شفیع اقبال
عروس غزل کی زیب و زینت بڑھانے اور گیسوئے غزل کو سنوارنے والے شاعروں میں مجروح سلطانپوری کا نام صف اول میں آتا ہے ۔ وہ اس طرح کہ 1945 سے مجروح نے خارجی و سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ خصوصیت سے جبر و سیاست کے پس منظر کو غزل کے کینوس پر نقش کیا جو ان کا اپنا ذاتی وطیرہ رہا ہے ۔ یہ بھی ان کی انفرادیت ہے کہ ترقی پسند تحریک کے خود بھی علمبردار ہوتے ہوئے دامن غزل کو نہیں چھوڑا بلکہ اس دامن کو اتنا وسیع کیا کہ غزل کے لب و رخسار ، گل و بلبل اور ہجر و فراق کی روایتی شاعری سے انحراف کرتے ہوئے زندگی کے داخلی و خارجی مسائل ، احساسات و جذبات اور سیاسی جبر و استبداد کو بھی شعری پیرہن دے کر غزل کو ایک نئے روپ میں پیش کیا ۔
ترقی پسندی کے عروج کے زمانے میں جبکہ ہم عصر دیگر ترقی پسند شعرا جن میں پاکستان کے فیض احمد فیض، مختار صدیقی ، مجید احمد ، یوسف ظفر اور ہندوستان کے سردار جعفری ، کیفی اعظمی ، ساحر لدھیانوی ، جاں نثار اختر ، مجاز لکھنوی ، مخدوم محی الدین ، جو ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے ، غزل سے گریز کرتے ہوئے نظم گوئی میں سبقت لے جانے میں مصروف تھے ۔ یہ بھی ہوا کہ ترقی پسندوں کی اکثریت نے غزل کو فرسودہ روایتی صنف سخن قرار دے دیا ۔ ان حالات میں اور ترقی پسند تحریک سے وابستگی کے باوجود مجروح نے اپنی ڈگر نہیں بدلی اور اسی میدان میں اپنی ہنرمندی کے وہ جوہر دکھائے کہ مخالفین غزل کی نئی صورتگری سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے بلکہ غزل کی ہمہ گیریت کا اعتراف بھی کرلیا ۔ ان ہی حالات کے پس منظر میں خود مجروح نے اپنے بارے میں لکھا ہے
’’وہ جب 1945ء سے 1950ء تک غزل دشمنی بالخصوص ترقی پسندوں میں بھی ترقی پسندوں کا لائحہ عمل غزل دشمنی نہ ہوتے ہوئے بھی اپنے عروج پر تھی ۔ اس وقت میں نے اپنے یقین کی رہبری میں غزلیں کہیں اور سیاسی و سماجی مضامین کو پہلی مرتبہ غزل میں کامیابی سے برتا اور 1950کے آخر میں جب میں جیل سے اپنی نئی غزلیں لے کر باہر آیا تو ہمارے رفیقوں کو غزل کے بارے میں نئے سرے سے رائے قائم کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور انہی دنوں پروفیسر احتشام حسین نے غزل اور اس کی تکنیک کا نئے سرے سے جائزہ لیتے ہوئے ایک مضمون بھی لکھا جس میں انہوں نے غزل سے پرامید رہنے کی تلقین کی ۔ عام طور پر غزل میں سیاسی اور سماجی مسائل کا اور خصوصاً جبر سیاست کا ذکر اس کی اپنی تمام مخصوص اشاریت اور غزلیہ طرز بیان کی اولیت کا مستحق ، لوگ فیض احمد فیض کو سمجھتے ہیں ۔ ہر چند میں فیض کو اپنا بزرگ اور پیش رو مانتا ہوں لیکن یہاں یہ کہنے سے گریز نہیں کروں گا کہ ممکن ہے ایسا پاکستان میں رہا ہو لیکن ہم ہندوستانی شاعروں اور ادیبوں کو ان دنوں یعنی 1950 کے آخر تک ان کی صرف ایک غزل کا علم ہوسکا تھا اور یہ ان کی بہت مشہور اور خوبصورت غزل ہے جس کا مطلع کا مصرعہ ہے
’’تم آئے ہو نہ شبِ انتظار گزری ہے‘‘
اگر ہمارے ملک میں ان کے کسی مخصوص دوست تک ان کی کچھ اور غزلیں پہنچی ہوں جس کا امکان کم ہی ہے تو کم از کم ہم جیسے ان غزلوں اور اشعار سے ناواقف تھے ۔ اس بات میں اصرار اس لئے کررہا ہوں کہ سیاسی مضامین برتنے کے سلسلے میں ، میں نے صرف لائق ستائش ہی اشعار نہیں کہے بلکہ افراط و تفریط کا شکار بھی ہوا ہوں ، جس کی سزا مجھے اس حد تک مل رہی ہے کہ لوگ میری اصل شاعرانہ صلاحیت کو آج بھی تسلیم کرنے میں تامل کررہے ہیں ۔ یعنی غزل کے موضوع میں پہلی بار ایک نئے موڑ کا اظہار میری شاعری میں ہوا‘‘ ۔ (فن اور شخصیت)
مجروحؔ کے اس کرب آمیز اظہار خیال سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں اس بات کا شدید احساس تھا کہ غزل کو نیا موڑ دینے میں خود انہوں نے پہل کی ہے ، لیکن اسکا سہرا فیضؔ کے سر جاتا ہے ۔ انہیں اس بات کا بھی احساس تھا کہ انہیں اردو شاعری اور ادب میں وہ مقام حاصل نہیں ہوسکا جس کے وہ مستحق تھے ۔ اگرچیکہ انہوں نے ادب میں کثیر شعری سرمایہ نہیں چھوڑا تاہم ان کا خیال یہ ہے کہ انہوں نے اردو شاعری میں غزل کی ہئیت و ماہیت میں خوشگوار تبدیلی پیدا کرکے غزل کے دامن کو جو وسعت دی ، اردو شاعری کیلئے یہی Contribution ان کو ممتاز بنانے کیلئے بہت کافی ہے ۔
مجروحؔ کے حالات زندگی کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ 1945ء میں جگر مرادآبادی کے ساتھ ایک مشاعرے میں شریک تھے ۔ ممبئی کے اس مشاعرے میں فلم ڈائرکٹر اے آر کاردار بھی شریک تھے ۔ انہوں نے جگر صاحب سے فلم ’’شاہجہاں‘‘ کے گانے لکھنے کی خواہش کی ۔ جگر صاحب نے انکار کیا اور اس فلم میں گیت لکھنے کیلئے مجروحؔ کی سفارش کی ۔ لیکن فلمی دنیا کے مشہور موسیقار نوشاد کا کہنا ہے کہ 1946 میں ریلیز ہونے والی فلم ’’شاہجہاں‘‘ کے گانے لکھنے کا موقع نوشاد نے مجروحؔ کا کلام پڑھنے کے بعد انہیں دیا تھا ۔ مجروحؔ کا لکھا ہوا پہلا گیت ’’جب دل ہی ٹوٹ گیا ، ہم جی کے کیا کریں گے‘‘ جسے سہگل نے گایا تھا ، بے حد مقبول ہوا اور اپنی پہلی فلم ہی سے مجروحؔ نے فلمی دنیا میں اپنے قدم جمالئے ۔ 1946 سے 1999 تک مجروح سلطانپوری نے سینکڑوں گیت لکھے ، جن میں بیشتر مقبول عام و خاص ہوئے ۔ ان گیتوں نے تو شائقین فلم میں دھوم مچادی ۔ ’’جھوم جھوم کے ناچوں آج گاؤ آج ۔ ٹوٹے نہ دل ٹوٹے نہ ۔ اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل ۔ کبھی آر کبھی پار لاگا تیر نظر ۔ یوں تو ہم نے لاکھ حسیں دیکھے ہیں تم سا نہیں دیکھا ۔ سر پر ٹوپی لال ہاتھ میں ریشم کا رومال ۔ اے دل ہے مشکل جینا یہاں ۔ مانا جناب نے پکارا نہیں ۔ چھوڑ دو آنچل زمانہ کیا کہے گا ۔ چاند پھر نکلا مگر تم نہ آئے ۔ آنکھوں میں کیا جی روپہلا بادل ۔ پاپا کہتے ہیں بڑا نام کرے گا ۔ جانم سمجھا کرو‘‘ تک مجروحؔ کے ڈنکے بجتے رہے ۔ اسی بناء پر مجروح نے دادا صاحب پھالکے ایوارڈ بھی حاصل کیا ۔
مجروح سلطانپوری اپنی غزل کے رسیا تھے ۔ انہوں نے غزل کی آبیاری کرکے غزل کیلئے نامساعد حالات میں بھی نہ صرف غزل کی آبرو کی حفاظت کی بلکہ غزل کو نیا رنگ و آہنگ بھی دیا ۔ انہوں نے فلمی گیتوں میں بھی غزل کی آبرو پر آنچ آنے نہ دی ۔ چونکہ وہ 1946 سے ہی فلمی دنیا سے وابستہ ہوگئے تھے اس لئے انہیں ادبی دنیا میں اپنے شعری جوہر کھل کر دکھانے کا موقع نہیں ملا ۔ اسی وجہ سے ان کی غزلوں کا ایک ہی مجموعہ ’’غزل‘‘ 1952 میں شائع ہوا اور مزید کوئی مجموعہ شائع نہ ہوسکا ۔ لیکن ایک ہی مجموعہ کے چھ ایڈیشن وقفہ وقفہ سے شائع ہوتے رہے ۔ اس وقت میرے مطالعہ میں جو مجموعہ ہے وہ ستمبر 1970 میں شائع ہوا تھا ۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مجروح نے اردو شاعری میں غزل کو ایک نیا موڑ دیا ، نئی جہت عطا کی ، عصری حسیت کے ساتھ ساتھ دلی جذبات ، احساسات اور سماجی و سیاسی مسائل کو نئے لفظیات کے ساتھ ساتھ اپنی غزلوں میں پیش کرکے غزل کو نیا اسلوب نئی زندگی بخشی ۔ ذیل میں کچھ ایسے منتخبہ اشعار پیش کررہا ہوں جس سے مجروح کا شاعرانہ وصف اور ان کی صلاحیتوں کا بہ آسانی اندازہ ہوسکے ۔
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
کس نے کہا کہ ٹوٹ گیا خنجر فرنگ
سینے پہ زخم نو بھی ہے داغ کہن کے ساتھ
مجھے سہل ہوگئیں منزلیں وہ ہوا کے رخ بھی بدل گئے
تیرا ہاتھ ہاتھ میں آگیا کہ چراغ راہ میں جل گئے
دیکھ زنداں سے پَرے رنگِ چمن ، جوشِ بہار
رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ
ہم روایات کے منکر نہیں لیکن مجروحؔ
سب کی اور سب سے جدا اپنی ڈگر ہے کہ نہیں
مجھے نہیں کسی اسلوب شاعری کی تلاش
ترے نگاہ کا جادو مرے سخن میں رہے
صحرا میں بگولا بھی ہے مجروحؔ صبا بھی
ہم سا کوئی آوارۂ عالم تو نہیں ہے
جنونِ دل نہ صرف اتنا کہ اک گل پیرہن تک
قد و گیسو سے اپنا سلسلہ دار و رسن تک ہے
دار پر چڑھ کر لگائیں نعرہ زلف صنم
سب ہمیں باہوش سمجھیں چاہے دیوانہ کہیں
ہمیں شعورِ جنوں ہے کہ جس چمن میں رہے
نگاہ بن کے حسینوں کی انجمن میں رہے
ستم! کہ تیغ قلم دیں اسے جوائے مجروحؔ
غزل کو قتل کرے ، نغمے کو شکار کرے
یہ جبر سیاست ، یہ انساں ، مظلوم آہیں ، مجبور فغاں
زخموں کی مہک ، داغوں کا دھواں مت پوچھ فضائے زنداں میں
مجھے یہ فکر سب کی پیاس اپنی پیاس ہے ساقی
تجھے یہ ضد کہ خالی ہے مرا پیمانہ برسوں سے
سرخیٔ مئے کم تھی میں نے چھولئے ساقی کے ہونٹ
سرجھکا ہے جو بھی اب اربابِ میخوانہ کہیں