ریاض۔3مئی ( سیاست ڈاٹ کام ) خلیجی بادشاہوں کی سالانہ چوٹی کانفرنس منگل کے دن منعقد کی جائے گی جس میں اس علاقہ کو درپیش خطرات کا حل تلاش کرنے میں سخت مشکلات کا سامنا درپیش ہوسکتا ہے ۔ مشرق وسطیٰ کو جہادیوں سے سخت خطرہ درپیش ہے جب کہ یمن میں خانہ جنگی کی وجہ سے خلیجی ممالک کے ایران کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوگئے ہیں ۔ مرکز برائے دفاعی و بین الاقوامی مطالعہ جات واشنگٹن کے انتھونی کارڈسمین نے کہا کہ اگر آپ اس فہرست کا جائزہ لیں تو یہ انتہائی پیچیدہ نظر آئے گی ۔ مشرق وسطیٰ کے تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال علاقہ کے ممالک کو انتہائی پیچیدہ چیالنجس درپیش ہیں ۔ خلیجی تعاون کونسل کے رکن ممالک کے قائدین سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں آئندہ ہفتہ چوٹی کانفرنس میں شرکت کیلئے جمع ہوں گے ۔ ان سب کو بڑھتے ہوئے چیالنجس کا سامنا ہے ۔ 6ممالک کے قائدین ایران کی وجہ سے سخت پریشان ہیں کیونکہ یہ ملک ایٹم بم بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ اُن کے اندیشے مستقل ہیں حالانکہ امریکہ اور فرانس نے انہیں تیقن دیا ہے کہ ایک بین الاقوامی معاہدہ کا مسودہ تیار کیا جارہا ہے جس کے تحت ایران کو جوہری بم تیار کرنے سے روک دیا جائے گا ۔ معاہدہ کے چوکٹھے پر ایران اور امریکہ ‘ فرانس اور دیگر بڑی طاقتوں کے درمیان اتفاق رائے ہوچکا ہے
جس کے تحت ایران کی نیوکلیئر صلاحیتوں کو محدود کردیا جائے گا اور اس کے بدلے ایران پر سے بین الاقوامی تحدیدات برخواست کردی جائے گی ۔ صدر فرانس فرینکوئی اولاند خلیجی تعاون کونسل کی چوٹی کانفرنس میں شرکت کریں گے ۔ وہ مغربی ممالک کے اولین قائد ہیں جو خلیجی تعاون کونسل کی چوٹی کانفرنس میں اس کے قیام 1981ء کے بعد سے اس میں شرکت کریں گے ۔ ان کے دعوے سے سعودی عرب کے ساتھ بڑی طاقتوں کے تعلقات میں گہرائی پیدا ہوجائے گی ۔ تاحال سوائے امریکہ کے سعودی عرب کے گہرے تعلقات کسی بھی دوسرے مغربی ملک کے ساتھ قائم نہیں ہے ۔ اولاند بحرین ‘ کویت ‘ عمان ‘ قطر ‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے سربراہان مملکت کے ساتھ اس چوٹی کانفرنس میں شرکت کریں گے ۔ یہ چوٹی کانفرنس خلیجی تعاون کونسل کے رکن ممالک کے دورہ امریکہ سے ایک ہفتہ قبل منعقد ہورہی ہے جو ان ممالک کا روایتی حلیف ہے ۔
صدر امریکہ بارک اوباما نے اس چوٹی کانفرنس کو امریکہ کے ایران کے ساتھ رویہ کے بارے میں اندیشوں کا ازالہ کرنے کا ایک موقع قرار دیا اور کہا کہ اس سے علاقائی تنازعات کم کرنے اور ذہنی صفائی میں مدد ملے گی ۔ بیشتر خلیجی ممالک امریکہ کی زیرقیادت اتحادی افواج کی دولت اسلامیہ کے جہادیوں پر شام اور عراق میں گذشتہ سال سے جاری بمباری کو درست قرار دیتے ہیں ۔ دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں نے عراق اور شام کے بیشتر علاقہ پر قبضہ کرلیا ہے اور سعودی عرب کیلئے ایک خطرہ ثابت ہورہا ہے ۔ گذشتہ ماہ سعودی عرب نے کہا تھا کہ تقریباً 100جہادی جن میں سے بیشتر کا تعلق دولت اسلامیہ سے ہے گرفتار کئے گئے ہیں اور ان کے کئی منصوبے بشمول امریکی سفارتخانہ پر حملہ کا منصوبہ ناکام بنادیئے گئے ہیں ۔ سعودی عرب نے جاریہ سال اپنے طور پر ایک اتحاد قائم کیا ہے تاکہ ایران کے حمایت یافتہ باغیوں کی پیشرفت کو روکا جاسکے ۔ حکومت حامی اور مخالف فوجیں پڑوسی ملک یمن کے دوسرے بڑے شہر عدن میں ہنوز برسرپیکار ہے ۔