مشکل بہت پڑے گی برابر کی چوٹ ہے

محمد مصطفی علی سروری
اس سال جنوری کی 7 تاریخ کو ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سورو گنگولی کی ماں کو کوریئر کے ذریعہ ایک خط ملتا ہے ، خط میں گنگولی کی ماں کو زیڈ عالم نام کے ایک شخص نے دھمکی دی کہ اگر گنگولی ودیا ساگر یونیورسٹی کے پروگرام میں جو 19 تاریخ کو ہونے والا ہے، شرکت کریں گے تو ان کو جان سے ماردیا جائے گا ۔ گنگولی کو ملنے والی اس دھمکی کا کولکتہ پولیس نے سخت نوٹ لیا اور باضابطہ طور پر تحقیقات شروع کردی ۔ کوریئر کہاں سے بھیجا گیا ، وہاں سے پتہ لگایا گیا ۔ دیگر لوگوں سے پوچھ تاچھ کی گئی اور چھ دن بعد 13 جنوری کو مغربی بنگال کے ہی مدنا پور کے علاقے سے ایک شخص کو دھمکی پر مبنی خط بھیجنے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا ۔ پولیس کے حوالے سے ہندوستان ٹائمز نے 14 جنوری 2017 ء کو تفصیلی رپو رٹ شائع کی جس کے مطابق سورو گنگولی کو جان سے ما رنے کی دھمکی دینے والا شخص زیڈ عالم نہیں بلکہ اس کا نام نرملا سمانتا ہے جس کی مقامی ایم  ایل اے اشیش چکربورتی کے ساتھ دشمنی ہے ۔ جب نرملا کو پتہ چلا کہ ودیا ساگر یونیورسٹی میں 19 جنوری کے پروگرام میں ایم ایل اے سورو گنگولی کو بھی بلا رہا ہے تو نرملا نے ایم ایل اے کے پروگرام کو درہم برہم کرنے کا منصوبہ بنایا اس کیلئے اس نے گنگولی کو ایک دھمکی بھرا خط بھیجا اور اپنی دھمکی کو موثر بنانے کیلئے ایک مسلم نام کا استعمال کیا ۔ قارئین اکرام غور کرنے کی بات ہے کہ مسلمان آج کل کسی کیلئے بھی بالکل ایک تر نوالہ بن گئے ہیں اور تشویش کا خطرناک پہلو تو یہ ہے کہ کسی کو بھی دھمکانے ڈرانے مسلمان کا نام لیا جانے لگا ہے ۔
مسلمانوں کے نام کا شرپسندوں کی جانب سے استعمال کرنے کے واقعات میں جس تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے ، وہ صرف مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ پولیس اور سیکوریٹی فورسس کیلئے بھی ایک بہت بڑا چیالنج بن گیا ہے ۔ایک اور واقعہ مارچ 2017 ء کا ہے ۔ احمد آباد گجرات کے ایک سائنٹسٹ ڈاکٹر مکیش شکلا نے پولیس میں شکایت درج کروائی کہ انہیں انٹرنیشنل دہشت گرد تنظیم (ISIS) کی جانب سے دھمکی دی گئی ہے کہ وہ اپنی ریسرچ کا سارا ڈاٹا انہیں دے دیں اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں ان کو جان سے مار ڈالا جائے گا۔ اس دھمکی کے بعد ڈاکٹر شکلا پر ایک حملہ بھی ہوتاہے ۔
انڈین اکسپریس اخبار نے 28 اپریل 2017 ء کو ڈاکٹر مکیش شکلا کو ملنے والی دھمکی اور ان پر حملے کے متعلق تفصیلی رپورٹ شائع کی جس کے مطابق ڈاکٹر مکیش شکلا دراصل گزشتہ 28 برسوں سے موذی مرض ایڈس (Aids) پر ریسرچ کر رہے ہیں لیکن ان کی ریسرچ پر کوئی یقین نہیں کر رہا ہے اور توجہ نہیں دے رہا ہے تب انہوں نے حکومت اور میڈیا کی توجہ خود پر مبذول کروانے کیلئے ISIS کی جانب سے عربی زبان میں ایک دھمکی بھرا خط ملنے کی شکایت کی پولیس کے حوالے سے رپورٹ میں لکھا ہے کہ یہ خط دراصل خود مسٹر شکلا نے ہی لکھا اور پھر Google کی مدد سے اس خط کا عربی زبان میں ترجمہ کیا تاکہ سب کو یقین ہوجائے کہ دھمکی واقعی ISIS کی جانب سے ملی ہو۔ قارئین اس بات کو نوٹ کریں کہ اب دنیا بھر میں ISIS کے حوالے سے لوگ جاننے لگے ہیں کہ یہ لوگ عربی زبان استعمال کرتے ہیں ۔ مسٹر شکلا نے بھی اپنے ڈرامہ میں اصلی رنگ بھرنے کیلئے عربی میں دھمکی تیار کرلی ۔ پولیس کے روبرو شکلا کے اقبالی بیان کے متعلق انڈین اکسپریس نے لکھا کہ ’’ایڈس کے علاج کے بارے میں وہ گزشتہ 28 برسوں سے تحقیق کر رہے ہیں لیکن کسی نے بھی ان کی ریسرچ پر توجہ نہیں دی ،’ اس لئے انہوں نے یہ سارا ڈرامہ تیار کیا تھا ۔ پولیس کے اعلیٰ عہدیدار کے حوالے سے اخبار نے مزید لکھا کہ احمد آباد پولیس کی کرائم برانچ نے اس سارے معاملے میں تحقیقات کرنے کے بعد ISIS کی دھمکی فرضی ہونے کا معاملہ حل کرلیا لیکن پولیس نے مسٹر شکلا کو گرفتار نہیںکیا ، پولیس کے مطابق مسٹر شکلا کی عمر 60 برس سے زائد ہے اور وہ بیمار بھی ہیں۔ شائد پولیس کے نزدیک یہ کوئی سنگین جرم نہیں یا کوئی اور بات وہ یہ تو احمد آباد پو لیس ہی بہتر جانتی ہے لیکن ملک میں مسلمانوں کیلئے حالات کس قدر تکلیف دہ بن گئے ہیں، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ کوئی بھی کہیں بھی اور کبھی بھی کسی بھی واقعہ میں مسلمانوں کو پھنسا سکتا ہے ۔ 24 مئی  2017 ء کو دی ہند اخبار کے ممبئی ایڈیشن میں کیرالا کے مدرسے کے چھ بچوں کے متعلق ایک خبرشائع ہو ئی ۔

تفصیلات کے مطابق 22 مئی کو گورنمنٹ ریلوے پولیس اور ممبئی ATS نے ممبئی کی ایک سب اربن ٹرین میں سفر کرنے والے چھ مسلمان بچوں کو پکڑ لیا ۔ ان بچوں کی گرفتاری اس وقت عمل میں آئی جب اسی ٹرین میں سفرکرنے والے ایک مسافر نے پولیس کو اطلاع دی کہ اس نے مدرسے کے چھ بچوںکواپنے فون پر "Bomb” کے بارے میں Message  دیتے ہوئے دیکھا ہے ۔ بس کیا تھا اگلے اسٹیشن پر ریلوے پولیس اور  اے ٹی ایس والوں نے ان چھ بچوں کو ٹرین سے اتار کر اپنی تحویل میں لے لیا ۔ دو دنوں کے دوران پولیس نے بچوں سے جو پوچھ تاچھ کی اور ان کے سامان تلاشی لی تو پتہ چلا کہ کیرالا کے یہ بچے مدرسے میں پڑھتے ہیں اور ان لوگوں نے ممبئی پہونچنے کے بعد واٹس اپ پر کسی کو پیغام دیا کہ ہم ممبئی پہونچ چکے ہیں ۔ انگریزی میں ان طلباء نے لکھا کہ Reach Bomb بس کیا تھا ساتھ میں سفر کرنے والے مسافر کیسی عقابی نظر رکھتے ہیں ، اس کااندازہ لگایئے کہ مدرسے کے بچے اپنے فون پر کیا لکھتے ہیں ، اس پر بھی نظر رہتی ہے اور یوں طالب علم کا Bombay کے بجائے Bomb لکھنا ستم ہوگیا ۔اگلے اسٹیشن پران چھ بچوں کو ٹرین سے اتار لیا گیا اور پھر پوچھ تاچھ کی گئی ۔ ان کے مدرسے کے ذمہ داروں سے بات کر کے تصدیق کی گئی ، ان کے سامان کی تلاشی لی گئی اور جب پولیس کو اطمینان ہوا تب ہی انہیں چھوڑا گیا۔ ان واقعات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کیلئے حالات کس قدر سنگین ہوتے جارہے ہیں ۔ کیا مسلمان ان واقعات سے کچھ ہوش کے ناخن لیں گے یا سب چلتا ہے کہہ کر آگے بڑھ جائیں گے ۔ پولیس اور سیکوریٹی ایجنسیوں ہی نہیں بلکہ اب تو ہر کس و ناکس کی ذرا سی شکایت کافی ہے ، کوئی بھی مسلمان کو دہشت گرد ماننے تیار ہوجاتا ہے اور عوام کا ذہن میڈیا نے اس قدر پراگندہ کردیا ہے کہ وہ بھی اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے اپنی ضرورت کے حساب سے مسلمان کا نام استعمال کر رہے ہیں۔
اترپردیش کے شہر رامپور میں تقریباً ایک درجن افراد کی جانب سے سر راہ دو لڑکیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور بدسلوکی کی ۔ ایک ویڈیو جب سوشیل میڈیا پر عام ہوئی تو ہم مسلمانوں نے اپنا سینہ ٹھوک کر یو پی کے وزیر اعلیٰ پر طنز کیا کہ یوگی کے راج میں یوپی میں لاء اینڈ آرڈ ٹھپ ہوگیا ہے ۔ یوگی کو صرف گائے کے تحفظ کی فکر ہے ۔ یو پی کی بیٹیاں اپنی عزت و ناموس خطرہ میں محسوس کر رہی ہیں۔ کرنے کو تو ہم نے اترپردیش کے وزیر اعلیٰ کو برے القاب سے یاد کیا اور انہیں شرمندہ کرنے اپنی آواز ا ٹھائی اور بڑے فخر سے رامپور کی لڑکیوں کو ہراساں کرنے کی ویڈیو کو سب کو دیکھنے کی دعوت دے ڈالی۔
لیکن دو دنوں میں ہی ہمارا سر شرم سے جھک گیا اور ہم اب یہ سوچ کر پریشان تھے کاش رامپور کی ان دو لڑکیوں کا ویڈیو ہمیں دوسروں کو نہیں بتلانا چاہئے تھا اور ہمیں ویڈیو ایک مرتبہ ٹھنڈے دل سے غور سے دیکھ ہی تو لینا چاہئے تھا ۔ ویڈیو میں 14 نوجوان ، دو لڑکیوں کے ساتھ بدسلوکی کررہے ہیں تو اس ویڈیو میں لڑکوں کے ساتھ ایک لڑکا ٹوپی کرتا پائجامہ پہنے ہوئے ساتھ تماشہ دیکھ رہا تھا ۔ خیر سے 29 مئی 2017 ء کو اخبار TOI نے پولیس کے حوالے سے خبر دی کہ رامپور میں لڑکیوں کے ساتھ ہراسانی اور بدسلوکی کرنے والا اصل نوجوان شاہنواز تھا اور باقی کے نوجوان بھی جن کے نام پولیس نے بتلائے  مسلمانوں کے ہیں۔ پہلے ہی مسلمانوں کو اپنی سیکوریٹی اور جان و مال کے تحفظ کو لیکر خدشات کا سامنا ہے اس پس منظر میں مسلم نوجوانوں کی ایسی حرکات کیا خوش آئند ہوگی ہرگز نہیں ۔ میں سوچنے لگا ہوں کہ مجھے اپنی توانائیاں اور اپنی صلاحیتیں اپنی صفوں کو درست کرنے میں صرف کرنی ہوگی ۔ میں کیسے اس بات کو بھلادوں کہ دہلی کے بدنام زمانہ عصمت ریزی کے نربھئے معاملے کے بعد میں بڑے زور سے وکالت کرتا تھا کہ اگر ہندوستان میں عصمت ریزی کے مجرمین کواسلامی سزائیں دینی شروع کیا جائے تو ملک میں خواتین کی عصمت محفوظ ہوجائے گی مگر 16 ڈسمبر 2016 ء کی ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ پڑھنے کے بعد پتہ چلا کہ عصمت ریزی کے مجرمین میں جو نابالغ لڑکا تھا وہ کوئی اور نہیں ایک مسلمان ہی تھا جو لوگ مودی سے لڑنا چاہتے ہیں ، لڑیں جو لوگ یوگی سے لڑنا چاہتے ہیں ضرور لڑیں مگر اپنی ہی صفوں کو درست کرنے اور اللہ رب العزت سے اپنے آپ کو رجوع کرنے کا کام بھی بڑا اہم ہے ۔ آپ کونسا کام کر رہے ہیں۔ ذرا سوچئے گا ۔ کسی کوگالی دے کر کسی کو برا کہہ کر اطمینان  کرنے سے مسائل حل ہونے والے نہیں ہے ۔ ہم کم سے کم اپنے اپنے گھر کی ذمہ داری قبول کریں تو صحیح شروعات ہوسکتی ہے۔ اللہ ہم سب کو نیک توفیق دے۔ بقول شاعر
مشکل بہت پڑے گی برابر کی چوٹ ہے
آئینہ دیکھیئے گا ذرا دیکھ بھال کے
sarwari829@yahoo.com