مشفق خواجہ عرف خواجہ ادیب نواز

مجتبیٰ حسین
برادرم ڈاکٹر خلیق انجم نے مجھ سے چند گھنٹوں کے نوٹس پر یہ مضمون لکھوایا ہے (جیسا کہ ان کی عادت ہے) مشفق خواجہ جیسی تفصیلی شخصیت ایک سیر حاصل مضمون کی طلبگار تھی ۔ مگر کیا کیا جائے پھر وہی ڈاکٹر خلیق انجم ،پتہ نہیں اس مضمون میں مشفق خواجہ اور کسی حد تک خود ڈاکٹر خلیق انجم کے ساتھ انصاف بھی ہوسکا ہے یا نہیں ۔ ویسے ان دونوں محقق حضرات کو انصاف کی چنداں ضرورت بھی نہیں ہے کیوں کہ ہر دو حضرات خود اب عدل کی کرسیوں پر براجمان ہیں اور آئے دن ادب کے فیصلے صادر کرتے رہتے ہیں۔ مجھے اعتراف ہے کہ مشفق خواجہ اس مضمون سے کہیں زیادہ بہتر مضمون کے حقدار تھے لیکن کیا کیا جائے پھر وہی ڈاکٹر خلیق انجم !(مجتبیٰ حسین)
مشفق خواجہ سے میری ملاقات یہی جمعہ جمعہ آٹھ دنوں کی ہے ۔ ان سے پہلے کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی ، اس کی بظاہر ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ کبھی ہندوستان نہیں آئے اور میں کبھی پاکستان نہیں گیا ۔ دنیا کے جن جن ملکوں میں جب جب میں گیا تب تب یہ وہاں بھی موجود نہیں تھے ۔ ملاقات ہوتی تو کہاں ہوتی۔ ان سے کبھی خط و کتابت بھی نہیں رہی کیوں کہ میں اس خط و کتابت کے انجام سے آگاہ تھا یعنی میں جانتا تھا کہ خط وہ لکھیں گے اور میں صرف کتابت کرتا رہ جاؤں گا ۔ بظاہر اس بے تعلقی کے باوجود میں مشفق خواجہ کو اتنا ہی جانتا ہوں جتنا کہ دوملکوں میں بٹے ہوئے ایک ہی زبان کے دو ادیبوں کو ایمانداری کے ساتھ جاننا چاہئے (بشرطیکہ ادیبوں میں اور وہ بھی اردو کے ادیبوں میں ایمانداری ہوتی ہو) ۔

مشفق خواجہ محقق ہیں ، شاعر ہیں ،نقاد ہیں ، صحافی ہیں ، کالم نگار ہیں ، مزاح نگار ہیں (بس بس اتنا تعارف کافی ہے ، ہونے کو وہ اور بھی بہت کچھ ہیں مگر میں انھیں مزاح نگار پر ہی روکنا چاہتا ہوں اور انھیں رُکنا بھی یہیں چاہئے) انھیں دیکھ کر وہ مصرعہ یاد آتا ہے کہ ؎کس چیز کی کمی ہے خواجہ تری گلی میں ، تخصیص کے اس عوامی دور میں ایک آدمی اتنی سمتوں اور جہتوں میں پھیلا ہوا ہو یہ خود کوئی اچھی اور نارمل بات نہیں ہے ۔ وفاداری بشرط استواری بھی تو آخر کوئی چیز ہے ۔ ہمارے ہاں ادب میں یہ اچھی بات ہے کہ ایک آدمی شاعر ہے تو زندگی بھر شاعر ہی بنا رہتا ہے کوئی اورکام نہیں کرتا ۔ (یوں بھی شاعری کرنے کے بعد وہ کسی کام کارہ بھی کہاں جاتا ہے) پھر اس میں بھی اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ اس کا شعری سرمایہ دوچار نمائندہ غزلوں اور نظموں سے آگے نہ بڑھنے پائے ۔ افسانہ نگار ہے تو زندگی بھر دل بیقرار کا افسانہ ہی لکھتا رہ جاتا ہے ۔ یہ اچھی بات بھی ہے ، اس سے افسانہ نگار کے دل کو قرار تو آہی جاتا ہے ۔ اوپر سے ادب کے قارئین کو یک گونہ اطمینان یہ بھی حاصل ہوجاتا ہے کہ اب ادب کی کسی دوسری صنف میں ٹانگ نہیں اڑائے گا اور یوں آدمی کی پہچان بھی متعین ہوجاتی ہے ۔ ادب میں اہمیت ادب کی نہیں ادیب کی شناخت کی ہوتی ہے ۔ مشفق خواجہ نے اپنی شناخت کو دانستہ یانادانستہ طور پر اتنا گڈمڈ کردیا ہے کہ کبھی ان کی تحقیق پر ہنسی آجاتی ہے اور کبھی ان کی مزاح نگاری پر خواہ مخواہ سنجیدہ ہونے کو جی چاہتا ہے ۔

میں شخصی طور پر مشفق خواجہ کو ان کی مزاح نگاری کی وجہ سے پسند کرتا ہوں ۔ یہ اور بات ہے کہ وہ مزاح نگاری کو اپنے لئے ذریعہ عزت نہیں سمجھتے ۔ اس لئے مزاح نگاری کو اپنے فرضی نام کے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔ نہ جانے کیا بات ہے کہ اپنے اصلی نام سے مزاح لکھتے ہوئے انھیں لاج سی آتی ہے ، حالانکہ مشفق خواجہ کی مزاح نگاری کی خوبی یہ ہے کہ وہ مجھ جیسے نرے مزاح نگار کوبھی محقق بننے پر مجبور کردیتی ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ تین چار برس پہلے پاکستان کے روزنامہ ’’جسارت‘‘ میں ایک طنزیہ کالم چھپا تھا جس میں پاکستان کے ایک شاعر کے بارے میں (جو کبھی غلطی سے حیدرآباد میں مقیم تھے) میرے لکھے ہوئے تاثرات یاتعصبات (جو کچھ بھی آپ سمجھیں) درج تھے ، مجھے کسی نے اس کی اطلاع دی تو یقین نہ آیا کیوں کہ میں نے آج تک پاکستان میں چھپنے کے لئے اپنی کوئی چیز کسی رسالے یا اخبار کو نہیں بھیجی ۔ ’جسارت‘ میں اس طنزیہ کالم کو دیکھا تو شاعر موصوف کے بارے میں اپنے تاثرات یا تعصبات تو پس منظر میں چلے گئے ، البتہ اس کالم کی روانی ، شگفتگی اور بے ساختگی مجھ پر غالب آگئی ۔ اس کالم کے لکھنے والے کا نام تھا خامہ بگوش ۔ ظاہر ہے کہ یہ فرضی نام تھا ۔ بہت دن سوچتا رہا کہ یہ خامہ بگوش کون ہوسکتا ہے ۔ پاکستان کے بہت سے بڑے ادیبوں کا خیال آیا کہ شاید فلاں ادیب نے لکھا ہو ،لیکن جیسے ہی اس تحریر کو کسی بڑے ادیب سے وابستہ کرنے کی کوشش کرتا تو یہ تحریر اس بڑے ادیب سے بھی بڑی نظر آنے لگتی ۔ میں نے اپنے ذرائع سے ’’خامہ بگوش‘‘ کے بارے میں بہت تحقیق کی مگر کچھ پتہ نہ چلا ۔ میں سوچتا رہا اتنی اچھی تحریر لکھنے والے نے اپنا نام ’’خامہ بگوش‘‘ کیوں رکھا ؟۔ بھلا خامہ بگوش بھی کوئی نام ہے ۔ وہ زمانے لد گئے جب انسان کے لباس میں جیب کی گنجائش نہیں ہوتی تھی تو شعر لکھنے والے اور بہی کھاتے لکھنے والے دونوں ہی اپنے قلم کان پر رکھتے تھے ۔ اب ادیب کا قلم کان پر نہیں رکھا جاتا اسے ادیب یا تو اپنی جیب میں رکھتا ہے یا قلم سمیت ادیب کو حکومت اپنی جیب میں رکھ لیتی ہے ۔ پہلی صورت میں قلم محفوظ رہتا ہے اور دوسری صورت میں ادیب محفوظ رہتا ہے ۔ کچھ دنوں کی جستجو کے بعد میں خامہ بگوش اور اس کے کالم کو بھول گیا تو ایک دن اطلاع ملی کہ اب کی بار خامہ بگوش نے پورا ایک کالم مجھ ناچیز کے بارے میں لکھ دیا ہے ۔ بات یوں ہوئی کہ جسارت کے کسی قاری نے یا شاعر موصوف کے کسی دوست نے خامہ بگوش کے پہلے کالم سے مشتعل ہو کر ایک خط لکھا تھا کہ پاکستان کے جس شاعر کے بارے میں خامہ بگوش نے کسی ہندوستانی مجتبیٰ حسین کے جو تاثرات اپنے کالم میں شائع کئے ہیں، وہ ایک فرضی شخص ہے اور ہندوستان میں مجتبیٰ حسین نام کا کوئی ادیب موجود نہیں ہے۔ پھر قاری نے یہ بھی لکھا تھا کہ پاکستان میں ایک عدد مجتبیٰ حسین پہلے ہی سے موجود ہیں ، جو مشہور نقاد ہیں ۔ اگر ہندوستان میں کوئی مجتبیٰ حسین ہے بھی تو اسے اپنا نام مجتبیٰ حسین نہیں رکھنا چاہئے ۔

ادب کو دو دو مجتبیٰ حسینوں کی ضرورت نہیں ہے یہاں تو میں خامہ بگوش کی اصلیت جاننے کے لئے بے چین تھا اور ادھر خامہ بگوش کے ایک قاری نے مجھے فرضی آدمی بنادیا ۔ اسی کالم میں خامہ بگوش نے قاری مذکور کو بتایا تھا کہ ہندوستان کا مجتبیٰ حسین کوئی فرضی شخص نہیں ہے ۔ خامہ بگوش نے میری اصلیت کو اجاگر کرنے کے لئے بہت دلچسپ کالم لکھا تھا ۔ میرے موجودہ محل و قوع اور گذشتہ حدود و اربعہ کو ظاہر کرنے کے بعد کچھ اس طرح کے جملے لکھے تھے کہ ’’ہندوستانی مجتبیٰ حسین کی وجہ سے پاکستانی مجتبیٰ حسین اپنے نام سے پہلے اپنی علمیت کا اعلان کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں اور وہ اب اپنے آپ کو پروفیسر مجتبیٰ حسین لکھنے لگے ہیں اور یہ کہ ہندوستانی مجتبیٰ حسین کی وجہ سے پاکستانی مجتبیٰ حسین کی شہرت میں اضافہ ہورہا ہے وغیرہ وغیرہ‘‘ ۔ اس تعارف کے بعد خامہ بگوش نے میری اصلیت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کی غرض سے میرے بعض خاکوں کے اقتباسات بھی شائع کئے تھے ۔ میں نے اس کالم کے بعد پھر ایک بار یہ جاننے کی کوشش کی کہ دیکھیں خامہ بگوش کے پردۂ زنگاری میں کون معشوق چھپا بیٹھا ہے ۔ بہت تحقیق کی ،بہت سرکھپایا ، دوستوں سے پوچھا ، کچھ پتہ نہ چلا ، اس بیچ ہندوستان میں خامہ بگوش کے کالم کئی رسالوں میں نقل کئے جانے لگے ۔ ان کی فوٹو کاپیاں ہندوستان کے ادبی حلقوں میں تقسیم ہونے لگیں ۔ ہندوستانی ادیبوں کے بارے میں خامہ بگوش جب بھی لکھتا تو احساس ہوتا کہ وہ ہندوستانی ادیبوں کی نہ صرف تازہ ترین تحریروں سے واقف ہے بلکہ ایسی تحریروں کے بارے میں بھی جانتا ہے جو انھوں نے اب تک نہیں لکھیں ۔ خامہ بگوش کے اس طنزیہ ادبی کالم کا دائرہ اتنا وسیع ، بصیرت اتنی گہری ، نظر اتنی عمیق اور اس کے وار اتنے بھرپور ہوتے کہ میں اکثر سوچتا کہ اتنے پڑھے لکھے آدمی کو طنز و مزاح لکھنے کی ضرورت کیوں لاحق ہوگئی ۔ اور اگر کسی مجبوری کے تحت لاحق ہو بھی گئی ہے تو وہ اتنی اچھی تحریر کو اپنے اصلی نام سے کیوں وابستہ نہیں کرنا چاہتا ۔
پچھلے سال میں لندن گیا تو سوچا کہ اردو کی تحقیق کے چھوٹے سے چھوٹے کام کے لئے بھی جب اردو کے محقق بھاگے بھاگے لندن جاتے ہیں ، تو کیوں نہ میں لندن میں خامہ بگوش کی اصلیت کے سلسلہ میں اپنی تحقیق کو جاری رکھوں ۔ یہ ایک اتفاق ہے کہ لندن میں ہی مخدومی مشتاق احمد یوسفی کے گھر پر کسی نے یہ انکشاف کیا کہ خامہ بگوش اصل میں مشفق خواجہ کا فرضی نام ہے ۔ میں حیران رہ گیا کہ مشفق خواجہ جیسا شریف ، بے ضرر اور سنجیدہ قسم کا محقق ، نقاد اور شاعر مزاح کیسے لکھ سکتا ہے ۔ مشتاق احمد یوسفی خود بھی مشفق خواجہ کے اتنے قائل اور قتیل نظر آئے کہ ان کے بعض فقروں پر سب کے سامنے اور علی الاعلان مسکراتے ہوئے پائے گئے ۔
مشفق خواجہ کے بارے میں بہت کچھ سنا تھا ۔ مرزا ظفر الحسن مرحوم ہندوستان آئے تھے تو فیض احمد فیض کے بعد اگر وہ کسی پاکستانی ادیب کا ذکر کرتے تھے تو وہ مشفق خواجہ ہی تھے ۔ تحقیق کے میدان میں ان کی دھوم تو تھی ہی ، ان کی ادارت میں نکلنے والے رسالے ’تخلیقی ادب‘ کا خوف ہم سب پر طاری تھا ۔ رسالہ کیا ہوتا ہے اچھا خاصا چبوترہ ہوتا ہے ۔ یہ ایک اتفاق ہے کہ ایک دن میں ’تخلیقی ادب‘ کے دو چار شمارے کہیں سے مانگ کر گھر لے آیا ، تو بیوی نے یہ تجویز سامنے رکھی کہ اب ہمیں کوئی بڑا مکان کرایہ پر لینا چاہئے ۔ مشفق خواجہ کے بارے میںکسی نے یہ بھی بتایا تھا کہ کتابیں مشفق خواجہ کی کمزوری ہیں ۔ دنیا کے کسی گوشے میں اگر اردو کی کسی کتاب کے صرف پانچ نسخے شائع ہوئے ہوں تو اسکا ایک نسخہ ضرور مشفق خواجہ کی میز پر ہوگا یا ان کے زیر مطالعہ ہوگا یا پھر الماری میں ہوگا ۔

پچھلے تین چار مہینوں سے یہ افواہ ہندوستان کے مختلف شہروں میں گشت کررہی تھی کہ مشفق خواجہ ہندوستان آرہے ہیں ، ستمبر میں ، میں بمبئی گیا تو دیکھا کہ یوسف ناظم ایک خط کو لگاتار اور متواتر پڑھتے چلے جارہے ہیں ۔ جب ایک گھنٹہ بیت گیا تو میں نے پوچھا ’’یہ تحریر جو آپ پڑھ رہے ہیں یہ کوئی خط ہے یا مخطوطہ؟‘‘ یوسف ناظم نے کہا ’’اسے مخطوطہ ہی سمجھئے کیوں کہ یہ مشفق خواجہ کا خط ہے‘‘ ۔ میں نے پوچھا ’’وہ کب ہندوستان آرہے ہیں ؟ ایک عرصے سے ہندوستان میں ان کی آمد کے بارے میں افواہیں گشت کررہی ہیں ، مگر وہ نہیں آئے ۔ اب اگر وہ آئیں گے بھی تو ان کی آمد ، آمد نہیں آورد کے زمرے میں آئے گی ؟ بولے ’’اب وہ 14 اکتوبر کو دہلی آرہے ہیں ۔ وہاں سے بمبئی آئیں گے ۔ اس خط میں بمبئی میں اپنی آمد کے سلسلے میں شرائط لکھی ہیں‘‘ پوچھا ’’کیا کیا شرائط لکھی ہیں؟‘‘ ۔ بولے ’’پہلی شرط تو یہ ہے کہ وہ بمبئی میں میرے گھر قیام نہیں کریں گے بلکہ کسی ہوٹل میں رکیں گے‘‘ ۔ میں نے کہا ’’بڑی تحقیق شدہ شرط ہے ۔ مشفق خواجہ محقق آدمی ہیں ۔ انھوں نے پاکستان میں بیٹھے بیٹھے بزور تحقیق آپ کے گھریلو حالات کا پتہ چلالیا اور یہ فیصلہ کرلیا کہ بمبئی میں ہوٹل میں قیام کریں گے۔ اچھا بتایئے دوسری شرط کیا ہے ؟‘‘ بولے ’’دوسری شرط یہ ہے کہ اگرچہ وہ میرے گھر قیام نہیں کریں گے لیکن مجھے اپنا سارا وقت ان کے ساتھ گزارنا ہوگا‘‘ ۔ میں نے کہا ’’مشفق خواجہ نے یہ بھی بزور تحقیق جان لیا کہ ان دنوں آپ ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں اور آپ کو اچھی صحبت کی ضرورت ہے ۔ اب بتایئے تیسری شرط کیا ہے؟‘‘ بولے ’’تیسری شرط یہ ہے کہ بمبئی میں ان کا کوئی جلسہ نہیں ہوگا‘‘ ۔ میں نے کہا ’’یہ شرط البتہ مناسب نہیں ہے ۔ پاکستان سے اکثر ادیب جلسوں کے چکر میں ہندوستان آتے ہیں ۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پاکستان سے آنے والا ادیب جتنا چھوٹا ہوتا ہے اس کا جلسہ اتنا ہی بڑا ہوتا ہے ۔ مشفق خواجہ چونکہ بڑے ادیب ہیں ، اس لئے ان کا ایک چھوٹا سا جلسہ تو ہونا ہی چاہئے‘‘ ۔

میں بمبئی سے دہلی واپس آیا تو پتہ چلا کہ مشفق خواجہ کی دہلی میں ’’آورد‘‘ مزید دو ہفتوں کے لئے ملتوی ہوگئی ہے ۔ چند دن بعد دہلی کے ایک سمینار کے دعوت نامے میں ان کا نام چھپا ہوا دیکھا کہ وہ ایک اجلاس کی صدارت کرنے والے ہیں ۔ میں اس اجلاس میں گیا ہی اس لئے تھا کہ مشفق خواجہ سے ملاقات ہو ۔ مگر کرسی صدارت پر دہلی کا ایک ’’عادی صدر‘‘ نظر آیا ۔ کسی سے مشفق خواجہ کے بارے میں پوچھا ، معلوم ہوا وہ کل رات دہلی آچکے ہیں ۔ ڈاکٹر خلیق انجم کے گھر قیام ہے اور اس وقت مطالعے میں مصروف ہیں ۔ انھوں نے سمیناروں ، جلسوں وغیرہ میں شرکت سے معذرت کرلی ہے۔دہلی میں ان کی آمد کی خبر پھیلی تو کئی دوستوں کے فون میرے پاس آنے لگے کہ مشفق خواجہ کہاں ہیں ۔ میں نے ایک دوست کا فون آنے پر جان بوجھ کر مشفق خواجہ کی آمد کے بارے میں لاعلمی ظاہر کی تو اس نے کہا ’’تمہیں نہیں معلوم کہ مشفق خواجہ آچکے ہیں ۔ اخبار میں ان کی آمد کی خبر چھپی ہے‘‘ ۔
میں نے پوچھا ’’کیا خبر چھپی ہے؟‘‘ دوست نے ازراہِ تفنّن ان کے بارے میں چھپی ہوئی خبر کو تحریف کے ساتھ سنانا شروع کردیا ’’اخبار میں چھپا ہے کہ پاکستان کے محقق اور نقاد مشفق خواجہ ان دنوں ہندوستان آئے ہوئے ہیں اور ان کا قیام ہندوستان کے مشہور محقق اور نقاد ڈاکٹر خلیق انجم ، جنرل سکریٹری انجمن ترقی اردو ہند کے گھر ہے ، جن کی مرتّبہ معرکتہ الآرا کتاب ’’غالب کے خطوط‘‘ ابھی حال میں شائع ہوئی ہے اور جنھیں مغربی بنگال اردو اکیڈیمی نے اس سال کا پرویز شاہدی انعام بھی دیا ہے ۔ میں نے سوچا یہ مشفق خواجہ کی آمد کا ہی فیض ہے کہ سنجیدہ لوگ بھی اب مذاق کرنے لگے ہیں ۔
مشفق خواجہ ڈاکٹر خلیق انجم کے مہمان کیا ہوئے ، خلیق انجم کے ہاں پڑھے لکھے لوگوں کا تانتا بندھ گیا ۔ میں بھی اس تانتے میں شامل ہوگیا ۔ بڑی محبت سے ملے ۔ کہنے لگے ’آپ سے مل کر آپ کے بڑے بھائی ابراہیم جلیس مرحوم کی کئی باتیں یاد آرہی ہیں‘ دنیا جہان کی باتیں ہوئیں ۔ ادب کی رفتار اور ادیبوں کی گفتارکا ذکر ہوا ۔ کچھ دیر بعد مجھے اچانک احساس ہوا کہ مشفق خواجہ تو پنجابی ہیں لیکن اتنی دیر میں ان کا پنجابی لہجہ سنائی نہیں دیا ۔ مشفق خواجہ نے ایک جگہ ابن انشاء کے بارے میں لکھا تھا ’’ابن انشاء جب بولتے تھے تو پنجابی معلوم ہوتے تھے ، لیکن جب لکھتے تھے تو لکھنؤ اور دہلی والوں کے بھی کان کاٹتے تھے ۔ میں نے یہ محسوس کیا کہ مشفق خواجہ نہ صرف لکھنے میں بلکہ بولنے میں بھی اہل زبان کی زبان کے سوا سب کچھ کاٹ لیتے ہیں۔ وہ اردو بولتے ہیں تو لگتا ہے سچ بول رہے ہیں ، میں نے پنجاب کے کسی اردو ادیب کو اہل زبان والے لہجہ میں اردو بولتے ہوئے نہیں سنا ۔ وجہ دریافت کی تو بیگم آمنہ مشفق کی طرف اشارہ کرکے بولے ’’میری سسرال لکھنؤکی ہے ۔ زبان پر سسرال کا اتنا اثر تو پڑنا ہی تھا‘‘ میں نے سوچا آج کے دور میں اتنے فرمانبردار داماد کہاں پیدا ہوتے ہیں کہ سسرال کے ڈر سے اپنا لب و لہجہ تبدیل کرلیں ۔ کبھی لکھنؤ گئے بغیر پنجاب میں بیٹھ کر صرف اپنی اہلیہ کے بل بوتے پر اہل زبان کے لہجہ میں اہلیت پیدا کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔
مشفق خواجہ بہت زیادہ باتیں نہیں کرتے ، مگر جو بھی بات کرتے ہیں نپی تُلی کرتے ہیں ۔ دو یا دو سے زیادہ آدمیوں کے بیچ کوئی مسئلہ زیر بحث ہو تو یہ خاموشی سے سنتے رہیں گے اور جب انھیں احساس ہوگا کہ مسئلہ اب بات چیت کے ذریعے حل ہوا ہی چاہتا ہے تو اچانک کوئی ایسا چبھتا ہوا فقرہ کس دیں گے کہ فریقین پھر سے بحث کرنے پر مجبور ہوجائیں گے ، ان کے ذہن میں کوئی اچھا فقرہ آجائے تو اسے کہے بغیر نہیں رہیں گے ۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ دوست بھلے ہی ضائع ہوجائے مگر وہ اپنے اچھے فقرے کو ضائع نہیں ہونے دیتے ۔ میں نے پوچھا ’’خواجہ صاحب! یہ کیا بات ہے کہ آپ اپنے اصلی نام سے مزاح نگاری نہیں کرتے‘‘ ۔
بولے ’’بھئی میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مجھے اب صرف مزاح نگاری کرنی چاہئے ۔ ہندوستان میں میری شہرت مزاح نگار کی حیثیت سے ہے ۔ اتنا تحقیقی کام کیا ۔ ایک کتاب دس دس جلدوں میں لکھی ۔ شعر کہے ، تنقیدی مضامین لکھے کوئی ان کا ذکر نہیں کرتا ۔ ہر جگہ میرے فرضی نام سے لکھے ہوئے کالموں کا ذکر ہوتا ہے‘‘ ۔ میں نے دھمکی کے انداز میں کہا ’’خواجہ صاحب ! اب اگر آپ باضابطہ طور پر مزاح نہیں لکھیں گے تو ہم آپ کی تحقیق پر ہنسنے پر مجبور ہوجائیں گے‘‘ ۔

ایک محفل میں کسی نے کہا ’’ہندوستان کے اردو ادب پر بعض ’’چندوں‘‘ کا غلبہ ہے ، جیسے پروفیسر گوپی چند ، پروفیسر گیان چند اور پروفیسر حکم چند‘‘ ۔ مشفق خواجہ نے فوراً کہا ’’مگر جناب یہی تو معدودے چند ہیں‘‘ ۔
ایک اور محفل میں میرے شاعر دوست ایم قمرالدین نے ، جو سپریم کورٹ کے ایڈوکیٹ بھی ہیں ، مشفق خواجہ سے کہا ’’خواجہ صاحب! آپ کے شعری مجموعہ ’ابیات‘ کا دیدار نہیں ہوا‘‘ مشفق خواجہ نے فوراً ’ابیات‘ کا ایک نسخہ قمرالدین کی خدمت میں پیش کردیا ۔ قمر الدین نے کہا ’’تخلیقی ادب کے صرف دو ایک شمارے نظر سے گذرے تھے‘‘ ۔ مشفق خواجہ نے تخلیقی ادب کے تین چار شمارے قمر الدین کو دے دئے۔
اس پر قمر الدین نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا ’’یا خواجہ غریب نواز !اس خواجہ ادیب نواز پر اپنا کرم فرمایئے‘‘ مشفق خواجہ سچ مچ ادیب نواز ہیں ۔ دہلی میں ان سے خاصی ملاقاتیں رہیں ۔ اب وہ بمبئی گئے ہیں (یوسف ناظم سے غلط اردو اور غلط دکنی سننے کے لئے) مشفق خواجہ جیسی شخصیتیں برصغیر کی اردو دنیا میں دو تین سے زیادہ نہیں ہوں گی ۔ جلسوں ، جلوسوں اور محفلوں کے طمطراق سے بے نیاز اپنے کام میں مگن علم کی دولت سمیٹتے ہوئے ، علم کی دولت لوگوں میں بے دریغ بانٹتے ہوئے ، انھوں نے اتنے لمبے عرصے تک اردو کی خاموش خدمت کی ہے کہ اب ان کی خاموش خدمت کا شور ادب کے ایوان میں جگہ جگہ سنائی دینے لگا ہے ۔
(دسمبر 1985 ء کی ایک تحریر)