرل کی بات کرتا ہے۔ اگر یہی حالات رہیں تو ہندوستان ایک گنگا جمنی ملک کے بجائے ہندو راشٹر میں تبدیل ہوجائے گا۔ اس لئے جانوروں کے تعلق سے تازہ ترین جو قانون نافذ ہوا ہے اس کے خلاف عدالت میں فوری لڑائی لڑنی چاہیئے۔ ہر جج راجستھان کے جسٹس شرما جیسا جج نہیں ہوتا۔ اس لئے ہمت مت ہاریئے اور اپنے خلاف ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اُٹھایئے اور اپنی لڑائی قانونی دائرے میں رہ کر عدالت اور سڑکوں پر ہر جگہ لڑیئے۔ لیکن اپنی جدوجہد میں دلتوں اور پسماندہ قوموں کو ساتھ رکھیں کیونکہ وہ بھی آپ ہی کی طرح نشانہ پر ہیں۔ خاموشی غلامی کی علامت ہے، اب اس خاموشی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ آپ دوسرے درجہ کے شہری بنادیئے جائیں گے اور آپ کو احساس بھی نہیں ہوگا۔ یہ سب سے خطرناک بات ہوگی۔