مصنوعی اور مشینی عقل

ڈاکٹر مجید خاں
پشاور کے واقعے کے بعد ساری دنیا میں ایک جذباتی تہلکہ مچ گیا ہے۔ ہر طرف بچے بلا لحاظ مذہب و ملت سوگ منارہے ہیں۔ ظلم ڈھانے کی یہ ایک انتہائی مثال ہے جو ظالم دہشت گرد معصوم و نہتے بچوں کے سروں پر گولیاں چلادیئے ہیں۔ عام عقل و فہم ان واقعات کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ امریکہ سے کئی ماں باپ نفسیاتی مشوروں کیلئے دوڑے دوڑے آرہے ہیں۔ کرسمس کی تعطیلات شروع ہوئی ہیں اور بے چارے والدین امریکہ کے ماحول سے بچوں کو تھوڑے دنوں تک ہی سہی دور رکھنا چاہتے ہیں۔ سُنا ہے کہ کئی بچے اپنے والدین سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا اسی مذہب میں آپ ہماری پرورش کرنا چاہتے ہیں۔ کئی بچے تو اس تعلق سے خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں کیونکہ ان کے اسکولوں میں جو ان کی تضحیک و توہین کی جارہی ہے وہ انہیں مایوس کرتی جارہی ہے۔ گھر کے ماحول میں اور اسلامی مدرسوں میں اسلام کی عظمت کے تعلق سے جو سبق پڑھائے جارہے ہیں وہ موجودہ حالات میں ناکافی نظر آرہے ہیں۔ ان تبدیلیوں کو سمجھنے کیلئے عصری سائنسی اُبھرتے ہوئے پہلوؤں کو سمجھنا ضروری ہے۔ گوکہ اس کا تعلق راست پشاور کی دہشت گردی سے نہیں ہے مگر سڈنی کے ایک دہشت گرد بھیڑیئے کی غور و فکر سے ہے۔ ہمارے اطراف جو اس قسم کے بظاہر خاموش اور باطن میں خطرناک اور پاگل ارادوں سے بھرے ہوئے لوگوں کی پہچان وقت کی اولین ضرورت ہے۔ مسرور کے والد کو دیکھئے وہ تو عصری ٹکنالوجی کو سمجھ بھی نہیں پائیں گے مگر لڑکا انجینئرنگ پڑھنے کے بعد مصنوعی عقل کے میدان میں تیز خیالی گھوڑے بھگانے لگا تھا۔
کسی بھی طالب علم سے مصنوعی عقل کے تعلق سے سوالات کیجئے تو سوائے کمپیوٹر جاننے والوں کے دوسروں سے اُمید بھی نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس سے واقف ہوں گے گو کہ وہ بھی کمپیوٹر کا استعمال یا غلط استعمال کر رہے ہوں گے۔کمپیوٹر سے اختراع کی ہوئی اور انٹرنیٹ سے مربوط جو دنیائے معلومات کا ذخیرہ ہے، اس کی جو عقل ہے اس کو مصنوعی عقل یعنی Artificial Intelligence کہا جاتا ہے۔

بنی نوع انسان کی تاریخ میں اور سائنس و ٹکنالوجی کی دنیا میں اس سے زیادہ خطرناک ایجاد نہیں ہوئی ہے، یہ دو دھاری تلوار ہے۔ کمپیوٹر کے بغیر اب دنیا کے معمولی کاروبار بھی ممکن نہیں ہیں مگر اس کی ممکنہ تباہ کاریوں کا اندازہ لگانا بھی عقل و تعلیم کے دائرے سے باہر ہے۔ آج کل کے ناقابل یقین و دلخراش واقعات جو دنیا میں ہورہے ہیں، ان کو مصنوعی عقل کے تناظر میں دیکھنا چاہیئے۔

خود حیدرآباد میں کئی متوسط گھرانوں کے والدین ہیں جو شکایت کرتے ہیںکہ ان کا لڑکا رات بھر انٹرنیٹ پر مصروف رہتا ہے۔ اکیلا ایک نوجوان جس کا کوئی سماجی مقام نہیں ہے۔ جیسے ہی انٹرنیٹ پر سوشیل نیٹ ورک کی دنیا میں داخل ہوتا ہے تو اپنی بے پناہ دماغی طاقت کا اس کو اندازہ ہونے لگتا ہے۔ یہ حقیقی دنیا نہیں ہے بلکہ خیالی اور خوابوں کی دنیا ہے۔ چھوٹے بچے ویڈیو گیمس کھیلتے ہیں اور آہستہ آہستہ اُس کے عادی ہوتے جاتے ہیں۔ ویڈیو گیمس کی دلچسپیاں بھی بڑی خطرناک ہوتی جارہی ہیں۔ انتہائی ڈراؤنے اور ہیبت ناک قسم کے کھیل دستیاب ہورہے ہیں ان کو مسلسل دیکھتے رہنے سے بعض کمزور نوجوانوں میں اتنی مصنوعی ہمت آجاتی ہے کہ وہ اپنی خیالی دنیا کے تشدد کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے ہیں اور دہشت گردی ایک آسان موقع ان کو فراہم کرتی ہے۔ دہشت گردی بھی ایک کھیل بن گئی ہے۔ اب یہ بات مسلمہ ہوچکی ہے کہ مشینی عقل یعنی مصنوعی عقل اب قدرتی عقل کو ہیچ کرکے رکھ دی ہے۔ مشینی عقل کے مقابلے میںقدرتی عقل اشرف المخلوقات کا مقام کھورہی ہے۔ اب یہ صورتحال بدلنے والی نہیں ہے۔ اکثر ظالم لوگ جو دہشتگردی میں ملوث ہیں ان کا سرغنہ کسی نہ کسی قسم کی خطرناک پاگل پن بیماری کا شکار ہے۔
ویڈیو گیمس اور کمپیوٹر کے استعمال سے ان نوجوانوں میں خطرناک مہموں میں حصہ لینے کی جھوٹی ہمت آجاتی ہے و اور اس مشین سے حاصل کئے ہوئے نشہ سے ان میں موت کا ڈر نہیں رہتا۔ یہ لوگ عجیب قسم کا انتقام اکیلے قوموں سے لینا چاہتے ہیں اور سر پر کفن باندھ کر نکلتے ہیں۔ انہیں نہ مرنے کا ڈر، نہ مارنے کا ڈر۔ دنیا کے ان نئے پیچیدہ حالات میں مسلمانوں اور خاص طور پر تعلیم یافتہ نوجوانوں کا کیا موقف رہے گا اس کا اندازہ کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔
مگر بدلتے حالات پر کڑی نظر رکھنا ضروری ہے۔ خاص طور سے نوجوانوں پر جو خاموشی سے اپنی خیالی دنیا میں بھٹکنے لگتے ہیں، ہر دلچسپی میں اعتدال پر ہی زور دیجئے۔ ان کو ممکنہ خطرناک مستقبل کے تعلق سے واقف کراتے رہیئے۔ ممکن ہو ان کا لڑکا آپ سے زیادہ تعلیم یافتہ ہو تو آپ مگن رہیں گے کہ لڑکا مسلسل کمپیوٹر پر رات رات بھر کام کررہا ہے اور محنت کررہا ہے۔ اس کو تو دوسروں کے ساتھ بیٹھ کر کھانے کی فرصت بھی نہیں ہوتی۔ جب وہ گھر سے غائب ہوجاتا ہے اور پولیس اس کے اور اس کے کمپیوٹر کی تلاش میں آتی ہے تو آپ کو یقین نہیں ہوتا کہ یہ خطرناک لڑکا آپ کی خاموش اولاد ہے اور آپ ہی کے زیر سایہ پرورش پایا ہے۔ آپ کی آغوش میں اس کی دہشت پسندی پروان چڑھی ہے۔

آپ تو کمپیوٹر ماہر نہیں ہوں گے اس لئے اس کے کسی قریبی دوست یا رشتے کے بھائی کو اپنا ہمراز بنایئے اور اس پر خفیہ نگرانی رکھیئے۔ ابتدائی مرحلوں میں یہ مشکل مسئلہ نہیں ہوگا مگر وہ کسی خطرناک تنظیم کا رکن بن گیا ہو تو پھر مشکل ہے۔ ہر گھر میں ان موجودہ حالات میں تبصرے ہوتے رہنے چاہیئے اور خاص طور سے بزرگوں کو چاہیئے کہ خاموش نوجوانوں کو اس میں شامل کرتے رہیں۔

اسلام اور مسلمانوں کو کمپیوٹر کے خطرناک استعمال سے کافی نقصان پہنچا ہے، خاص طور سے آپ کی عظمت اور وقار کو۔ پہلے تو کمپیوٹر کی وجہ سے ساری دنیا اسلام سے متعارف ہوئی۔ اُس کے بعد مشرق وسطیٰ اور سعودی عرب کی دولت کی فراوانی سے ساری دنیا سے لوگ اس طرف رُخ کرنے لگے۔ اس کے بعد دہشت گردی کا سلسلہ شروع ہوا، اور غیر مسلموں میں اسلام کا ڈر اور خوف پیدا ہونے لگا۔ اب حالیہ واقعات جو داعش کی طرف سے ہورہے ہیں۔ عام لوگوں میں اسلام کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کررہے ہیں۔اندازہ کیجئے غیر اسلامی ممالک میں رہنے اور تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی نفسیات پر اس کا کیا اثر ہوگا، وہ سنگین غور طلب مسئلہ ہے۔

ہمارے مذہبی رہنماؤں پر ایک نئی ذمے داری آپڑی ہے۔ اپنے بچوں کو علحدگی پسندی اختیار کرنے مت دیجئے، اُنہیں دوسرے مذاہب کے لوگوں سے ملنے دیجئے تاکہ ایک دوسرے میں دوستانہ بڑھے اور ایک دوسرے پر شک کرنے اور ڈر کا ماحول ختم کرنے کی کوشش کیجئے۔
یاد رکھیئے آجکل کے حالات کی وجہ سے ایک فرد اتنا ہی خطرناک ہے جتنا کہ ایک فوج۔ مسلمانوں کے مسائل دوسرے مذاہب کے لوگوں سے مختلف اور علحدہ ہیں۔ ہم لوگ اس حد تک تو ان کو سمجھتے اور سمجھاتے ہیں مگر یہ ایک محدود عمل بن کر رہ گیا ہے۔ اس کو حالات حاضرہ کے تقاضوں کے تناظر میں سمجھنے کیلئے انگریزی میں مہارت ضروری ہے اور کمپیوٹر چونکہ روز مرہ کی زندگی کا اہم جز بن گیا ہے اس لئے دونوں میں مہارت کسی بھی عالم کیلئے ناگزیر ہے۔
کاش ! ہمارے تعلیمی ادارے پہلے خود آگے آکر طلباء کو زندگی میں محفوظ رہنے اور سرخرو ہونے کے عصری اور ضروری ہنر و گُر سکھاتے۔