غزہ 9 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) فسلطینی احتجاجیوں نے بینرس اور پلے کارڈس اٹھاکر غزہ پٹی میں احتجاج کیا۔ وہ پڑوسی ملک مصر میں اسلامی گروپ حماس کی سرگرمیوں پر امتناع کی مذمت کررہے تھے۔ حماس کے سینئر قائد خلیل الحیا نے کہا کہ حکومت مصر کا منگل کے دن کا حماس کی کارکردگی اور سرگرمی پر مصر میں امتناع عائد کردینے کے بارے میں مزاحمت کو مجرمانہ قرار دینے کی ایک کوشش ہے اور یہ کوشش صیہونی مملکت اسرائیل کے خلاف حماس کی جدوجہد کو کمزور کردے گی۔ حماس اپنے عوام اور اپنی سرزمین کا تحفظ کرنا چاہتی ہے اور وہ اس کام کو کبھی ترک نہیں کرے گی۔ خلیل الحیان نے غزہ سٹی میں مصری سابق نمائندگے دفتر کے باہر سینکڑوں افراد کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حماس اخوان المسلمین کی شاخ ہے۔ جسے حکومت مصر نے دہشت گرد گروپ قرار دیا ہے اور اس کو کچل دیا گیا ہے
کیونکہ اس کے کئی قائدین فوج کے برطرف عہدہ دار ہیں۔ مصر کے سابق صدر محمد مرسی جنہیں جولائی میں صدارت کے عہدے سے معذول کردیا گیا وہ بھی اخوان المسلمین کے رکن تھے۔ اپنے ایک سالہ دور اقتدار میں مرسی نے حماس کا سرخ قالین استقبال کیا تھا جس کی وجہ سے کئی سیکولر اور فراخ دل مصری برہم ہوگئے تھے کیونکہ وہ اسے 2011ء کی بغاوت کے بعد جس میں ڈکٹیٹر حسنیٰ مبارک کو معذول کردیا گیا تھا۔ اسلام پسندوں کے غلبے کی علامت سمجھتے تھے۔ فوج کے خوشآمد پسند عہدہ دار اب حماس کو نمایاں طور پر صیانت کے لئے ایک خطرہ سمجھتے ہیں اور اسلامی شورش پسندی کی تائید کرنے والوں کو الزام دیتے ہیں کہ ان کی وجہ سے محمد مرسی کا زوال تیزرفتار ہوگیا تھا۔ فلسطینی گروپ حماس ان الزامات کی سختی سے تردید کرتا ہے۔ مصر کی ایک عدالت نے مصر میں حماس کے دفاتر بند کردینے کی ہدایت دی ہے۔ ججس میں سے ایک جو مقدمہ کی سماعت کررہا تھا کل حماس کو دہشت گرد گروپ قرار دیتے دیتے رک گیا۔ اس نے کہا کہ یہ عدالت کے دائرۂ کار میں شامل نہیں ہے۔ حماس اسرائیل کے وجود کو ہی مسترد کرتا ہے۔ اس نے 2007ء میں ساحلی علاقہ غزہ پر اپنا اقتدار قائم کرلیا ہے جس کی وجہ سے مغربی حمایت یافتہ فتح تحریک کے ساتھ اس کے اختلافات میں شدت پیدا ہوگئی ہے جس کے صدر محمد عباس ہیں اور جو مغربی کنارہ میں فلسطینی علاقہ پر اپنا اقتدار رکھتا ہے۔