مودی حکومت کا پہلا بجٹ مسلمانوں کی خوشنودی سے اعراض

اطہر معین
سرکار‘ یو پی اے کی رہے یا این ڈی اے کی، اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کا یہ المیہ رہا ہے کہ حکومت میں شامل ان کے نمائندے اپنی برادریوں کے حقوق کے لئے کوشاں رہنے سے زیادہ اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں اور ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ان کے آقاء ان سے کہیں ناراض نہ ہوجائے، اسی لئے وہ اقلیتوں کے حقوق کیلئے کھل کر آواز اٹھانے کی بجائے یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ جو دیا جائے اسے بہ سر و چشم قبول کرلیا جائے۔ یہ عوامی نمائندے حکومت میں اقلیتوں کا نمائندہ بن کر اقلیتوں کے حقوق اور ان کی ترقی و بہبود کیلئے سرگرم رہنے کی بجائے اپنی اپنی برادریوں میں حکومت کی نمائندگی کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔

جہاں تک ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کانگریس اور بی جے پی کا اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کے تئیں اختیار کردہ موقف کا تعلق ہے وہ ایک دوسرے سے بالکلیہ متضاد رہا ہے جبکہ دوسری محروم برادریوں کے تعلق سے ان دو جماعتوں کی پالیسیوں اور پروگراموں میں بہت زیادہ یکسانیت و موافقت پائی جاتی ہے۔ یہ دونوں سیاسی پارٹیاں اگرچہ حقیقت میں مسلمانوں کی ترقی و بہبود کیلئے سنجیدہ نہیں ہیں مگر دونوں میں یہ واضح فرق ہے کہ کانگریس مسلمانوں کے تعلق سے نرم گوشہ اختیار کرتے ہوئے ان کے ووٹ بٹورنے پر ایقان رکھتی ہے جبکہ بی جے پی، مسلمانوں کے تعلق سے سرد مہری بلکہ منافرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہندو ووٹ کو یک قطبی کرتے ہوئے اپنی طاقت بڑھانے کے درپے رہتی ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے حکمتاً ہی سہی اپنی انتخابی مہم کے دوران اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کے تئیں کسی قدر نرم رویہ اختیار کیا تھا۔ وہ چیف منسٹر گجرات کی حیثیت سے تلخ ابرو ہوا کرتے تھے مگر بہ حیثیت وزیر اعظم امیدوار انہوں نے مسلمانوں کو بھی مساوی حقوق و مواقع فراہم کئے جانے کی وکالت کرنے لگے تھے۔ بی جے پی کے منشور میں جہاں ایک طرف یکساں سیول کوڈکا نفاذ، آرٹیکل 370 کی تنسیخ اوربابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر جیسے متنازعہ موضوعات کو شامل کیا گیا تھا وہیں یہ عہد کیا گیا تھا کہ اقتدار میں آنے کی صورت میں ہندستان کی اقلیتوں کے مالامال ثقافت و ورثہ کا تحفظ کرنے کے علاوہ ان کی سماجی و معاشی فروغ کی عہد بند رہے گی۔ عنان حکومت سنبھالنے کے بعد اب تک ان کا کوئی اقدام ایسا نہیں لگا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ کوئی معاندانہ و مخاصمانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں، البتہ اقلیتوں کی ترقی و بہبود کے سرکاری پروگراموں میں یو پی اے اور این ڈی اے سرکاروں کی ترجیحات میں تبدیلی ضرور واقع ہوئی ہے مگر مسلمانوں کو خدشات ابھی ختم نہیں ہوئے ہیں اور وہ اب بھی ایک انجان خوف میں مبتلا ہے کہ مودی کے وزیر اعظم بن جانے کے بعد شدت پسند ہندو تنظیموں اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں میں موجود فرقہ پرست ذہن کے حامل عہدیداروں کو مسلم دشمنی نبھانے کے بھر پور مواقع حاصل ہوں گے۔

بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت کے پیش کردہ موازنہ میں وزیر فینانس ارون جیٹلی نے وزارت امور اقلیتیں کیلئے 3,734.01 کروڑ روپے کی گنجائش فراہم کی ہے جو سابقہ کانگریس کی زیرقیادت یو پی اے حکومت کی جانب سے گذشتہ موازنہ میں 3,530.98 کروڑ روپے کی فراہم کردہ گنجائش سے 5.75 فیصد زائد ہے اس کے باوجود یہ کہا جاسکتا ہے کہ مودی حکومت کے پہلے موازنہ میں مسلمانوں کی خوشنودی کیلئے کچھ نہیں رکھا گیا ہے اگرچہ مدارس کی جدید کاری کے لئے 100 کروڑ روپے کی گنجائش فراہم کی گئی ہے۔ یہ رقم محکمہ ثانوی تعلیم کیلئے فراہم کی گئی ہے۔ وزارت امور اقلیتیں کیلئے مختص کردہ 3734.01 کروڑ روپے سالانہ موازنہ کا تقریباً 70% یعنی 2,577 کروڑ روپے ریاستی حکومتوں، مرکز کے زیر انتظام علاقوں اور شمال مشرقی خطہ کے لئے گرانٹ ان ایڈ کے طور پر رکھا گیا ہے جس کے باعث یہ خدشہ ہے کہ ان رقومات کا سال کے اختتام تک استعمال نہیں ہوگا اور فنڈ کا ایک بڑا حصہ واپس لوٹ جائے گا۔ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ مودی حکومت نے اقلیتوں کے تئیں متبادل ترجیحات کو پیش کیا ہے چونکہ این ڈی اے حکومت نے یو پی اے کی جانب سے سال 2013-14 کیلئے پیش کردہ بجٹ سے انحراف کیا ہے۔ گوکہ موازنہ تخصیص میں زیادہ فرق نہیں ہے مگر یو پی اے اور این ڈی حکومت کی وزارت امور اقلیتیں کیلئے تصرفات کی گنجائش میں واضح تضاد نظر آتا ہے۔

بی جے پی جس نے یکساں سیول کوڈ، آرٹیکل 370 کی تنسیخ اور رام مندر کی تعمیر جیسے موضوعات کو اپنے انتخابی ایجنڈہ میں شامل کرتے ہوئے ملک کے مسلمانوں کو خدشات و تشویش میں مبتلا رکھا ہے، مدارس کی جدید کاری کیلئے 100 کروڑ روپے کی فراہمی نے ملک کے سنجیدہ فکر مسلمانوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مودی حکومت نے مدرسوں کے ذریعہ چلائے جانے والے اسلامی نظام تعلیم کو تباہ کرنے کے اپنے ارادہ کا اعلان کردیا ہے۔ وزارت فروغ انسانی وسائل کے تحت محکمہ اسکولی تعلیم کے ذریعہ 100 کروڑ روپے کی تخصیص دراصل دینی مدارس میں زیر تعلیم طلبۂ کی تباہی کیلئے کام کرے گی جس کا ایک مقصد یہ بھی ہوگا کہ علم دین حاصل کرنے والے طلبۂ کا رخ عصری علوم کی طرف موڑ دیا جائے اور علماء کرام کی ایک ایسی کھیپ تیار کی جائے جو راسخ العقیدہ بننے کی بجائے مفاہمت پسند ہو۔ مدارس کیلئے 100 کروڑ روپے کی گنجائش فراہم کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دینی مدارس کے کچھ نظماء کو حکومت کا ہمنواء بنایا جائے تاکہ ان کے ذریعہ یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی راہیں ہموار کی جائیں اور ایک ایسا گروہ تیار کیا جائے جو ہمہ وقت بی جے پی کی پالیسیوں و پروگراموں کی تائید کرتے ہوئے مسلمانوں کی بی جے پی سے دوری کو ختم کرنے میں اہم رول ادا کرسکیں۔ اس کا ایک فائدہ بی جے پی کو یہ ہوگا کہ ملک کے دیگر ابنائے وطن سے مسلم دشمنی کے طور پر کئے گئے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کا بھی دعویٰ صحیح ثابت کیا جاسکے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ماضی میں بھی بی جے پی نے مذکورہ بالا متنازعہ موضوعات کو اپنے ایجنڈہ میں شامل رکھا تھا مگر واجپائی حکومت ان ایجنڈوں پر عمل کرنے سے قاصر رہی تھی جس کی وجہ سے ہندؤں کا شدت پسند طبقہ ناراض ہوگیا تھا۔ ماضی میں این ڈی اے کو کامل اکثریت حاصل نہیں ہوئی تھی اور حلیف جماعتوں کی عدم تائید کے باعث اس پر عمل نہ کئے جانے کیلئے معذرت خواہی کا جواز تھا مگر اس مرتبہ مودی حکومت کو کامل اکثریت حاصل رہی ہے اس لئے آئندہ ان ایجنڈوں پر عمل نہ کرنے کا کوئی جواز نہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ غیر محسوس طور پر بی جے پی اپنے ایجنڈہ کو روبعمل لانے کا ماحول تیار کررہی ہے۔ اگر واقعی مودی حکومت، مسلمانوں کو مساوی مواقع فراہم کرنا چاہتی ہے اور ان کی حالت میں تبدیلی لانا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ وہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کیلئے مسلم دانشوروں اور مفکرین سے آراء حاصل کرے۔ اگر واقعی یہ حکومت، دینی مدارس میں زیر تعلیم مسلم طلبۂ کے تئیں ہمدرد ہے تو اسے چاہئے کہ ان دینی مدارس سے فارغ ہونے والے اسکالرس کیلئے جدید اسلامی کورسس جیسے اسلامی اقتصادیات، سود سے پاک بینک کاری، سائنسی تحقیقات و ایجادات و طریقۂ کار پر شرعی احکام کی تشریح و تطبیق جیسے کورسس میں معاونت کی جائے تاکہ یہ علماء دور حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوسکیں۔
اقلیتوں کیلئے ہمہ شعبہ جاتی ترقیاتی پروگرام کیلئے گذشتہ برس 841.54 کروڑ روپے کی گنجائش فراہم کی گئی تھی مگر اس مرتبہ اس میں 8 کروڑ روپے کی کمی کرتے ہوئے 1242 کروڑ روپے کی گنجائش فراہم کی گئی ہے تاہم اس اسکیم پر عملدرآمد کی نوعیت میں کسی قدر تبدیلی کی گئی ہے۔ یہ اسکیم مرکز کی جانب سے لاگو کرنے کی بجائے اسے مرکز کی اسپانسر کردہ اسکیم بنادیا گیا ہے جس پر متعلقہ ریاستوں کو عملدرآمد کرنا ہوگا اور پراجکٹ فنڈ میں ریاستوں کا بھی حصہ رکھا گیا ہے۔ اسی طرح ’نیشنل مائنارٹیز ڈیولپمنٹ اینڈ فینانس کارپوریشن کے تحت عوامی صنعتوں میں سرمایہ کاری کو ترجیح دی گئی اور تخصیص میں گذشتہ برس کے مقابل تقریباً تین گنا اضافہ کردیا گیا ہے، البتہ شمال مشرقی خطہ و سکم کے فائدہ کیلئے پراجکٹ؍اسکیمس کیلئے یکمشت فراہمی کے زمرہ کے تحت شمال مشرقی علاقوں کیلئے تخصیص کو گھٹا دیا گیا ہے اور یو پی اے حکومت کی گذشتہ برس کی تخصیص 303.03 کروڑ روپے کو گھٹاکر 230.5 کروڑ روپے کردیا گیا۔ ترجیحات میں فرق کا اشارہ اس بات سے واضح طور پر مل جاتا ہے کہ مولانا آزاد ایجوکیش فاؤنڈیشن کیلئے موازنہ گنجائش میں 30% اور مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ فار مائنارٹیز اسٹوڈنٹس کی تخصیص میں 10% کمی کی گئی اگرچہ مولانا آزاد میڈیکل ایڈ اسکیم روشناس کرواتے ہوئے 1.8 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اسکیم فار لیڈر شپ ڈیولپمنٹ آف مائناریٹی ویمن کے حصہ کو 13.24 کروڑ روپے سے گھٹاکر 12.5 کروڑ روپے رکھا گیا ہے البتہ استفادہ کنندگان کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ کے پیش نظر انڈر گریجویٹ اینڈ پوسٹ گریجویٹ پروفیشنل اینڈ ٹیکنیکل کورسس سطح پر میرٹ کم مین اسکالرشپس اور پری اینڈ پوسٹ میٹرک اسکالرشپس کیلئے موازنہ گنجائش کو ویسے ہی برقرار رکھا گیا ہے جبکہ وقف کیلئے گرانٹ ان ایڈ میں 20% اور نیشنل کمیشن فار مائنارٹیز کی گرانٹ میں 30% اضافہ کیا گیا ہے۔

وزیر خزانہ کی موازنہ تقریر میں اقلیتوں کیلئے زیادہ کچھ نہیں کہا گیا ہے اور صرف دو چھوٹے سے پیراگراف رکھے گئے ہیں جس میں کہا گیا ’’ روایتی فنون و دستکاری کے تحفظ کیلئے جو عظیم ورثہ کے حامل ہیں اقلیتوں کیلئے آبائی مہارتوں اور تربیت کے وسائل کو فروغ دینے ایک پروگرام بنام ’’فنون میں روایتی مہارت کا فروغ، وسائل و اشیاء‘ شروع کیا جائے گا۔‘‘ دوسرے پیراگراف میں کہا گیا کہ محکمہ اسکولی تعلیم کو مدرسوں کی جدید کاری کیلئے 100 کروڑ روپے کی اضافی رقم فراہم کی جائے گی۔ وزیر خزانہ نے آبائی فنون کے تحفظ کی نئی اسکیم کیلئے فنڈ کی تخصیص کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔ مدرسوں کی جدید کاری کیلئے بھی فنڈس وزارت امور اقلیتیں کی بجائے وزارت فروغ انسانی وسائل کے محکمہ اسکولی تعلیم کو فراہم کی جارہی ہے۔ اس اسکیم کا مسلمانوں کے ایک گوشہ کی جانب سے مخالفت کے بناء بریں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس اسکیم پر مؤثر عمل آوری کے امکانات موہوم ہیں۔

وزیر امور اقلیتیں نجمہ ہبت اللہ جنہوں نے بی جے پی میں شمولیت کے بعد سے ہی ایسے اشارے دینا شروع کردئیے تھے کہ وہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود سے زیادہ اپنے مفادات کو ملحوظ رکھنا چاہتی ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کچھ ایسے بیانات بھی دئیے جس کی وجہ سے وہ مسلم برادری میں اپنا وقار کھودیں مگر بی جے پی قیادت کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہوگئی چونکہ بی جے پی قیادت کو ایسے ہی مسلم رہنماؤں کی ضرورت ہے جو مسلمانوں کے حقوق پر آواز اٹھانے کی بجائے قیادت کی پالیسیوں اور پروگراموں کی وکالت کرے۔ ایسے رہنماؤں سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ مسلمانان ہند کی حقیقی فلاح و بہبود کے لئے سنجیدہ اقدامات کریں گے چونکہ ایسے لوگوں کو یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ ان کے کسی فعل وعمل بلکہ کسی کلام سے بھی اپنے آقاء ناراض نہ ہوجائیں۔