اتوار کے روزفرانس نے فیفا ورلڈ کی ٹرافی گھر لانے میں کامیاب رہی ۔ بیس سال بعد فرانس نے یہ کامیابی کروشیا کو 4-2سے ہرا کر حاصل کی ہے۔
جہاں پر فٹبال کے مداح فرانس کی کامیابی کا جشن زور شو ر سے منارہے ہیں وہیں سوشیل میڈیا پر اس جیت کے متعلق کچھ الگ رائے ہے۔فرانس میں جاری اسلامو فوبیا اور دوہرا معیار موضوعات بحث ہے کیونکہ فرانس کی ٹیم میں سات مسلمان کھلاڑی ہیں جنہوں نے آخر ی مقابلے کے دوران بہترین کھیل کامظاہرہ کیا۔
سوشیل میڈیا کا استعمال کرنے والے ایک ٹوئٹر صارف نے لکھاکہ یوروپ کے کئی ممالک میں’’ مسلمانوں کی ستائش اسی وقت کی جائے گی جب سیر وتفریح اور قومی مفادات کے لئے کام کرتے ہیں۔
مگر جب کوئی ایک مسلمان جرم کرتا ہے توتمام1.8ملین اسلام کے ماننے والوں پر اس کا الزام عائد کردیاجاتا ہے ‘ انہیں ذلیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ٹورنمنٹ کے دوران فرانس کے مسلمان فٹبال کھلاڑی پاؤل پوگباجس کو 2014کے ورلڈکپ کے دوران سب سے کم عمر کھلاڑی کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیاتھا نے ٹورٹمنٹ کے دوران گول کرنے پر سجدہ شکر ادا کیا۔
دوسرے فٹبال کھلاڑی دیبریل سیڈیبی کے ہمراہ سجدہ شکر ادا کرتے ہوئے دونوں کی تصوئیرسوشیل میڈیا پر تیزی کے ساتھ وائیرل ہوئی۔ فرانس کی ٹیم میں موجود دیگر فٹبال کھلاڑیوں میں عادل رامی‘ بنجامن مینڈی‘ این گولو کانٹے‘ نابیل فیکر‘ اور عثمان ڈامبلے شامل ہیں۔
دوسرے جنگ عظیم کے بعد دنیا کی سب سے بڑے رفیو جی بحران ‘ مذکورہ ائی ایس ائی ایس کی موجودگی کی وجہہ سے عرب اورمسلمانوں پر مغربی سیاست دانوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
یوروپی کی دائیں بازو لیڈرس اپنے اسلاموفوبیا کے موقع پر کو کئی طرح سے درست قراردینے کی کوشش کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ فراس کے مارائن لی پین جوں فرانس کے صدر کی دوڑ میں2017میں دوسرے نمبر پر تھے‘ ان پر 2015میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر کی وجہہ سے مقدمہ چلایاگیاتھا۔ لی پین نے 2010میں مسلمانو ں کا تقابل نازی قابضین سے کیاتھا۔تاہم عدالت نے انہیں تمام الزامات سے بری بھی کردیا۔
وہ فرانس میں حجاب او رنقاب کی شدیدمخالفت کرنے والوں میں شمار کی جاتی ہیں‘ اسی طرح حلال گوشت پر امتناع اور کام کی جگہ پر نماز گاہ کو بھی انہوں نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
فرانس کے دورے پر لبنان کے مفتی اعظم سے ملاقات کے دوران 2017میں ہیڈ اسکارف کے استعمال کرنے سے انکار کے بعد سرخیو ں وہ سرخیوں میں ائی تھیں۔ سال2011اور2015میں لی پین ملک کی سو طاقتور لوگوں میں شمار کی جانے لگی تھیں۔
فرانس کی سیاست دوسروں کے برخلاف ملک کے صدر امانیول مارکون نے کبھی بھی مسلم لباس بشمول حجاب او ربرقعہ کی مخالفت نہیں کی۔صدر بنانے سے قبل مارکون نے کہاکہ فرانس نے غیرمنصفانہ طور پر مسلمانوں کو نشانہ بناکر بڑی غلطی کی ہے‘ اور مشورہ بھی دیا کہ ملک میں سکیولرزم کو کارگرد بنانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے 2016میں ایک ریالی کے دوران کہاتھا کہ ’’ آج کے وقت میں کوئی بھی مذہب فرانس کے لئے مسلئے نہیں ہے۔
اگر ملک غیرجانبدار ہوجائے جس سکیولرزم کاقلب ہے ‘ تو ہم پر یہ ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ ہر کسی کو اس کے مذہب پر ایمانداری کے ساتھ عمل کرنے کاموقع فراہم کریں‘‘۔ اب بھی حالیہ سالوں میں اسلاموفوبیا فرانس میں کئی مسلمانوں پر ایک ہتھیار کی طرح متعدد مرتبہ استعمال ہوا ہے۔
سال2016میں فرنچ ریویرا مئیرس نے کئی شہروں بشمول کناس‘ فریجوس‘ ویلاینویو لوبیٹ اور روکوبرینا کیپ مارٹن میں برقعہ پر پابندی عائد کردی تھی۔
بعدازاں ملک کی بڑی عدالت نے یہ کہتے ہوئے کہ’’ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی‘‘ ہے امتناع کو برخواست کردیاتھا۔ اسی وقت کے دوران فرانس پولیس کے چار مصلح جوان نیس کے ایک بیچ پر ایک عورت سے رجوع ہوئے کپڑے کے ایک معمولی تکڑے کوہٹانے پر مجبور کیا۔
عدالت کی ہدایت کے بعد یہ واحد واقعہ نہیں تھا۔
ساوتھ فرانس کے ساحلی شہر مارسیلی کی ایک خانگی رہائش میں2017کے دوران ایک مسلم عورت نے برقعہ پہن کر تیراکی کی ‘ پھر اس کے بعد پول کی صفائی کے لئے پیسہ ادا کرنے کو اس سے کہاگیا۔
اسی سال ایک عرب عورت کو فرانس کی شہریت دینے سے محض اس لئے انکار کردیاگیا ہے کیونکہ اس نے ایک تقریب کے دوران سینئر عہدیدار سے ہاتھ ملانے سے انکارکیاتھا
You must be logged in to post a comment.