مضامین چکبست

سرورالہدیٰ
جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
چکبست کو ایک شاعر اور نثر نگار کی حیثیت سے شہرت حاصل ہوئی۔ کبھی ان کی شاعری زیادہ موضوع گفتگو بنی تو کبھی ان کی نثر کا حوالہ زیادہ آیا۔چکبست کو بہت لمبی عمر نہیں ملی۔ صرف چوالیس سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔ اس لحاظ سے چکبست نے جو شعری اور نثری سرمایہ چھوڑا ہے اس کی اہمیت کئی اعتبار سے دوچند ہوجاتی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ اگر کسی کو لمبی عمر ملے تو اس کی تحریر کی عمر بھی لمبی ہوگی۔چکبست کا ایک شعر تو اجتماعی حافظے کا حصہ ہے کہ  ؎
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا انھیں اجزا کا پریشاں ہونا
چکبست کا تعلق جس عہد سے ہے وہ ہماری سیاسی ، سماجی اور تہذیبی زندگی کا ایک پر آشوب دور تھا ۔ اس میں کسی چیز کو فکر و احساس کی سطح پر قرار نہیں تھا۔ فکری اور تہذیبی طور پر اتنی متضاد چیزیں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی تھیں کہ اس ماحول میں کسی کے لیے بھی کوئی ایسا موقف اختیار کرنا بہت دشوار تھا جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔ لیکن چکبست کی قومی اور ملی شاعری نے عام طور پر لوگوں کو متاثر کیا اور بدلتے وقت کے ساتھ ہم یہ کہنے لگے کہ دراصل ہماری جدید شاعری میں حب الوطنی کا تصور بڑی حد تک چکبست کی شاعری کا فیضان ہے گو کہ اسی زمانے میں دیگر شعرا بھی تھے جنھوں نے اپنے اپنے طور پر اس عہد کو وہ سب کچھ عطا کرنے کی کوشش کی جس سے ملک تہذیبی سطح پر متحد رہ سکے۔اردو کا ہر سنجیدہ طالب علم ’مضامین چکبست‘ سے واقف ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن ۱۹۲۸ء میں منظر عام پر آیا تھا۔ اس کے بعد مضامین چکبست اور باقیات چکبست کی اشاعت بھی عمل میں آئی، لیکن مضامین چکبست نے اذہان میں جو جگہ بنائی تھی وہ بہر صورت قائم رہی۔خوشی کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر آفتاب احمد آفاقی نے مضامین چکبست کی ترتیب و تالیف کا کام بہت سنجیدگی کے ساتھ کیا ہے اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے اسے اہتمام سے شائع بھی کیا ہے۔ مضامین چکبست میں اکیس مضامین شامل ہیں۔ اور ان تمام مضامین کا تعلق انیسویں صدی کی ادبی اور تہذیبی شخصیات اور متون سے ہے ۔ آج اسے پڑھتے ہوئے ممکن ہے ایسا محسوس ہو کہ بہت سے مباحث پرانے ہو گئے ہیں اور اب ان شخصیات اور متون کو پہلے کی طرح اسی دلچسپی کے ساتھ نہیں دیکھ سکتے۔ لیکن ایسا تو ہمیشہ ہوا ہے کہ نیا زمانہ پرانے زمانے کو اپنی نظر سے رد یا قبول کرتا ہے ۔ کبھی رد کرنے میں اور کبھی قبول کرنے میں توازن قائم نہیں رہ پاتا لیکن پھر بھی رد و قبول کے عمل میں بہرحال ایک زندگی ہے ، اسی نقطۂ نظر سے آفتاب احمد آفاقی نے مضامین چکبست کی نئی اشاعت کے سلسلے میں جو سنجیدہ کوشش کی ہے وہ ترتیب و تالیف کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ کم و بیش سو صفحات پر مشتمل مرتب نے دیباچہ لکھا ہے اور اپنے دیباچے کو ان عنوانات کے تحت تقسیم کیا ہے۔
۱:    احوال و آثار
۲:    مضامین چکبست کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ
۳:    چکبست کا جانب دارانہ رویہ
۴:    چکبست کا نثری اسلوب
۵:    چکبست کا نثری اختصاص
۶:    طریقۂ کار
۷:    مصادر
مضامین کے آخر میں ایک فرہنگ بھی ہے جو یہ بتاتی ہے کہ مرتب نے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ جو الفاظ اور اصطلاحیں عہد چکبست میں رائج تھیںان کے معنی بتا دیے جائیں۔ اس طرح مضامین چکبست کی یہ ترتیب اتنی اہم اور بامعنی ہوگئی ہے کہ اسے عام ترتیب و تدوین کے کاموں سے یقینی طور پر ممتاز قرار دیا جاسکتا ہے۔آفتاب عالم آفاقی نے مضامین چکبست کو صرف ادبی نقطۂ نظر سے نہیں دیکھا ہے بلکہ نوآبادیاتی ہندوستان کے مسائل کی روشنی میں انھیں دیکھنے کی کوشش کی ہے اور اس سلسلے میں حالی، سرسید، حسین آزاد اور دیگر اہم شخصیات کے حوالے آئے ہیں۔ان تمام شخصیات کے درمیان آگے پیچھے چکبست کی جو شخصیت ابھرتی ہے اس کے بارے میں رائے الگ الگ ہوسکتی ہے لیکن تاریخی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو چکبست کی شاعری اور نثر دونوں کا ایک تاریخی کردار ہے۔ آفتاب عالم آفاقی نے گو کہ چکبست کی نثر کو سرسید اور حالی کے مقابلے میں آرائشی بتایا ہے لیکن انھوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ کسی عہد کے کئی اسالیب ہوسکتے ہیں اگر اس کا اسلوب محمد حسین آزاد سے ملتا جلتا ہے تو اسے بھی قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔ اگر یہ زاویہ پیدا نہ ہوتا تو میرا خیال ہے کہ آفتاب عالم آفاقی مضامین چکبست کی ترتیب ، تدوین اور مطالعہ میں اتنی توجہ صرف نہ کرتے اور اتنا قدر جامع مقدمہ وجود میں نہ آتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ کافی دنوں کے بعد ایک ایسی تدوین سامنے آئی ہے جس نے اس طرح کے کام کرنے والوں کے لیے یہ پیغام دیا ہے کہ تنقید سے پہلے تحقیق کس قدر اہم ہوجاتی ہے اور کس طرح تحقیق کو تنقیدی طریقۂ کار میں بروئے کار لایا جاتا ہے۔ مقدمے میں آفتاب عالم آفاقی لکھتے ہیں کہ:
’’چکبست کے یہاں تاریخ و تہذیب کا ایک واضح تصور تھا اور وہ اس کی اہمیت سے بخوبی واقف تھے۔ مضامین چکبست میں تاریخ کے عنوان سے ایک مضمون شامل ہے جس کے مطالعہ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ تاریخ کے مبادیات ، اصول اور اس کی معنویت کا گہرا شعور رکھتے تھے۔ چکبست کے تاریخی تصور اور ان کے انسلاکات کے تجزیے سے قبل یہ ضروری ہے کہ ہم تاریخ کے مبادیات اور اس کے دارئرۂ حدود سے بھی واقف ہوں۔۔۔۔۔ اس اعتبار سے تاریخ نویسی واقعات کو اس کی اصل شکل میں دیکھنے اور اس کی محرکات اور حقیقی بنیادوں کا پتہ لگانے نیز اس کی صحت مندانہ انداز میں تعبیر و ترجمانی کا عمل قرار دی جاسکتی ہے۔‘‘آفتاب احمد آفاقی نے چکبست کے ایک ایسے مضمون کا حوالہ دیا ہے آج اس کی قرأت اس لیے زیادہ اہم ہوگئی ہے تاکہ ہم یہ دیکھ سکیں کہ انیسویں صدی میں چکبست کس طرح تاریخ کا ایک وسیع تر تصور رکھتے تھے۔ چکبست نے اپنے اس مضمون میں لکھا ہے کہ:
’’مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بالفعل ہندوستان میں تاریخی مطالعہ کے وقت بہت کچھ تعصب سے کام لیا جاتا ہے۔ یہاں رسم و رواج دیرینہ کی پابندی کی بیڑیاں ایسی مضبوط ٹھکی ہوئی ہیں کہ ہر پرانی بات کو عزت کی نگاہ سے دیکھنا اصول اخلاق سمجھا جاتا ہے۔ اس کا اثر مطالعۂ تاریخ پر بھی پڑتا ہے۔ مثلاً ہر حضرات کا یہ شیوہ ہے کہ جب وہ قدیم ہندوستان کی تاریخ پڑھتے ہیں تو ان کی محض یہ غرض رہتی ہے کہ جو واقعات پرانے ہندوئوں کے اخلاقی یا علمی اعزاز کے شاہد ہوں ان کی تشریح کی جائے اور پدرم سلطان بود کا غلغلہ بلند کیا جائے۔ اور اگر کسی طرح یہ ثابت ہوجائے کہ قدیم ہندوستان میں ریل اور تار برقی کا سامان موجود تھا تو پھر کیا کہنا ہے۔ اور جب اس وضع کے حضرات کو کسی ایسی لغزش کا سامنا ہوتا ہے جس سے کہ ہندوستان کے قدیم باشندوں کو کسی اخلاقی یا شوشل بدعنوانی کا ثبوت ملتا ہے تو یہ فکر پیدا ہوتی ہے کہ کسی طرح ان واقعات پر خاک ڈال دی جائے۔‘‘
چکبست کے اس اقتباس میں پرانی چیزوں کو رد کرنے اور نئی چیزوں کو قبول کرنے کا جو حوصلہ ہے اسے سرسید تحریک کی نئی آگہی اور نئی حقیقت پسندی سے الگ کر کے نہیں دیکھا جاسکتا۔ چکبست نے شرر کے تعلق سے بھی کچھ ایسی باتیں لکھیں ہیں جن سے ان کا درد چھلک اٹھتا ہے اور کسی نہ کسی طور پر مذہب اور مذہبی روایت سامنے آجاتی ہے۔ آج چکبست کے ان خیالات کو پڑھتے ہوئے انیسویں صدی کی سیاسی ، سماجی زندگی کو سامنے رکھنا نہایت ضروری ہے یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ چکبست نے ایک ایسے وقت میں تہذیبی کڑیوں کو جوڑنے کی کوشش کی جب اس پر خطرات منڈلا رہے تھے اور ان خطرات کے نشانات مضامین چکبست میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ چکبست نے اردو زبان ، اردو تہذیب اور اردو ادب کو جو رنگ و آہنگ عطا کیا وہی دراصل اردو کا بنیادی مزاج تھا۔ اور آج چکبست کو یاد کرنے مطلب یہ ہے کہ ہم تہذیب کی ان کڑیوں کو ٹوٹنے نہ دیں۔ چکبست نے طرح طرح سے اپنی شاعری اور نثر میں اس وحدت پر زور دیا ہے۔ ڈاکٹر آفتاب احمد آفاقی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے مضامین چکبست کو نئے سرے مرتب کیا اور بہت تفصیل کے ساتھ چکبست کی زندگی ، زمانہ اور ان کے مضامین کا سنجیدگی کے ساتھ تجزیہ کیا۔اخیر میں چکبست کے یہ شعر بھی دیکھیے جو ان کے مضامین سے فکری سطح پر ایک رشتہ قائم کر لیتے ہیں۔
چمن کو دیدۂ عبرت سے دیکھ اے بلبل
گلوں سے پھوٹ کے رنگ خزاں نکل آیا
زباں کو بند کریں یا مجھے اسیر کریں
مرے خیال کو بیڑی پہنا نہیں سکتے
یہ رنگ شفق ہے کہ لہو اہل وفا کا
کچھ داغ نظر آتے ہیں دامان سحر میں
نیا بسمل ہوں میں واقف نہیں رسم شہادت سے
بتا دے تو ہی اے ظالم تڑپنے کی ادا کیا ہے