مولانا سید احمد ومیض ندوی
اسلام میں اولاد کی تربیت انتہائی اہمیت کی حامل ہے، آئندہ نسلوں میں دین وایمان کی بقائ، تربیت اولاد پر موقوف ہے، ہر مسلمان جہاں خود دین پر عمل کا پابند ہے، وہیں اپنے ماتحتوں کی دینی تربیت کا بھی ذمہ دار ہے، ماتحتوں میں سب سے زیادہ قربت رکھنے والی خود اس کی اولاد ہوتی ہے، اولاد چوں کہ انسان کے وجود کا ایک حصہ ہوتی ہے، اس لیے آدمی کو سب سے زیادہ اولاد کے ساتھ محبت وہمدردی ہوتی ہے، وہ اولاد کے لیے ہر قسم کی مشقتیں برداشت کرتا ہے، اولاد کے ساتھ حقیقی ہمدردی یہ ہے کہ اس کی صحیح دینی تربیت کا اہتمام کیا جائے، قرآن مجید میں اہل ایمان کو واضح طور پر حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور آپنی آل واولادکو جہنم کی آگ سے بچائیں(التحریم: ۶)
اولاد کی دینی تربیت اور ذہن سازی میں دو طرح کے لوگوں کا اہم کردار ہوتا ہے، ایک والدین، دوسرے اسکول میں تعلیم دینے والے اساتذہ، گھر سب سے پہلی تربیت گاہ ہے، ماں کی گود کو بچوں کا پہلا مدرسہ کہا گیا، ماں باپ جس ذہنیت اور جس فکر کے حامل ہوں گے، اولاد پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے، والدین کی دین داری اور بے دینی اولاد پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے، چنانچہ حدیث میں فرمایا گیا: ’’کل مولد یولد علی الفطرۃ إلا أن أبویہ یہودانہ أو بمجسانہ أو ینصر انہ‘‘ (ترمذی) ہر پیدا ہونے والا بچہ (چاہے کسی بھی مذہب کے پیروکار ہو ماں باپ سے پیدا ہو) فطرت ِاسلام یعنی قبول اسلام کی استعداد پر پیدا ہوتا ہے، مگر بعد میں گھریلو تربیت کے ذریعہ ماں باپ یہودی ہوں تو اسے یہودی تربیت کے ذریعہ یہودی بنادیتے ہیں، نصرانی ہوں تو نصرانی بنادیتے ہیں اور مجوسی ہوں تو مجوسی تربیت دے کر اسے مجوسی بنادیتے ہیں، اس حدیث میں ماں باپ کی تربیتی تاثیر کو موثر پیرائے میں بیان کیا گیا ہے، یہی نہیں بلکہ دورانِ حمل ماں کی سوچ کے بھی بچہ پر اچھے یا برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس لیے دورانِ حمل ماں کو نیک لوگوں کے واقعات پڑھنے، اللہ کی قدرت کی نشانیوں پر غور کرنے اور سیرت نبی ا کی مطالعہ کی تلقین کی جاتی ہے، ماں باپ کی سوچ کے بچے پر حیاتیاتی اثرات پڑتے ہیں، ماں کی جتنی اچھی سوچ ہوگی پیٹ میں بچے کی نشو ونما پر اس کا اتنا ہی اچھا اثر ہوگا بلکہ ماں اگر کسی نیک ماڈل کو ذہن میں رکھے اور بار بار سوچتی رہے اور دعا کا اہتمام کرے تو بچے پر اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں، اولاد پر ماں باپ کی حلال وحرام کمائی کے تک اثرات مرتب ہوتے ہیں، دورانِ حمل حرام لقموں کا پیٹ میں جانا، ہونے والی اولاد پر غلط اثرات چھوڑ تا ہے، اولاد کی دینی تربیت والدین کی دینداری کے بغیر ممکن نہیں ہے، بے دین ماں باپ کی گود میں پلنے والی اولاد بھی بے دین ہوگی، تربیت اولاد کی اسی اہمیت کے پیش نظر شریعت میں تاکید ہے کہ آدمی اپنے لیے نیک بیوی کا انتخاب کرے اور رشتوں کے انتخاب میں دین کو اولین ترجیح دے۔
بچوں کی تربیت کی دوسری اہم تربیت گاہ اسکولوں اور تعلیم گاہوں کے اساتذہ اور ٹیچرس ہیں، بچے سب سے پہلے والدین کی تربیت کو جذب کرتے ہیں، دوسرے نمبر پر اساتذہ بچوں پر اثر انداز ہوتے ہیں، بلکہ عمر کے ایک مرحلہ میںداخل ہونے کے بعد بچوں پر سب سے زیادہ اساتذہ اور اسکولوں کا ماحول اثر انداز ہوتا ہے، اس لیے بچپن کی تعلیم کو پتھر کی لکیر سے تعبیر کیا جاتا ہے، اساتذہ اور ٹیچرس بچوں میں صرف متعلقہ مضامین منتقل نہیں کرتے بلکہ وہ اپنی فکر، ذہنیت اور سوچ بھی منتقل کرتے ہیں، اساتذہ اور ٹیچرس جس فکر اور ذہنیت کے حامل ہوں گے لا محالہ ان سے تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کا بھی وہی ذہن بنے گا، تعلیم صرف فن کی منتقلی کا نام نہیں ہے بلکہ وہ در اصل ذہن کی تشکیل اور فکری سانچے میں ڈھالنے والا عمل ہے، تدریس پر مامور اساتذہ اگر دین دار مسلمان ہوں اور دینی فکر کے حامل ہوں تو ان سے علم حاصل کرنے والے بچوں میں بھی اسلامی مزاج پیدا ہوگا، اس کے بر خلاف اگر مسلمان بچے ایسے عیسائی اساتذہ یا ٹیچر سے تعلیم حاصل کریں جونہ صرف عیسائی ہوں بلکہ ان کے ذہن اسلام اور اسلامی تعلیمات کے خلاف شدید بغض وعناد سے بھرے ہوئے ہوں تو لا محالہ ایسے اساتذہ یا ٹیچرس سے تعلیم پانے والے مسلمان بچے بھی اسلام کے بارے میں طرح طرح کے شکوک وشبہات میں مبتلا ہوں گے، ان کا اسلام سے رشتہ صرف نام کا رہ جائے گا، تعلیم کے دوران ان کی کچھ انداز سے تربیت کی جائے گی کہ وہ مغربی تہذیب کے دلدادہ اسلامی تہذیب سے متنفر ہوجائیں گے، کانوینٹ اسکول عیسائی مشنریوں کے وہ ہتھیار ہیں جن کے ذریعہ مشنریاں عیسائیت کا جال پھیلا رہی ہیں، ہم جانتے ہیں کہ تعلیم عیسائی مشنریوں کی تبلیغی سرگرمیوں کا ایک اہم حصہ ہے، یہ مشنریاں دنیا بھر میں عیسائی کلچر کو عام کرنے بالخصوص مسلم خاندانوں میں اسلامی تشخص کے خاتمہ کے لیے تعلیم کا حربہ استعمال کرتی ہیں، ایک رپورٹ کے مطابق ۹۸ ہزار ۷۲۰؍ سے زائد مشنری اسکول ہیں، جہاں مسلم بچوں کا برین واش کیا جاتا ہے، ایک عرب مصنف کے بیان کردہ اعداد وشمار کے مطابق اس وقت ۵۰؍ لاکھ سے زائد عیسائی مبلغین دنیا کے مختلف علاقوں میں عیسائیت کی ترویج واشاعت میں مصروف ہیں، ذرائع ابلاغ کی مدد سے منعقد ہونے والی کانفرنسوں میں جو حکمت عملی عیسائی مشنریوں نے طے کی تھی اسے وییکن سٹی کی ایک مجلس نے اپنے اعلامیے میں شائع کیا ہے، اسے اعلامیے میں جہاں عیسائی مبلغین کو میڈیا کے تمام ذرائع کے استعمال پر زور دیا گیا وہیں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ ایسے اسکولس، کالج اور یونیورسٹیان قائم کی جائیں جہاں طلبہ کی تربیت اور ذہنی نشو نما کلیسا کی تعلیمات کے مطابق ہو، تعلیم کے ذریعہ عیسائی مشنریوں کی مہم کا بنیادی مقصد مسلمان بچوں کو عیسائی بنانا نہیں ہوتا بلکہ ان کی ایسی ذہن سازی مقصود ہوتی ہے کہ مسلمان بچے اگر عیسائی نہ بنیں توکم از کم مسلمان بھی نہ رہیں اور اسلام کے تعلق سے بے اعتمادی کا شکار ہوجائیں، چنانچہ اس کی تائید مشہور مبلغ زوئمر کے ان الفاظ سے ہوتی ہے جو اس نے ۱۹۳۲ء میں القدس میں منعقدہ ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کئے تھے، اس نے کہا کہ ہم اگر مسلمانوں کو عیسائی نہ بھی بناسکیں تو اتنا ضرور کریں کہ ان کو اسلام سے نکال دیں اور اس کا طریقہ یہی ہے کہ ان کے دلوں میں اسلام کے عقائد کے بارے میں شکوک وشبہات ڈال دیں، اس وقت پوری دنیا اوربالخصوص مسلم ممالک میں بڑی چالاکی کے ساتھ ان مشنریوں نے اپنے تعلیمی اداروں کا جال پھیلادیا ہے،ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں عیسائی اسکولوں اور اداروں میں سب سے زیادہ مسلمان طلبہ زیر تعلیم ہیں، چنا نچہ کہا گیا ہے کہ عیسائی اسکولوں میں زیر تعلیم مسلم طلبہ کی تعداد ۳۱۰۰ ؍ ملین ہے۔
عیسائیت سے قریب کرنے اور اسلام کے تعلق سے شبہات میں مبتلا کرنے کے بنیادی مقصد کے پیش نظر چلائے جارہے مشنری اسکولوں اور کالجوں میں پڑھانے والے اساتذہ اور ٹیچرس انتہائی تربیت یافتہ ہوتے ہیں، وہ جہاں تعلیمی قابلیت کے حامل ہوتے ہیں، وہیں ذہن ومزاج کے اعتبار سے اسلام کے خلاف شدید تعصب بھی رکھتے ہیں، ان کی رگ رگ میں اسلام دشمنی پیوست رہتی ہے، ان میں بیشتر وہ ہوتے ہیں جو اپنی اسلام دشمنی کا برملا اظہار کیے بغیر میٹھے زہر کا کام کرتے ہیں اور بعضوں کی اسلام دشمنی اس قدر شدت کرجاتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی شکل میں ظاہر ہوکر رہتی ہے، گذشتہ سالوں مہدی پٹنم میں واقع عیسائی سینٹ اینس ویمن کالج میں ایک خاتون لکچرر نے اسلام پیغمبر اسلام اور قرآن مجید کے تعلق سے جس قسم کی زہر افشانی کی ہے، وہ اس کا کھلا ثبوت ہے، جس کالج میں تین ہزار سے زائد مسلم طالبات زیر تعلیم ہوں وہاں کی ایک لکچرر کا یہ اقدام صاف بتاتا ہے کہ مشنری اسکولوں اور کالجوں میں مسلم طلبہ کی اسلام کے خلاف اس قسم کی ذہن سازی عام ہے، بتایا گیا ہے کہ مذکورہ خاتون لکچرر کا یہ اقدام کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ وہ اس سے قبل بھی کئی بار اس قسم کی حرکت کرچکی ہے، حیرت اس پر نہیں کہ ایک عیسائی لکچرر نے اسلام کے خلاف زہر اگلا اور قرآن اور پیغمبر اسلام پر کیچڑ اچھالا، حیرت ان مسلم والدین پر ہے جو سب کچھ جانتے ہوئے اپنے نونہالوں کی معیاری تعلیم کے لیے عیسائی مشنریوں کے تحت چلنے والے اسکولوں اور کالجوں ہی کا انتخاب کرتے ہیں، کانوینٹ اسکولوں میں ابتدائی جماعتوں میں پڑھنے والے مسلمان بچوں کی اسلام کے خلاف کی جانے والی ذہن سازی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، ہر تعلیم یافتہ مسلمان اس حقیقت کو جانتا ہے کہ اس قسم کے اسکولوں میں منظم انداز سے مسلمان بچوں کو عیسائی روایات کا پابند بنایا جاتا ہے، بلکہ عملی مشق بھی کرائی جاتی ہے، اس کے باوجود اپنے بچوں کو ان اسکولوں کے حوالے کرکے مطمئن ہوجانا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ہمیں دین وایمان سے زیادہ دنیا کی دولت اور خوشحالی عزیز ہے، ہمارا مطمحِ نظر صرف مرفہ الحالی بن کر رہ گیا، چاہے اس کے بدلے دین وایمان کی متاع کیوں نہ لٹ جائے، جب کہ ایک حقیقی مسلمان کی شان یہ ہوتی ہے کہ وہ سب کچھ مٹادینے پر آمادہ ہوسکتا ہے، لیکن متاع ایمان کا سودا کرنے پر کسی قیمت پر آمادہ نہیں ہوسکتا، مفکر ِاسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے ایک موقع پر اس موضوع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’اس آدھی رات کو جس میں دعائیں قبول ہوتی ہیں او رجس میں جھوٹ بولنے والا جھوٹ بولنے سے ڈرتا اور پناہ مانگتا ہے، میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جس دن آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ آپ کو ایمان سب سے بڑھ کر عزیز ہے، ایمان کے بغیر بچوں کا جینا آپ کو مطلوب نہیں، اس وقت سے آپ کے حالات میں تبدیلی آجائے گی اور مشکلات کے پہاڑ اللہ کے حکم سے ہٹ جائیں گے، ایمان وعقیدہ کے تحفظ کے بغیر اور اس بات کے اطمینان کے بغیر ہماری آئندہ نسل بھی مسلمان رہے گی، ہم ایک منٹ بھی زندہ رہنا نہیں چاہتے اور یہ تحفظ اور یہ انتظام ہمارے لیے پانی اور بجلی کی سپلائی، راشن کی دکان، حفظان صحت اور علاج کی سہولتوں اور جان ومال کی حفاظت سے بھی زیادہ عزیز ہے‘‘۔
جب ہندوستان میں اسکولوں میں وندے ماترم کے لزوم کا مسئلہ پیدا ہوا تھا تو مولانا علی میاں ندویؒ نے صاف الفاظ میں کہا تھا کہ ’’ہم اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیں گے، ہمارے بچوں کا جاہل رہنا گوارہ ہے مگر ہم اپنے ایمان کا سودا کرتے ہوئے ایسی تعلیم سے ہرگز بہرہ ور نہیں کریں گے، حیرت ہے اس وقت شہر حیدرآباد میں مسلمانوں کی تیسری نسل ان اداروں میں تربیت پارہی ہے، سینٹ اینس کالج میں پیش آیا واقعہ اتفاقی حادثہ نہیں ہے بلکہ عیسائی مشنریاں وقفہ وقفہ سے پرکھنا چاہتی ہیں کہ مسلم طلبہ وطالبات پر ان کی تعلیم وتربیت کس قدر اثر کررہی ہے۔
عصری تعلیم کی اہمیت ایک مسلمہ حقیقت ہے جس سے انکار کی گنجائش نہیں، لیکن ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے اپنے بچوں کے دین وایمان کا تحفظ ہمارا اولین فریضہ ہے، یا تو ہم ایسے اسکولوں کا انتخاب کریں جہاں معیاری تعلیم بھی حاصل ہوتی ہو اور ہمارے نونہالوں کا دین وایمان بھی محفوظ رہتا ہو، یا پھر مشنری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے مسلمان بچوں کے لیے مکمل دینی تربیت کا نظم کیا جائے اور اسکولوں میں ان کی کس قسم کی تربیت کی جارہی ہے، اس پر کڑی نظر رکھی جائے، یا پھر خود مسلمان معیاری تعلیم کے اسکول قائم کریں جہاں تعلیم کے معیار کے ساتھ دینی ماحول اور تربیت کا بھر پور التزام کیا جائے۔