معلمین کا احتساب

کے این واصف
ہر موسم حج کے بعد وزارت حج کا شعبہ تحقیق و ترقی گزرے سال کے تجربے ، دوران حج نوٹ کئے گئے مسائل، خامیوں ، کوتاہیوں کو سامنے رکھ کر اگلے موسم حج کے انتظامات کو قطعیت دیتا ہے ۔ اس میں حج معلمین کی کارکردگی کا بھی احتساب ہوتا ہے ۔ ایسے معلمین کے دفاتر جن کی خدمات اطمینان بخش نہیں رہیں ان کو تنبیہ یا سزائیں دی جاتی ہیں اور ان پر بھاری جرمانے بھی عائد کئے جاتے ہیں ۔ ان سزاؤں کے باوجود بعض معلمین اپنی روش بدلتے ہیں اور نہ ہی اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ معلمین کیلئے مقرر سزائیں ناکافی ہیں ۔ اس لئے حج انتظامیہ کے ایک اعلی عہدیدار امسال موسم حج کے اختتام پر معلمین کی کارکردگی کے بارے میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا کہ معلمین کے خلاف مقررہ سزائیں ناکافی ہیں ۔ یہ بات انھوں نے تب کہی جب ان کو معلمین کے دفاتر کی غیر اطمینان بخش کارکردگی اور حجاج کی جانب سے کی گئیں شکایات سے واقف کرایا گیا ۔ انھوں نے کہا کہ خارجی اور داخلی معلمین کو اپنے فرائض کی پابندی نہ کرنے اور مکمل طور پر ذمہ داری نہ ادا کرنے کیلئے موثر سزائیں نہیں ہیں ۔ معلمین مشاعر مقدسہ میں اپنے خیموں اور اطراف کی صفائی کا اہتمام نہیں کرتے ۔ ہمارے پاس ایسا کوئی قانون نہیں جس کی بنیاد پر انھیں صفائی کا پابند بنایا جاسکے اور صفائی کا معقول انتظام نہ کرنے پر ان کی سخت سرزنش کی جاسکے ۔ انھوں نے کہا کہ مشاعرمقدسہ میں کچرا نہ اٹھانے کی خلاف ورزی کرنے والوں پرزیادہ سے زیادہ 5 ہزار ریال کا جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے ۔ م

علمین کیلئے اس جرمانے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔ داخلی معلمین جو حج کرنے والے سعودی شہریوں اور مقیم غیر ملکیوں سے بھاری حج پیکیج کے ذریعہ اچھی خاصی رقم بٹورتے ہیں وہ اپنے خیموں کی صفائی پر دھیان نہیں دیتے۔انھوں نے پریس کانفرنس کے دوران توجہ دلائی کہ علامتی جرمانے نے معلمین کو خیموں کی صفائی نہ کرنے کے حوالے سے انتہائی لاپروا اور غیر ذمہ دار بنادیا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ میونسپلٹی سڑکوں کی صفائی کی ذمہ دار ہے ۔ دوران حج بھاری تعداد میں صفائی کارکن مشاعر مقدسہ میں متعین کئے جاتے ہیں ۔ اور یہ لوگ بڑی مستعدی سے کام بھی کرتے ہیں ۔ مگر حاجیوں کے خیموں کی صفائی معلمین کی ذمہ داری ہے ۔ انھوں نے دوران گفتگو یہ بھی کہا کہ حجاج کو سفر سے قبل حج آگہی پروگرامس منعقد کرنا چاہئے ۔ معلمین کی اکثریت اسکی پابندی نہیں کرتی ۔ انھوں نے کہا کہ سلسلے میں ملیشیا کا تجربہ مثالی ہے ۔ وہ اپنے حجاج کو آگہی کورس کراکر ہی ارض مقدس روانہ کرتے ہیں ۔ حجاج کیلئے مناسک کی تفصیلات اس کی تربیت ، دوران حج شرعی و اخلاقی ذمہ داریوں سے واقفیت وغیرہ ہر حاجی کیلئے ضروری ہے ، جس سے عازم حج کے لئے فریضہ حج کی ادائیگی آسان ہوجاتی ہے ۔ کیونکہ لاعلمی یا معلومات کی کمی کیوجہ سے انھیں بھٹکتے رہنا پڑتا ہے ۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ عصر حاضر میں سڑکیں پختہ ہوجانے کے بعد حاجیوں کو جمرات کی رمی کیلئے کنکریوں کا حصول مشکل ہوتا جارہا ہے ۔ ہم دارالافتاء سے فتوی لیکر حجاج کورمی کیلئے کنکریوں کا بندوبست کرنا چاہیں گے ۔

حجاج کی تربیت کا ویسے ہر شہر میں معلمین کے علاوہ مذہبی و سماجی تنظیمیں اور خود سرکاری حج ہاوز کرتے ہیں ۔ جس میں زیادہ تر عازمین کو مناسک حج سے آگاہ کیا جاتا ہے ۔ ہمارے دین میں صفائی کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے ۔ عازمین حج کا تعلق چھوٹے بڑے شہروں ، گاؤں اور قصبوں سے ہوتا ہے ۔ ان میں اکثریت ایسے افراد کی ہوتی ہے جو اپنے ملک یا مقام سے پہلی بار بیرونی سفر پر نکلتے ہیں ۔ اس لئے انھیں بہت سی ایسی باتوں سے واقف کرانا ضروری ہے جن کا وہ پہلی بار سامنا یا تجربہ کررہے ہیں ۔ حج پر آنے والا ہر شخص مقدس شہروں میں کم ازکم 20 دن تو گزارتا ہے ۔ لہذا عازمین کو تربیت کے دوران سفر سے لیکر مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ قیام کے دوران اٹھنے بیٹھنے ، رہنے سہنے ، اپنے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے ، بیت الخلاء اور حمام کے استعمال اور اس کی صفائی کا خیال رکھنے جیسی باتوں کو بھی حجاج کی تربیت کا حصہ ہونا چاہئے ۔ اس سے سارا ماحول صاف ستھرا رہے گا اور ماحول کے صاف رہنے سے حجاج متعدی و وبائی امراض سے محفوظ رہیں گے ۔

خیر گفتگو شروع ہوئی تھی معلمین کے غیر ذمہ دارانہ رویہ اور اس سے حجاج کو ہونے والی تکالیف اور مسائل سے ۔ اگر آپ دوران حج منیٰ کے خیموں میں نکل جائیں تو آپ کو معلمین سے متعلق شکایتوں کے انبارملیں گے ۔ بے شک عازمین حج کو مناسک کی ادائیگی میں شدید تکان اور جسمانی تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی ہیں ۔ لیکن خیمے جہاں عبادات سے فارغ ہو کر وہ آرام کرتے ہیں وہاں ان سے کئے گئے وعدے کے مطابق معلمین سہولتیں فراہم کریں تو وہ بڑی حد تک راحت و سکون محسوس کرتے ہیں ۔ لیکن منیٰ میں بیت الخلاء اور حماموں کی کمی ،خیموں میں صفائی کا ناقص انتظام ، ایرکنڈیشنرز کا ٹھیک سے کام نہیں کرنا ، غیر معیاری کھانے کی سپلائی وغیرہ جیسی شکایتیں عام ہوتی ہیں ۔ حالانکہ عازمین حج یہ سہولتیں حاصل کرنے کیلئے معلمین کو موٹی رقم بطور فیس ادا بھی کرتے ہیں۔ خیر ان تکالیف کو عازمین جیسے تیسے جھیل بھی لیتے ہیں لیکن معلمین اپنی غیر ذمہ دارانہ حرکات بلکہ کھلی دھوکہ دہی سے حجاج کو شدید پریشانی میں مبتلا کردیتے ہیں ۔ بات کچھ عرصہ قبل کی ہے جسے دھوکہ دہی کی انتہا کہا جاسکتا ہے ۔ یہ دھوکہ دہی کا ایک ایسا واقعہ تھا جس کا راقم الحروف خود شکار ہوا تھا ۔ کچھ برس قبل ہم اپنے دیگر افراد خاندان کے ساتھ ایک داخلی معلمین کے دفتر واقع جدہ میں فیس ادا کی ۔ جس کی معلم کے دفتر نے باضابطہ رسید بھی جاری کی ۔ معلم نے 7 ذی الحجہ کو رات ایک مسجد کے قریب تمام عازمین کو جمع ہونے کی ہدایت کی جہاں سے وہ بذریعہ بس ہمیں منیٰ لے جانے کا پروگرام بتایا ۔ کئی گھنٹے تاخیر کے بعد صبح کی اولین ساعتوں میں دو بسیں مقام مقررہ پر پہنچیں ۔ جن میں تمام عازمین حج سوار ہوگئے ۔ یہ بس منیٰ کے علاقے میں پہنچیں تب تک سورج کی کرنیں طلوع ہونے لگی تھیں ۔ ایک مقام پر بسیں روک کر ڈرائیور نے سڑک کی دوسری جانب کافی فاصلے پر لگے خیموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سامنے نظر آنے والے خیموں میں آپ لوگوںکے قیام کا انتظام ہے ۔ سڑک عبور کیجئے اور خیموں میں اپنا مقام حاصل کرلیجئے ۔ یعنی وہ ڈرائیورز حجاج کو دور سے خیمے دیکھا کر چلے گئے بلکہ فرار ہوگئے ۔ ہم لوگ جب خیموں کے پاس پہنچے تو ہمیں بتایا گیا کہ جس کمپنی کی رسید ہمارے پاس ہے یہ خیمے اس کمپنی کے نہیں بلکہ کسی اور معلم کے ہیں ۔ یہ سن کر تمام لوگوں کے ہوش اڑگئے ۔ کیوں کہ وہاں نہ وہ بس ڈرائیورز تھے نہ ہی معلم کے آفس کا کوئی نمائندہ ۔ وہاں موجود سو سے زائد عازمین نے جب شور مچایا تو وزارت حج کا ایک نمائندہ وہاں پہنچا اورکہا کہ آپ حضرات کا یہاں شور مچانا حق بجانب نہیں ہے کیونکہ درحقیقت یہ خیمے کسی اور معلم کے ہیں ۔ آپ سے جس نے فیس وصول کی وہ تو کہیں فرار ہے ۔ پھر اس نے یہ تجویز پیش کی کہ وہ فوری طور پر کسی اور معلم کا انتظام کرسکتے ہیں مگر اسے دوبارہ فیس ادا کرنی پڑے گی ۔ یہ سن کر آدھے سے زائد عازمین وہاں سے چلے گئے اور ہم چند افراد نے وزارت حج کے عہدیدار کی تجویز قبول کرتے ہوئے دوبارہ فیس ادا کی اور نئے معلم کے ساتھ ہولئے ۔ حج سے واپسی کے بعد تمام افراد جدہ میں اس دھوکہ باز معلم کے دفتر پہنچے اور اپنی ادا شدہ رقم کی واپسی کا مطالبہ کیا ۔ جس پر اس نے کہا کہ غلطی آپ حضرات کی ہے ۔ میرے خیمے اسی مقام پر تھے مگر میرے وہاں پہنچنے سے قبل آپ لوگ جلد بازی سے کام لیتے ہوئے وہاں سے چلے گئے ۔ بہرحال لاکھ سرپٹکنے کے باوجود ہم اس کمپنی سے اپنی رقم وصول نہ کرسکے ۔

دراصل موسم حج کے شروع ہوتے ہی یہاں معلمین برساتی مینڈکوں کی طرح اُبل پڑتے ہیں ۔ اور عازمین حج ان کے ساتھ بکنگ کراتے ہیں اور انھیں بڑی رقم بطور فیس ادا کرتے ہیں اور پھر ان سے کبھی اس قسم کے دھوکے اور کبھی ان کے ہمراہ حج کرکے قسم قسم کی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرتے ہیں۔ اب چونکہ رجسٹرڈ معلم کے ذریعہ ہی حج کرنا ضروری قرار دے دیا گیا ہے تو معلمین اب منہ مانگی رقم بطور فیس وصول کررہے ہیں ۔ اور اس کے باوجود اپنی نااہلی یا غیر ذمہ دارانہ طرزعمل سے حجاج کو تکلیفیں پہنچاتے ہیں ۔ حکومت سعودی عرب کی سخت شرائط کے باوجود یہ معلمین اپنی حرکات سے باز نہیں آرہے ہیں ۔ سنا ہے کہ اب حکومت تمام معلمین سے بطور ضمانت ایک بڑی رقم وصول کرے گی اور حج کے اختتام پر اگر ان کے بارے میں شکایتیں موصول نہیں ہوئیں اور ان کی کارکردگی اطمینان بخش رہی ، تو ان کا ڈپازٹ واپس ملے گا ورنہ اسی رقم سے حجاج کو معاوضہ اور حکومت کی جانب سے عائد کیا گیا جرمانہ وصول کیا جائے گا ۔ شاید یہ عمل معلمین کو بہتر کارکردگی پر مجبور کرے گا ۔
knwasif@yahoo.com