ملک کے 3 فریق عوام ، اپوزیشن اور بی جے پی

غضنفر علی خان
اس وقت ہمارے ملک میں 3 فریقین کے درمیان بڑی کشمکش جاری ہے۔ ایک طرف بیچارے عوام ہے تو دوسری طرف بی جے پی کی حکومت ہے ۔ تیسری جانب ملک کی اپوزیشن جماعتیں ہیں۔ پہلے دو فریق کے مقاصد تو سمجھ میں آتے ہیں کہ بی جے پی اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے جدوجہد کر رہی ہے تو دوسری طرف اپوزیشن بی جے پی کو اقتدار سے ہٹانے اور خود فائز ہونے کی کوشش کررہی ہے ۔ ان دونوں کے درمیان بے بس عوام ہیں جن کی زندگی دشوار سے دشوار تر ہوتی جارہی ہے ۔ سب سے زیادہ مشکل ہم عوام کے حصہ میں آتی ہے۔ کرنسی کی منسوخی نے اہل ثروت سے لیکر عام شہریوں کی زندگی تلخ کردی ہے ۔ اپوزیشن ایک ایسی دیوار کے مانند ہے جس کی ہر اینٹ اپنا علحدہ وجود رکھتی ہے۔ کہنے کو تو اپوزیشن مضبوط دکھائی دیتی ہے لیکن درحقیقت یہ ایک بوسیدہ دیوار ہوتی جارہی ہے ۔ تمام اپوزیشن جماعتیں موجودہ حکومت کو اقتدار سے بیدخل کرنے کیلئے کوشاں ہیں تو بی جے پی ہزار ہائے بہانے بناکر اپنے اقتدار کو بچانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے ۔ ان دونوں کے درمیان جاری سرد جنگ عوام کیلئے سوہان روح بن گئی ہے ۔ حکومت اور خاص طور پر وزیراعظم مودی نے اپنے ایک فیصلے سے جو بنا سوچے سمجھے کہا گیا اور جس کے عواقب و نتائج کو پیش نظر نہیں رکھا تھا ۔ سارے ملک کے عوام پر مصائب کا پہاڑ توڑدیا ہے ۔ ا پوزیشن جماعتیں موقع غنیمت سمجھ کر اس دہکتی آگ سے اپنے ہاتھ سینک رہی ہے۔ ایک ایسی صورتحال ہے کہ بیچارے عوام نہ حکومت سے کوئی امید کرسکتے ہیں کہ وہ ان کے آلام کا کوئی مداوا کرے گی اور نہ اپوزیشن سے توقع کرسکتی ہے کہ وہ عوام کو اس بے حد دشوار صورتحال سے نجات دلائے گی۔

حکومت اپنے اقتدار کو بچانے اور اپوزیشن اقتدار کے حصول کے لئے ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کر رہے ہیں۔ ایسا پہلی بار ہورہا ہے کہ ملک کے عوام کی کسی کو کوئی پروا نہیں ہیں ۔ عجیب نوعیت کی جمہوریت چل رہی ہے جس میں عوام ہی کو نظر انداز نہیں بلکہ مکمل طور پر فراموش کردیا گیا ۔ بی جے پی یا وزیراعظم چاہے جتنی تسلیاں دیں انہیں (عوام کو) یقین نہیں آرہا ہے کہ جلد ان کی مشکلات ختم ہوں گی ، وہ بڑی تیزی سے ناامید ہوتے جارہے ہیں کہ اب ملک میں ہم سے سچی ہمدردی رکھنے والی کوئی سیاسی پارٹی نہیں رہی۔ سیاسی جماعتوں کو اس بات کا کوئی اندازہ نہیں ہے کہ ’’کب اور کہاں عوام کا غیض و غضب کسی آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑے گا کیونکہ آتش فشاں پھٹنا تو ایک ہی وقت ہے لیکن زیر زمین اس کا لاوا ابلتا رہتا ہے اور اچانک سطح زمین سے باہر آکر ہر اقتدار کو جلاکر خاکستر کردیتا ہے ۔اس تلخ حقیقت سے ملک کی سیاسی پارٹیاں یا تو واقف نہیں ہیں یا پھر وہ (تمام سیاسی پارٹیاں) جان بوجھ کر عوام کے صبر و تحمل کا امتحان لے رہی ہیں۔ بڑی کرنسی کی اچانک منسوخی کے فیصلہ نے تباہی مچا رکھی ہے جس کا بی جے پی حکومت کو اندازہ نہیں تھا۔ اس قول سے تو سب ہی واقف ہیں کہ ’’قانون کی حکمرانی ایک طلسم ہے‘‘ Rule of law is a might اپوزیشن نے خود پہل کیوں نہیں کی وہ بی جے پی سے تو پارٹی فنڈ اور اس کے لیڈروں کو پہلے ہی سے باخبر کرنے کا الزام لگارہے ہیں تو اپوزیشن اگر اس سلسلہ میں دیانت دار ہے تو اس نے پہل کر کے اپنے پارٹی فنڈس کی تفصیل رضاکارانہ طور پر کیوں پیش نہیں کی۔ پارٹیاں سبھی اپنے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں۔ عوام کی فلاح اور ان کی سہولت کا کسی کو کوئی خیال نہیں ہے۔ پارٹی فنڈ میں چھپا ہوا کالا دھن کب سامنے آئے گا۔ مودی جی کہتے ہیں کہ ’’کالادھن کی صورت میں جو رقم وصول ہوگی بظاہر لاکھوں کروڑ میں ہوگی) اس کو غریب عوام کیلئے استعمال کیا جائے گا تو کالے دھن کی وہ رقم جو سیاسی پا رٹیوں اور سیاست دونوں نے چھپا رکھی ہے ، اس کو نکالنے کیلئے حکومت کوئی سخت قدم کیوں نہیں اٹھا رہی ہے۔ بی جے پی بھی شیشے کے مکان میں رہ کر دوسری پارٹیوں پر پتھر پھینکنے سے ڈر رہی ہے کہ کہیں پانسہ پلٹ نہ جائے ۔

یہ بھی نہیں کہ صرف بی جے پی کے پاس ہی لاکھوں کروڑوں کا فنڈ ہے ۔ سبھی پارٹیوں نے عوام کو لوٹ کر دھن دولت کمائی ہے۔ اس حمام میں سب ہی ہیں بے لباس  اس لئے اس جانب کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے کہ کالے دھن کا وہ حصہ (جو قابل لحاظ ہوسکتا ہے) باہر نکالا جائے جو سیاست دونوں اور سیاسی پارٹیوں کے پاس برسوں سے موجود ہے ۔ایسا کرنے سے سب ہی کا بھانڈا پھوٹ جائے گا ۔ کیوں اپنی اپنی پارٹی فنڈ کا ذ کر کیا جا ئے ، سیاسی پارٹیاں اس بات پر ایک طرح سے متفق ہیں کہ پار ٹی فنڈ کا کہیں کوئی تذکرہ نہ آئے کیونکہ کرنسی کی منسوخی کا سارا بوجھ تو عوام اٹھا رہے ہیں۔ ہم سیاست داں اور ہماری پارٹیاں کیوں اپنی عیش و عشرت کی زندگی خواہ مخواہ اجیرن کریں۔ رہا مصیبت اور تکالیف کا مسئلہ تو بیچارے عوام جھیل لیں گے۔ کرنسی کی منسوخی کے مسئلہ کے اس اہم پہلو کو تمام اپوزیشن جماعتوں اور حکومت نے اس لئے چھپا رکھا ہے کہ اپنی اپنی جان محفوظ رہے ، بھلے ملک کے عوام کو کتنی ہی مصیبتیں اٹھانے پڑے ‘‘۔ عوام جائیںچولہے بھاڑ میں۔ یہی نظریہ کا فرق دکھائی دیتا ہے۔ کرنسی کی منسوخی کے اعلان کے 22 دن بعد یہ خبر آئی کہ ملک کے سرکاری پرنٹنگ پریس (خاص طور پر Mints ) اپنی پوری صلاحیت اور طاقت کے ساتھ 500 روپئے کے نئے نوٹ چھاپ رہی ہے جو اس بات کا اقرار ہے کہ منسوخی کے اعلان کے وقت 500 روپئے کرنسی نہ تو ریزرو بینک میں تھی اور نہ حکومت کے خزانے میں تھی تو پھر کیا سمجھ کر مرکزی حکومت خاص طور پر مودی جی نے اس کرنسی کو منسوخ کیا تھا ۔ انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ اس قسم کی کرنسی کی جگہ 2000 روپئے کے نوٹ کی اجرائی کس قدر عافیت اندیش فیصلہ تھا ۔ اس سے چھوٹی کرنسی کی شدید قلت پیدا ہوگئی ۔ بینکوں اور اے ٹی ایم میں بڑی یا چھوٹی کرنسی آج تک بھی پوری طرح سے عوامی ضروریات پورا کرنے کیلئے تیار نہیں ہے کیونکہ یہاں کرنسی ہی نہیں ہے ۔ حکومت کی جانب سے یہ کہا جارہا ہے کہ عوام صرف پچاس دن تحمل سے کام لیں۔ یہ بھی بے شرمی کے ساتھ بار بار کہا جارہا ہے کہ بہت جلد ان کی  (عوام) کی دشواریاں ختم ہوجائیں گی۔ رتی برابر حکومت کو یہ احساس نہیں ہے کہ 50 دن کی زندگی ایسی صورت میں کتنی دشوار ہوجائے گی ۔ لوگوں کی ضروریات زندگی تو ہر روز خریدنے پڑتے ہیں۔ 50 دن انسان کیسے زندہ رہ سکتا ہے جبکہ اس کی بنیادی ضروریات ہی تکمیل نہ ہوں۔

یہ سارا بوجھ عوام ہی کیوں اٹھائیں۔ 8 نومبر کو منسوخی کے اعلان کے ساتھ ہی تمام سیاسی پارٹیوں بشمول بی جے پی سے کیوں نہیں کہا گیا کہ وہ اپنی پار ٹی کے پاس کتنی دولت ہے اور اسمیں کتنا کالا دھن شامل ہے بتائیں۔ کالا دھن کا بڑا حصہ سیاسی پارٹیوں کے پاس ان کو ملنے والے فنڈ میں شامل ہے ۔ بی جے پی خود بہت بڑا حصہ رکھتی ہے ۔ دراصل کالا دھن چھپانے کا یہ ایک بے حد محفوظ طریقہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کو کسی پارٹی کے فنڈ میں بطور عطیہ دے دیا جائے۔کوئی پارٹی اس بات سے انکارنہیں کرسکتی کہ اس کے پاس فنڈ نہیں ہے اور یہ بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اس فنڈ میں کالا دھن بھی رکھا گیا ہے۔ کیوں سیاسی پارٹیوں سے اس بات کا تقاضہ حکومت نے نہیں کیا کہ وہ اپنے فنڈ کی ساری تفصیل فوراً پیش کرے ؟ کیوں منسوخی کے اعلان کے 21 یا 22 دن کے بعد وزیراعظم نے بی جے پی پارلیمانی پارٹی کو مخاطب کرتے ہوئے پارٹی کے ارکان اسمبلی اور ارکان پارلیمنٹ سے کہا کہ وہ 8 نومبر یا 31 ڈسمبر کے دوران بینک سے کی گئی اپنی اپنی Transactions کی تفصیل پارٹی کے صدر امیت شاہ کے حوالے کریں۔ وزیراعظم دراصل اپوزیشن کے دباؤ میں تھے جس نے ہمیشہ یہی کہا ہے کہ 8 نومبر کو منسوخی کے اعلان سے قبل یہ خبر بی جے پی کے پارٹی ورکرس اور ایم ایل ایز اور ارکان پارلیمان کو مل چکی تھی کہ بڑی کرنسی منسوخ ہونے والی ہے ۔ اگر کسی سیاست داں نے اس خبر کے قبل از وقت ملنے کے بعد 8 نومبر 2016 ء سے پہلے ہی  غیر قانونی طور پر بینک سے معاملت کرلی ہو تو وزیراعظم ان کے خلاف کیا قدم اٹھاسکتے ہیں۔