ظفر آغا
گو یہ خبر مستند نہیں ہے لیکن خبر تو خبر ہی ہوتی ہے اور خبر یہ ہے کہ تاریخ اسلامیہ کی تازہ ترین خلافت کے خلیفہ ابوبکر البغدادی کا انتقال ہوگیا ۔ امریکہ اور عراقی سرکاری ذرائع نے ابھی تک اس خبر کی تصدیق نہیں کی ہے ۔ لیکن ایرانی خبررساں ایجنسی نے پچھلے ہفتے یہ خبر دی تھی کہ امریکی ڈرون حملوں میں بری طرح زخمی ہونے کے بعد ابوبکر البغدادی کا شام کے ایک اسپتال میں انتقال ہوگیا ۔ ابوبکر حیات ہوں یا مارے گئے ہوں اس بات سے قطع نظر ایک بات اب مستحکم ہوچکی ہے کہ ان کی قائم کردہ ’’اسلامی ریاست فی العراق و الشام‘‘ اب کمزور ہونی شروع ہوچکی ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ ابوبکر البغدادی کے جہادیوں کو چہار سو حملوں کا سامنا ہے ۔ امریکی جہاز اور ڈرون برابر عراق اور شام دونوں جگہوں پر ابوبکر کے جہادی ٹھکانوں پر بمباری کررہے ہیں ۔ پھر عراق کی فوج اور شیعہ ملیشیا ایران کی مدد سے اب ابوبکر کے ساتھیوں کے خلاف ہمت سے لڑرہی ہے ۔ اسی طرح سعودی عرب اور اس کے عرب حلیف ممالک بھی ہر سطح پر البغدادی کے خلاف سرگرم ہیں ۔ گو عراق کے شہر موصل پر ابھی بھی البغدادی کا قبضہ ہے ۔ لیکن اس کے اردگرد کے کئی علاقے اب واپس عراقی حکومت کے قبضے میں جاچکے ہیں ۔ الغرض اب یہ طے ہوچکا ہے کہ ابوبکر البغدادی کے خلاف مغرب اور اسلامی دنیا یعنی دونوں ہی متحدہ طور پر صف آرا ہوچکے ہیں بلکہ یہ تمام قوتین اب طے کرچکی ہیں کہ خواہ کچھ بھی ہو اب بغدادی کے جہاد اور اس کی اسلامی ریاست کو ختم کرکے ہی دم لیا جائے گا ۔
سوال یہ ہے کہ کیا ابوبکر البغدادی کی موت اور عراق و شام میں اسلامی ریاست کے خاتمے سے جہادی ذہنیت و فکر اور دہشت گرد سیاست کی کمر ٹوٹ جائے گی ؟ اگر یہ ممکن ہوتا تو اسامہ بن لادن کی موت اور عراق و افغانستان کے امریکی حملوں کے بعد القاعدہ اور جہادی سیاست ختم ہوگئی ہوتی لیکن ہوا کیا ؟ وہ القاعدہ جو اسامہ کی زندگی میں افغانستان اور چند اور جگہوں تک محدود تھا اسی القاعدہ کی جڑیں تقریباً سارے عالم اسلام اور اس کے ساتھ ساتھ مغرب تک پھیل گئی ۔ اسی طرح دنیا بھر سے مسلم نوجوانوں نے القاعدہ میں شرکت شروع کردی ۔ خود ابوبکر البغدادی بھی امریکہ کے عراق میں حملے کے بعد عراق میں قائم ہونے والی القاعدہ کے ہی سرگرم رکن تھے ۔ پھر آہستہ آہستہ ابوبکر البغدادی نے اپنی تنظیم قائم کی ۔ جس نے آگے چل کر ایک ’’اسلامی خلافت‘‘ کے قیام کا اعلان کردیا۔ لب لباب یہ ہے کہ نظریات کی بنا پر قائم کی جانے والی کسی بھی تنظیم کو چند افراد کے مارنے یا اس کے فوجی ٹھکانوں پر قبضہ کرلینے سے کچلا نہیں جاسکتا ۔
وہ القاعدہ ہو یا پھر ابوبکر البغدادی کی اسلامی ریاست ۔ یہ تمام نظریاتی تنظیمیں ہیں ، انکی بنیاد جہاد کے نظریہ پر ہے ۔ گو ان کے جہاد کا رسولؐ اور قرآن کے جہادی نظریہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ لیکن انکے جہاد کا اپنا ایک نظریہ ہے ۔ اس نظریہ کا بنیادی اصول مغرب سے بدلا لینا ہے جس کا ایجنڈا مغرب سے نفرت اور اس کو ایذا پہونچانا ہے ۔ ان جہادیوں کو نفسیاتی سطح پر غالباً اس بات کا احساس ہے کہ وہ اس جنگ میں جیت نہیں سکتے ہیں اسی لئے وہ اپنے کارکنوں کو جہاد کے نام پر موت کے لئے تیار کرتے ہیں اور ان کا مقصد مغرب سے بدلا لینا ہے جس کے لئے وہ دہشت کی حکمت عملی استعمال کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بدلا وہی لیتا ہے جس کو کسی نے نقصان پہنچایا ہے اور تاریخی پس منظر میں اس بات سے انکار نہیں کیاجاسکتا ہے کہ عالم اسلام کو 19 ویں صدی سے اب تک مغرب کے ہاتھوں جس قدر نقصان پہنچا ویسا نقصان ابھی تک دنیا کی کسی اور قوم کو نہیں اٹھانا پڑا ہے ۔ ایک دور تھا کہ مسلمان عالمی طاقت تھے ۔ وہ اموی دور رہا ہو یا عباسی یا پھر ترکی یا پھر مغلوں کی شاہی ، پورے قرون وسطی دور میں مسلمان دنیا بھر میں چھائے ہوئے تھے ۔ مسلم شاہوں کے آگے یوروپ کی کوئی حیثیت نہیں تھی ۔ وہ تو صنعتی انقلاب نے یوروپ کی کایا پلٹ دی ۔ یوروپ نے صنعتی معیشت پر مبنی جو تہذیب قائم کی اس نے نہ صرف مغرب کو گلوبل پاور بنادیا بلکہ یوروپی تہذیب کے عروج سے مسلم تہذیب اور مسلم شاہی نظام کو جوگہن لگا اس سے وہ اب تک باہر نہیں آئے چنانچہ 19 ویں صدی میں ہندوستان میں مغلوں کے زوال کے بعد سے لگاتار اب تک مسلم تہذیب زوال کا شکار ہے ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ پہلے مغل سلطنت اور ہندوستان سے مسلمانوں کا دبدبہ ختم ہوا پھر جنگ عظیم کے خاتمے پر ترکی خلافت اور شاہی حکومت ختم ہوئی ۔ اس کے بعد فلسطین پر مغرب کی مدد سے یہودیوں کا قبضہ ہوا اور ابھی حال ہی میں امریکہ کے حملوں میں عراق اور افغانستان میں لاکھوں مسلمان مارے گئے ۔
الغرض 19ویں صدی سے اب تک غالباً کروڑہا مسلمان مغرب کے ہاتھوں مارے گئے ۔ اس کے ہاتھوں سے نہ صرف اقتدار نکل گیا بلکہ ساری دنیا میں ہر جگہ کم و بیش مسلمان مغرب کا غلام ہوگیا ۔ پوری مسلم تہذیب جس زوال کا شکار ہوئی اسکا اندازہ لگانا مشکل ہے ۔ اسی مسلم زوال نے مغرب کے خلاف عالم اسلام میں نفرت کے بیج بودئے ۔ القاعدہ ، اسامہ اور البغدادی اسی نفرت کے بیج سے جنمے درخت ہیں جو تناور ہو کر نہ صرف مغرب کے لئے ایک خطرہ بن جاتے ہیں بلکہ ساری دنیا کے لئے ایک خطرہ بن جاتے ہیں ۔ اور یہ تمام تنظیمیں نفرت کی آگ میں جھلس کر مغرب سے بدلہ لینے کے لئے جہاد کا نعرہ بلند کرتے ہیں جو دور حاضر میں دہشت گردی کے سوا کچھ اور نہیں ہے لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ان جہادیوں کا جو غصہ ہے وہ بیجا ہے ۔ گو اس کی قیادت غلط ہاتھوں میں ہے لیکن مسلمانوں کو مغرب سے جو شکایت ہے وہ اپنی جگہ بجا ہے اور یہی شکایت کبھی القاعدہ تو کبھی ابوبکر البغدادی کی شکل اختیار کرلیتی ہے ۔ اسی لئے ایک اسامہ بن لادن یا ایک ابوبکر البغدادی کے مارے جانے سے جہادیوں کا مغرب کے خلاف جذبہ نفرت ختم ہونے والا نہیں ہے ۔ اس لئے ایک البغدادی کی خلافت تو کچلی جاسکتی ہے لیکن کل کو کہیں کسی دوسرے جگہ کوئی دوسری خلافت جنم لے سکتی ہے اور اس طرح جہادی سیاست کسی نہ کسی شکل میں جاری رہے گی ۔
اس لئے وہ مغرب ہو یا نووارد مسلم نظام ۔ ان تمام قوتوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس نظریہ فکر نے جہادیوں کو جنم دیا اس سے نمٹے بغیر دنیا سے جہادیوں کی دہشت گردی سے نمٹا نہیں جاسکتا ہے ۔ لیکن یہ کام ہو تو کیسے ہو ۔ کیونکہ کیا مغرب عالم اسلام میں اپنے مفاد سے دستبردار ہو کر مسلم ممالک میں مسلمانوں کی مانگوں کو قبول کرسکتا ہے ؟ کیا دنیا میں کوئی بھی قوت فلسطین کو اسرائیلیوں کے قبضے سے لے کر اس کو فلسطینیوں کو واپس دے سکتی ہے ؟ کیا عراق اور افغانستان جیسے ممالک سے امریکہ اپنے فوجی اڈے ختم کرسکتا ہے ؟ یہ تمام باتیں ممکن نہیں ہیں ۔ اگر یہ باتیں ممکن نہیںتو جہادی سیاست کا خاتمہ بھی ممکن نہیں ہے ۔ اس کے یہ معنی قطعاً نہیں ہیں کہ جہادیوں کویہ حق حاصل ہے کہ وہ جس کی گردن چاہے کاٹ سکتے ہیں ۔
دور حاضر کی جہادی سیاست محض غلط ہی نہیں بلکہ گناہ بھی ہے کیونکہ اسلام میں صرف نفرت کی بنیاد پر کسی سے بھی جنگ جائز نہیں ہے۔ اس لئے دور حاضر کے جہادیوں کو نفرت کا جہاد ترک کرکے اب اپنی جد وجہد کو جدید سیاسی طرز پر قائم کرنا ہوگا ۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو ابوبکر البغدادی کی طرح وہ کوئی دوسرا اسامہ یا کوئی دوسرا البغدادی تو پیدا کرسکتے ہیں لیکن دور حاضر کے جہاد اور جہادیوں کو کبھی کامیابی نہیں مل سکتی ہے ۔ دور حاضر کے جہادیوں کو ویت نام سے سبق لینے کی ضرورت ہے جس نے امریکہ کے خلاف بغاوت کرکے اپنی امریکی مخالفت کوجدید طرز پر چلا کر دنیا بھر سے ہمدردی بھی بٹوری اور آخر امریکہ کو ہرایا بھی اگر آج کا جہادی ایسا ہی کرے تو شاید اسے کامیابی ملے ۔ محض نفرت کی بنا پر مارے جانے سے نہ تو دنیا ہی ملے گی اور نہ ہی آخرت ۔ بس البغدادی کی طرح موت ہی ہاتھ آئے گی ۔