معتوب

نفیسہ خان
عورت ہر معاملے میں خود کو مرد کے برابر ہونے کا دعوی کرتی ہے ۔ اس طرح اپنے جھوٹے مفروضوں اور انا کی تسکین کرتی رہتی ہے ، جبکہ کئی ایک باتوں میں وہ اتنی کمزور و بے بس ہے کہ اپنے آپ کو اپنی عصمت ، عزت ، ناموس اور اپنی ازدواجی زندگی اور گھر کو تک بچا نہیں پاتی ۔ اپنے حقوق کے لئے لڑتی رہتی ہے لیکن حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے وہ بچپن سے خود کو مرد کے زیرسایہ ، زیر نگرانی عمر گذارنے کی عادی ہوجاتی ہے ۔ باپ کے بغیر وہ یتیم و یسیر ہے ۔ بھائی اور بیٹے کے بنا خود کو مضبوط سہارے سے محروم تصور کرتی ہے اور مذہب ، ماں باپ ، خاندان و معاشرہ کا اس بات پر کامل اعتماد و یقین ہیکہ بنا شادی و شوہر کے ایک عورت کی زندگی نامکمل ہے ۔ اس کی زندگی کی ساری خوشیاں ، رونقیں ، شریک حیات کے بغیر ادھوری ہیں اور سچ پوچھئے تو حقیقت بھی یہی ہے کہ جس گھر کی دہلیز پاکیزہ رشتوں کے مردوں یا محرموں کے قدموں سے محروم ہوجاتی ہے وہاں گھر سے باہر کی ہر چھوٹی بڑی روزمرہ کی ضروریات کی تکمیل کے لئے بے شمار پریشانیاں و مسائل درپیش ہوتے ہیں ،لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مرد کے مضبوط سہارے کیلئے عورت کو احساس کمتری میں مبتلا کردیا جائے ۔ اسکا استحصال کیا جائے اس پر ظلم و ستم روا رکھا جائے ۔ ہر مذہب میں عورتوں کے ساتھ گھریلو تشدد اور زیادتیاں ہوتی رہتی ہیں اور اس وقت تک انصاف نہیں ہوتا جب تک کہ وہ خودسر ہو کر اپنے حق کیلئے اپنی بے مائیگی کے احساس کو پس پشت ڈال کر سینہ سپر نہیں ہوجاتی ۔ عام عورتوں کے علاوہ مظلومیت کے لحاظ سے بھی ان کی درجہ بندی کی جائے تو تین قسم کی عورتیں سماج و معاشرہ میں معتوب رہی ہیں ۔ ایک مطلقہ ، دوسری بیوہ ، تیسری بانجھ ۔ نوجوان بیوہ ہو تو الماری میں ایک سے بڑھ کرایک رنگ بہ رنگی دلکش ساڑیاں سجی ہوتی ہیں ، ڈریسنگ ٹیبل پر بناؤ سنگھار کا سامان ہوتا ہے ۔ کبھی کسی کے ہاتھوں کی مہندی کبھی کسی کی کلائیوں میں کھنکتی خوبصورت چوڑیاں اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کرتی ہیں تو کسی کے زلف کی زینت بنا خوش رنگ مہکتا پھولوں کا گجرا اس کے دل و دماغ کو نہ صرف معطر کرتا ہے بلکہ راغب بھی کرتا ہے لیکن شوہر کی موت کے ساتھ نوجوانی کی خواہشات اور ہر جذبے سے عاری ہوجانے کی تلقین کی جاتی ہے ، بیکراں درد اور ناقابل برداشت تکلیف کے ساتھ جینے کی سزا کچھ تو مذہب کے سخت اصول دیتے ہیں اور کچھ سزا معاشرہ بھی دیتا ہے کہ ان کی زبانیں خاموش رہ ہی نہیں سکتیں ۔ اسلئے اپنی محرومیوں سے قطع نظر اسے اپنے عمل سے اپنے خیالات کو پاکیزہ ماحول میں صحیح سمت دینا ضروری ہوتا ہے ۔ اسی راستے پر گامزن ہونا پڑتا ہے جو خیر و برکت اور نیک نامی کا ، ہوکیونکہ ہر انسان کی قوت ارادی کا حصار بہت مضبوط نہیں ہوتا اس لئے بناؤ سنگھار ، خوشبو ، رنگین پوشاک سے انہیں دور کردیا جاتا ہے ۔ اپنی بے رنگ زندگی کے کربناک لمحوں اور یادوں کی شدت کے ساتھ باقی ماندہ زندگی گذارنی پڑتی ہے ۔ شوہر کی جدائی کا غم ہی کیا کم ہوتا ہیکہ سہاگ کی نشانیوں کے نام پر ان سے یہ سب چھین لیا جاتا ہے اورحال یہ ہوجاتا ہیکہ

تم گئے تو سحر ہوئی نہ نصیب
رات ہی آئی ہر اک رات کے بعد
حالانکہ بیوہ عورتیں ایثار و عمل کا پیکر ہوتی ہیں ۔ تمام عمر جہد مسلسل سے ان کی زندگی عبارت ہوتی ہے ۔ شوہر کے انتقال کے بعد بھی بچوں کی پرورش ، تعلیم و تربیت ، ان کی شادیاں ، سب کچھ بڑے تحمل و بردباری سے انجام دیتی ہیں ۔ پیشانی پر بل ، نہ آنکھوں میں کرب کے آنسو ہوتے ہیں۔ اکثر حالات یوں ہوجاتے ہیں کہ دنیا سے کنارہ کشی کرلینے کو جی چاہتا ہے ، لیکن اپنے بچوںکو بھی تو ان کے شریک حیات کے حوالے کرنے کی ذمہ داری انہیں کی ہوتی ہے۔ خدا کو بھی شاید ان عورتوں کے ضبط کا امتحان مقصود ہوتا ہے ، حالانکہ وہ خوب جانتا ہے کہ جس کی زندگی کاساتھی چھوٹ جائے تو مسائل کی فراوانی سکون دل کی دشمن بن جاتی ہے ۔ بیواؤں کے پاس تو آسودگی بخشنے والا کوئی جذبہ نہیں ہوتا ، کام کاج سے فرصت پا کر سجدوں و تلاوت میں سکون کی تلاش کی ناکام کوشش مگر جاری رہتی ہے ۔ موسم ہر چار ماہ بعد بدل جاتے ہیں لیکن ایسی عورتوں کی زندگی میں خزاں کا دور ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا ہے ۔ غم و اندوہ کی چادر اپنے اطراف لپیٹے وہ زندگی گذارنے پر مجبور ہیں ۔ بظاہر وہ اپنے آپ کو بہت پرسکون ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہیں ، لیکن ان کے دل کی اندرونی تہہ تک شریک زندگی کا غم پیوست ہوجاتا ہے ۔غیر مسلم ، بیوہ عورتوں کی زندگی تو عذاب و تاریکیوں سے عبارت ہے اور اب بھی گنگا کے کنارے آباد ہزاروں بیوائیں کڑاکے کی سردی ، بارش میں بھی گرم کپڑوںاور بلاؤز سے بے نیاز ایک سفید ساڑی میں خود کو لپیٹے گھر سنسار اولاد سے دور زندگی گذارنے پر مجبور ہیں ۔ ان کی حالت زار خون کے آنسو رلاتی ہے نہ خزاں رسیدہ دن و رات میں کبھی بہاروں کا گذر ہوتا ہے ،نہ اپنوں کی رفاقت کو ترستی بلکتی زندگیوں کو داد و فریاد کا حق حاصل ہے ۔ ہر ماہ ان کے سرمونڈھ دئے جاتے ہیں کیونکہ آرائش زلف بھی ان کیلئے گناہ ہے ۔ ایسی عورتوں کا کسی پر اختیار ہی نہیں چلتا ۔ گلہ کریں تو کس سے ، شکوہ وشکایت سننے والا وہاں کون ہے ، پیٹ بھر کھانے اور تن بھر کپڑے سے محروم زندگی گذارنے پرمجبور کی جاتی ہیں اور معاشرہ یہ ظلم ، جبر و زیادتی سہنے پر مجبور کرتا ہے یا دیکھ کر ان دیکھی کرتا ہے ۔

اک جبر وقت ہے کہ سہے جارہے ہیں ہم
اور اس کو زندگی بھی کہے جارہے ہیں ہم
رہنے کی یہ جگہ تو نہیں ہے مگر یہاں
پتھر بنے ہوئے ہیں رہے جارہے ہیں ہم
کہاں ہیں مذہب کے نام پر لمبی چوڑی تقاریر کرنے والے رہنما جو فسادات برپا کرتے رہتے ہیں ، لیکن مساوات کا سبق بھول گئے ہیں ۔ اپنے ہی مذہب کی عورتوں پر اس طرح کا ظلم کرتے ہیں ۔ یہ تو پہلی قسم کی مظلوم لڑکیاں یا عورتیں ہیں ۔ دوسری قسم کی وہ ہیں جو اوصاف ظاہر و باطنی سے آراستہ ہونے کے باوجود شومئی قسمت سے شوہر و سسرال سے ٹھکرائی جاتی ہیں اور مطلقہ خواتین کی فہرست میں ان کا نام شامل کردیا جاتا ہے ۔ کامیاب زندگی گذارنے کی ان کی ہر کاوش ، ہر کوشش بیکار ثابت ہوتی ہے ، کیونکہ ظالموں کے عادات و اطوار کہاں بدلتے ہیں کتنے سنہرے خواب سجا کر سسرال میں قدم رکھا جاتا ہے لیکن تمام امیدیں تشنہ کام رہ جاتی ہیں ۔ انکے بار آور ہونے کی امیدیں ترک کرنی پڑتی ہیں ۔ ستم کے عادی ہو کر کرم کی امیدیں رکھنا فضول ہوتا ہے ۔ ایک خلش ایک کسک ایک چبھن دل کو لگی ٹھیس برسہا برس بعد بھی اپنی شدت برقرار رکھے ہوئے ہوتی ہے ۔ اکثر صورتوں میں خطا ان کی نہیں ہوتی پھر بھی عتاب عورت پر ہی نازل ہوتا ہے اور طلاق نامہ ہاتھ میں رکھ کر قطع تعلق کرلیا جاتا ہے ۔وہ اپنے آپ کو مورد الزام سمجھنے پر مجبور کی جاتی ہے ، پھر بھی فریاد نہیں کرسکتی ۔ جگ ہنسائی کا ڈر ہوتا ہے اس لئے چپ رہتی ہے کہ
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
شریک حیات ہوتے ہوئے جب فریقین کے درمیان نہ محبت کا رشتہ استوار ہوسکے ،نہ ہی اعتماد و بھروسے کا ۔ پھر اپنی وفاداری پر کس طرح کوئی کاربند رہ سکتا ہے ۔ زندگی کی کٹھن راہوں پر رہزن بہت مل جاتے ہیں ، لیکن رہبر کوئی نہیں ملتا ۔ قسمت ، مقدر ، تقدیر ،ہاتھ کی لکیریں سب کچھ اس وقت بے بس منہ تکتی رہ جاتی ہیں،جب نصیب پھوٹ جاتا ہے ۔ ایسی عورتوں کی دل کی آرزوئیں اپنی جگہ ہوتی ہیں اور پیہم درد ایسی جگہ ہوتا ہے کئی بار یہ بھی ہوتا ہیکہ وہ نئے سرے سے زندگی کی شروعات کرنا چاہتی ہیں ،لیکن بیشمار رکاوٹیں راستے میں حائل ہوجاتی ہیں ۔ ایک پیہم تضاد دونوں کے لئے باعث رنجش بنا رہتا ہے ۔
یہ بھی کیا منظر ہے نہ بڑھتے ہیں نہ ہٹتے ہیں قدم
تک رہا ہوں دور سے منزل کو میں ، منزل مجھے
سیاست کے دوبدو پروگرام میں عقدثانی کے رشتوں میں ہم نے دیکھا کہ مرد بہ نسبت مطلقہ خواتین کے بیوہ عورتوں کو ترجیح دیتے ہیں ، کیونکہ ان کا خیال ہوتا ہے کہ جو عورت پہلے شوہر سے نباہ نہیں کرسکتی ہے وہ دوسرے مرد کے ساتھ خوشگوار زندگی کیسے گذار سکتی ہے ۔ حالانکہ کئی مرد ایسے ہوتے ہیں جو بگڑتے تعلقات کو سنوارنا ، سدھارنا نہیں چاہتے ، وہ یکلخت ازدواجی تعلقات کو ختم کردیناچاہتے ہیں ،کیونکہ تجدید کے وہ قائل نہیں ہوتے ۔ اکثر کشیدہ تعلقات کی اصل وجہ وہی بدگمانیاں ، شک و شبہات ہوتے ہیں ۔ شکایتوں ، غلطیوں کو بھلا کر ، درگذر و نظر انداز کرکے تعلقات استوار کرنے میں بھلائی بھی ہے اور بڑائی بھی ہے ۔ ہمیشہ ساتھ نبھانے کی ساری کوششیں اور کاوشیں کبھی ناکام اوربے سود ثابت ہوتی ہیں تو کبھی کامیاب بھی ہوتی ہیں ، ہمیشہ رنجشوں کو ہوا دینا کہاں تک درست ہے ۔

فاصلے حد سے زیادہ نہیں ہوتے لیکن
اختلافات کو کچھ لوگ ہوا دیتے ہیں
کبھی شوہر کے اشاروں پر روبوٹ کی طرح اس کا ہر حکم ماننا اور ہر کام انجام دینا زندگی کا مقصد ہوتا ہے ۔ اگر درمیان میں بچے نہ ہوں تو زندگی گذارنا دوبھر ہوجائے کہ
وہ تو بچوں نے ایک رکھا ہے ہم کو
نہ ہنر تیرا ہے اس میں نہ ہنر میرا ہے
ایسی زندگیوں میں نغمے کم اور نوحے زیادہ ہوتے ہیں ۔ صرف شوہر کے نام سے وابستگی ہوتی ہے ورنہ دل کبھی دل سے نہیں مل سکتا ،۔خیالات کا تصادم ذہنی الجھن و انتشار کا باعث بنا رہتا ہے ۔ حالات بدلنے کے انتظار میں عمر کٹ جاتی ہے ۔بیشتر عورتوں کیلئے ازدواجی زندگی کا ساتھ گذارا ہوا ہر ایک لمحہ سوائے بے رخی ،لاتعلقی اور بدمزاجی کے اور کچھ نہیں ہوتا ، ایسے شخص کے بچھڑ جانے پر بھی لاشعور میں اس کی آواز کی کرختگی ،اسکے تیر و نشتر کی طرح چھلنی کرنے والے جملے ،اسکا ظالمانہ برتاؤ اس کے مناظر بے چین کرتے رہتے ہیں ۔ایسی عورتوں کیلئے زندگی کھیل کا وہ میدان ہوتا ہے جہاں وہ اپنے آپ کو ایک ایسا کھلاڑی سمجھتی ہے جو کھیل شروع ہونے سے پہلے ہی اپنی ہار مان لیتے ہیں کیونکہ ،ظالم بے حس مرد اپنی اونچی آواز سے سامنے والے کے جائز مطالبات کو دبانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ سارے خاندان کو ایک عورت کے سامنے صف آراء کردیتا ہے ۔ ایسے میں بھلا اکیلی عورت کس کس کا مقابلہ کرسکتی ہے ۔ پیہم اذیت دینے اور لامتناہی ذہنی و جسمانی تکالیف پہونچانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ زندگی اسے زیر و زبر کرتی رہتی ہے ۔ایک طوفان زدہ دریا میں ہچکولے کھاتی ہوئی بنا بادبان ، چپوؤں و ناخدا کے ایسی کشتی جسے نہ کنارا مل سکتا ہے ، نہ ڈوب کر تہہ آب ہی ہوپاتی ہے ۔ عورت کو التفات خاص کی ضرورت نہیں ہوتی وہ تو صرف نظر کرم کی متلاشی ہوتی ہے ۔ گھر کے معاملات طلاق، خلع کے لئے گھر سے نکل کر کورٹ کچہری تک پہونچ جاتے ہیں ۔ کبھی عدالتوں میں فریقین کا سامنا ہو تو برسوں کی رفاقت کے بعد بھی شوہر ایک اجنبی سا بن جاتا ہے ۔اس کے چہرے کی اجنبیت اور ہونٹ شناسائی کے ہر لفظ سے بیگانہ لگتے ہیں ۔نہ انہیں عہد وفا یاد آتا ہے ،نہ باہم گذارے شب و روز کا خیال ہوتا ہے ،نہ حسین پل ، نہ جدائیوں کی کسک کا احساس ہی رہتا ہے ۔ دوران جرح دل آزار گفتگو جذبات کو مجروح کرنے والا لہجہ اپنی بے مائیگی کااحساس دلانے والی تضحیک آمیز نگاہیں اور اذیتیں بدن میں چنگاریاں سی بھردیتی ہیں ۔ ساتھ نبھانے کے وعدے تو وہ بیشمار کرتے ہیں لیکن کبھی انکاکوئی وعدہ تکمیل تک نہیں پہونچتا۔ دنیا بھر میں کتنی ساری عورتیں ہیں جو مرد کے ہر فعل و قرار پر ایمان لے آتی ہیں اور ان کی ہر بات لعل و گہر سمجھ کر اپنا دامن بھرتی رہتی ہیں ۔ مرد صرف اپنی تاویلیں پیش کرتے رہتے ہیں لیکن سامنے والے کے کوئی تاویل ان کیلئے قابل قبول نہیں ہوتی ۔ ان مردوں کو آپ کیا کہیں گے ،بیویوں کی ضرورت و خواہشات اور شب و روز سے قطعی بے خبر و بے نیاز ،بے اعتناء ولاتعلق بلکہ لاپروا و ناآشنا ہوتے ہیں ۔ پرسش حالات سے گریز اور نگاہ کرم سے محروم کرنا ان کی عادت ہوتی ہے ۔بنا تقصیر و گناہ کے کئی ایک عورتیں معتوب و مصلوب ہوتی ہیں ان کی کیا بساط کہ کسی ناانصافی یا ناروا سلوک کے خلاف زبان کھول سکیں ۔لب کشائی تو گویا گناہ عظیم ہوتا ہے ۔ دیہاتوں میں ایسی عورتیں منحوس سمجھی جاتی ہیں جن کی خود کی زندگیاں خوشحال نہ ہوں ۔ بانجھ عورتوں کا وجود بھی ایسی خوشیوں سے معمور محفلوں میں ناپسندیدہ ہوتا ہے ۔ پہلی بات ماں بننے والی عورت کو عموماً ساتویں مہینے میں بہ نام ’’ستواسہ‘‘ یا Seemantham نیک خواہشات و دعاؤں سے نوازنے کیلئے تقریب کی جاتی ہے ،یا پھر بچے کی پیدائش پر چھٹی ، چھلہ ، گود بھرائی کی رسم ، جھولے میں ڈالنے کی رسم یا پھر سنکرانتی تہوار پر رینگنے والے بچوں کو بٹھا کر ان پر سے ہم اقسام کے میوؤں کے ٹکڑے ، روپے پیسے ، چنے ریوڑیاں بتاشے سہاگن عورتیں ڈالتی ہیں ۔ یا پھر جب بچے چلنا شروع کرتے ہیں تو چاول کے آٹے و گڑ سے بنی پوریاں جسے ’’اندرسے‘‘ یا ’’ارسل‘‘ کہتے ہیں ،فرش پر بچھا کر ان پر بچے کو چلاتی ہیں ایسے ہی میل ملاپ کو بڑھاوا دینے والی تقاریب دیہاتوں میں آئے دن ہوتی رہتی ہیں ۔ ایسے موقعوں پر دقیانوسی خیالات کی ان پڑھ جاہل عورتیں چراغ پا ہوجاتی ہیں ، چہرے پر ناراضگی ، برہمی اور ان کا انداز گفتگو اور تیور ہی بتادیتے ہیں کہ انہیں ایسی عورتوں کی موجودگی ناگوار گذرتی ہے ۔ کوکھ بنجر زمین سی ہو تو دل کی زمین کو کیا خوشیوں و مسرتوں کے حصول سے سیراب نہیں کیا جاسکتا ؟کیا اسکی تمنا ایک فریب ہے

، عورتیں اپنے جذبات کو پوشیدہ رکھنے کی حتی الامکان کوشش کرتی ہیں کہ ان کو ارزاں کرنا صابر عورت کو منظور نہیں ہوتا ۔ تعلیم و ترقی کی نئی روشنی میں بھی کیا فرسودہ خیالات کی دیواروں کو ڈھایا نہ جاسکے گا۔ سماج کی ستائی ہوئی عورتیں کیا ہر سانس میں موت کی آرزو ہی کرتی رہیں گی ۔ اس معاشرہ میں بیشمار خواتین ایسی بھی ہیں جو بہ ظاہر بھرے پرے خاندان کا ایک حصہ ہیں ،تعلیم یافتہ ہیں ، برسرروزگار ہیں ، پھر بھی شوہر اور سسرال سے وہ اپنا پن عزت و توقیر نہیں ملتی جس کی وہ حقدار ہوتی ہیں ۔ ان کی آنکھوں میں بیشمار جھلکتی کہانیاں ہوتی ہیں ۔ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو اپنی انا کی خاطر سنبھال کر رکھتی ہیں ۔ اپنا غم اپنا دکھ نہ کبھی لبوں تک آکر اظہار کے پیرائے میں ڈھلنے دیتی ہیں کہ وہ خود کو موضوع گفتگو بنانا نہیں چاہتیں نہ لوگوں کو اس کی اجازت دیتی ہیں کہ وہ ان پر رحم کھائیں ، انہیں پرسش حال ایسی لگتی ہے کہ سوکھے ہوئے زخموں کے ٹانکوں کو ادھیڑ رہے ہوں ۔ اس لئے اپنے جذبات و حالات کو دنیا کی نظروں سے پوشیدہ رکھ کر اسے ارزاں نہ کرکے سب کی نظروں میں اپنی وقعت گنوانے سے خود کو باز رکھتی ہیں ۔ اپنی محرومیوں کا اظہار یوں سرعام کرنے سے انکی انا مجروح ہوتی ہے ،جو خلش زندگی سے عبارت ہے وہ دل کی اندرونی تہوں میں ہی دفن رہے تو بھرم رہ جائے اکثر خطا مظلوم عورتوں کی نہیں ہوتی ،پھر بھی عتاب ان ہی پر نازل ہوتا ہے ۔ معتوب وہی ہوتی ہیں انکی پوری عمر یوں ہی بسر ہوتی ہے کہ
جس گھر میں مرے نام کی تختی بھی نہیں ہے
اک عمر اسی گھر کو سجانے میں گذر جائے
عورت کی مجبوریوں ، محرومیوں سے قطع نظر ایسے مردوں کو دیکھئے جو رفیق حیات کو کھوچکے ہیں لاولد ہیں اور بیوی سے تعلقات منقطع کئے بیٹھے ہیں ،لیکن نہ ان کے ظاہر نہ باطن سے نہ ان کی پوشاک سے رکھ رکھاؤ یا دن و رات کے معاملات میں کوئی فرق ہوتا ، نہ سماج و معاشرہ میں کوئی بات قابل اعتراض یا باعث انگشت نمائی بنتی ہے نہ کسی تقریب میں ان کی موجودگی پر کسی کے ابرو پر بل پڑتے ہیں ، صرف عورت ہی معتوب کیوں ہو؟؟