ڈاکٹر عبدالخلیل کشش
آزاد ہندوستان آج ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے ، جہاں فرقہ پرست عناصر اپنے تمام خطرناک منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں ۔ مذہبی عصبیت کا ننگا مظاہرہ قدم قدم پر ہورہا ہے ۔ ایسی صورتحال میں اردو کے شاعروں ، ادیبوں ، دانشوروں اور صحافیوں کا کیا رول ہونا چاہئے ۔ شاید اس کی وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں ۔ اس لئے بھی کہ اردو کے فنکار اور دانشور ایسے چیلنج قبول کرتے رہے ہیں ۔ ان کا ذہن تعصب اور تنگ نظری کا نہ کل اسیر تھا نہ آج ہے ۔
اس کا سبب یہ ہے کہ اردو کے شاعروں ، ادیبوں ، دانشوروں اور صحافیوں کی ایک مثبت تاریخ ہے ۔ یہ تاریخ منفی عناصر سے برسرپیکار ہونے کی کہانی بھی ہے ۔ سبھی جانتے ہیں کہ امیر خسرو نے ہندو مسلم اتحاد اور مشترکہ کلچر کا جو بیج بویا تھا وہ تناور درخت کی شکل میں ہمارے سامنے ہے ۔ ہماری نگاہ میں قدیم اردو ادب کا وہ سرمایہ ہے جو دکنی ادب کے نام سے معروف ہے ۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ فخردین نظامی سے لے کر سراج تک قومی یکجہتی ،مشترکہ ثقافت اور روشن خیالی مسلسل پروان چڑھتی رہی ہے ۔ شمالی ہند کے شعراء و ادباء اس عمل میں یکسر پیچھے نہیں رہے ۔ فضل علی فضلی کی ’’کربل کتھا‘‘ ہی ایک مثال نہیں میرؔ ، سوداؔ اور میر اثر بھی اس روایت کا ایک حصہ ہیں ۔ مثالیں دینے کی ضرورت نہیں ۔ ان کی مثنویاں یہاں تک کہ ان کی غزلوں کے بھی کتنے اشعار متحدہ ثقافت کا واضح نصب العین پیش کرتے ہیں ۔ اس ضمن میں صوفیائے کرام کی خدمات فراموش نہیں کی جاسکتیں ۔پروفیسر محمد حسن نے بالکل ٹھیک لکھا ہے کہ اردو زبان و ادب نے فکری بنیاد بھکتی تحریک اور اسلامی تصوف کے ان مشترکہ اقدار پر رکھی ہے ، جو اس ہدفی مرکزیت اور بین علاقائی وحدت کے تقاضوں سے ہم آہنگ تھی ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اردو ادب میں عملاً صوفی ادیب بہت زیادہ نہیں رہے۔ اور انھوں نے بھی تصوف کی باتیں نظریاتی تفاصیل کے ساتھ بیان نہیں کیں ۔ اس کے مقابلے میں تصوف کے ایسے عمومی تصورات کو بھی شاعروں نے نظم کیا جو بھکتی تحریک اور اسلامی تصوف کے درمیان مشترکہ تھے ۔ تصوف کے صرف وہی تصورات عام ہوئے جو عمومی تھے اور جنھیں مروجہ تصور اخلاق سے ہم آہنگ کیا جاسکتا تھا ۔ یہی تصورات اردو ادب کی فکری بنیادیں فراہم کرتے ہیں ۔
مذہبی رواداری ، وسعت قلبی اور انسان دوستی کی جو فکری بنیادیں تصوف کی راہ سے استوار ہوئی تھیں ان کا سلسلہ جاری رہا ۔ ترقی پسند تحریک نے اسی روایت کو مضبوط تر کیا اور اسی کے بعد نئی نسل بھی اپنی تخلیقات میں اس کی توسیع کررہی ہے ۔ دراصل اس جذبے کے استحکام میں ہمارے ان رہنماؤں نے بھی خاص مدد کی ہے ، جو ادیب بھی تھے اور صحافی بھی ۔ جس کی مثال مولانا ابوالکلام آزاد ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی بعض توجہ طلب باتوں کو یہاں دہرایا جائے ۔ مولانا نے کہا تھا میں مسلمانوں سے خاص طور پر دو باتیں کہوں گا، ایک یہ کہ اپنے ہندو بھائیوں کے ساتھ پوری طرح متفق رہیں ۔ ان میں سے ایک بھائی یا کسی ایک جماعت سے کوئی بات نادانی کی ہوجائے تو اسے بخش دیں ۔
تمام مشترکہ سرمایہ ہماری متحدہ قومیت کی ایک دولت ہے اور ہم اسے چھوڑ کر اس زمانے کی طرف لوٹنا نہیں چاہتے ، جب ہماری ملی جلی زندگی شروع نہیں ہوئی تھی ۔
جہاں تک اس اجتماع کا تعلق ہے آپ دو ٹوک فیصلہ کرلیں کہ آئندہ کوئی مسلم انجمن کوئی مسلم نظام سیاسی میدان میں فرقہ واری بنیاد پر قائم نہ کریں گے ۔ کسی مجلس کے مقصد پر فرقہ واریت کا سایہ بھی نہیں پڑنا چاہئے۔
مولانا آزاد کے سیاسی اور ثقافتی افکار کے یہ سیاسی پہلو الہلال ، البلاغ اور لسان الصدق کی اشاعتوں میں شرح و بسیط کے ساتھ موجود ہیں ۔ ہم آج بھی ان سے روشنی حاصل کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے ۔ اردو کے فنکار اپنے مذہب اور کارکردگی کو خوب سمجھتے ہیں وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ صلح و آشتی کا پیغام کس طرح دیا جاتا ہے ۔ کیسے منفی عناصر کا سدباب کرنا ہے ۔ تشدد ، جارحیت اور دہشت گردی کا قلعہ قمع کرنے کی کیا صورت ہے ۔ تقسیم ہند کے وقت اردو کے ادیبوں اور شاعروں نے بربریت کے خلاف محاذ آرائی کی تھی ۔ اس سے پہلے جنگ آزادی میں اپنے قلم کی طاقت سے وہ سب کچھ کیا تھا جس کا مقصد ثقافتی تھا ۔ آج کی دہشت گردی کو وہ محض تماشائی کی طرح نہیں دیکھ سکتا ۔ اردو کا مزاج وہی بنیادی طور پر سیکولر ہے ، مشترکہ کلچر کا علمبردار ہے ۔ لہذا اس سے وابستہ ادیب ، شاعر ، دانشور ، صحافی سبھوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ توڑ پھوڑ کرنے والوں کی نہ صرف نشاندہی کریں بلکہ تمام جارحانہ اور تشدد پسندانہ رویہ کی مذمت کریں ۔ تشدد اور دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے مندرجہ ذیل صورتیں کارگر ثابت ہوسکتی ہیں ۔
۱ ۔ شعراء اور ادباء اپنی تخلیقات ، مذہب ، علاقہ اور زبان کی آڑ میں علحدگی اور انتشار کے تصورات کے خلاف اتحاد ، متحدہ قومیت اور مخلوط ثقافت کے پہلوؤں کو سمیٹنے کی فنکارانہ مہم میں لگ جائیں ۔ یہ وہ امور ہیں جن سے اردو کے سیکولر مزاج کی روایت میں مزید استحکام آتا ہے اور اس کی انسان دوستی کے اٹوٹ سلسلے میں قوت پیدا ہوتی ہے ۔
۲ ۔ اردو کے مفکرین اور دانشور دہشت گردی کے خلاف تازہ دم ہو کر صف آراء ہوں اور وہ اپنی مفکرانہ اور دانشورانہ نگارشات میں بھکتی تحریک اور صوفیائے کرام کی ان مشترکہ مساعی پر زور دیں ، جن سے اخلاق ، محبت ، یگانگت ، رواداری ، امن دوستی اور اتحاد کا سبق ملتا ہے ۔