مصر میں149 اسلام پسندوں کی سزائے موت کالعدم مخالف اخوان المسلمین عہدیدار فیصلہ سے مایوس

قاہرہ۔ 3 فروری (سیاست ڈاٹ کام) مصر کی ایک اپیل عدالت نے 149 اسلام پسندوں کو سنائی گئی سزائے موت کالعدم قرار دے دی ہے اور ان کے خلاف تیرہ پولیس اہلکاروں کی ہلاکتوں کے مقدمے کی دوبارہ سماعت کا حکم دیا ہے۔ مصر کی ایک فوجداری عدالت نے 2015ء میں برطرف صدر ڈاکٹر محمد مرسی کے 183 حامیوں کو مختلف اوقات میں قاہرہ کے نواح میں واقع کرادسہ میں ایک پولیس اسٹیشن پر حملے اور وہاں 13 پولیس اہلکاروں کو قتل کرنے کے الزام میں قصور وار قرار دے کر سزائے موت سنائی تھی۔ استغاثہ کے مطابق ان افراد نے کرادسہ پولیس اسٹیشن پر 14 اگست 2013ء کو دھاوا بول دیا تھا۔اسی روز قاہرہ میں برطرف صدر ڈاکٹر محمد مرسی کے حامیوں کے دو دھرنوں کے خلاف سکیورٹی فورسیس نے خونیں کریک ڈاؤن کیا تھا جس کے دوران کم سے کم 1400 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔پولیس اسٹیشن پر حملہ مصری فورسز کے اخوان المسلمین کے کارکنان کے خلاف کریک ڈاؤن کے ردعمل میں پیش آیا تھا۔ ڈاکٹر مرسی کی برطرفی کے بعد سے مصری سکیورٹی فورسیس نے ان کے حامیوں اور ان کی سابقہ جماعت اخوان المسلمون کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کیا تھا اور اس کے دوران میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 2,000 سے زیادہ سیاسی کارکنوں کو ہلاک کردیا گیا تھا اور ہزاروں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ان میں سے سیکڑوں کو تشدد کے مختلف واقعات میں ملوث ہونے کے الزامات میں پھانسی یا عمر قید کی سزائیں سنائی جاچکی ہیں۔مگر گذشتہ ایک سال کے دوران اپیل عدالت ان میں سے بیشتر سزاؤں کو کالعدم قرار دے چکی ہے اور اس نے یاتو سرے سے موت کی سزاؤں کو ختم کردیا ہے یا پھر مدعاعلیہان کیخلاف مقدمات کی دوبارہ سماعت کا حکم دیا ہے۔اس پر صدر عبدالفتاح السیسی کی حکومت میں شامل مخالف اخوان المسلمین عہدیدار بہت مایوس ہوئے ہیں کیونکہ وہ ماضی میں اسلام پسندوں کو سنائی گئی پھانسی کی سزاؤں پر عمل درآمد کیلئے اصرار کرتے رہے ہیں۔تاہم ڈاکٹر محمد مرسی کی برطرفی کے بعد سے اب تک مصر میں صرف 7 افراد کو پھانسی دی گئی ہے اور ان میں بھی 6 سخت گیر جنگجو گروپ داعش سے وابستہ تھے۔