میرا کالم سید امتیاز الدین
مشتاق احمد یوسفی کے مداحوں کو مژدہ ہو کہ ان کی نئی کتاب ’’شامِ شعرِ یاراں‘‘ منظر عام پر آگئی ہے ۔ یوں تو ہم اپنا یہ کالم خوشی بلکہ سرخوشی کے عالم میں لکھ رہے ہیں ،لیکن دل میں ایک کھٹکا سا لگا ہوا ہے کہ ہمارے قارئین میں کتنے ایسے ہیں جنھوں نے یوسفی کو پڑھا ہے ۔ بات یہ ہے کہ مشتاق احمد یوسفی کاشمار مزاح نگاروں کے مزاح نگار کی حیثیت سے ہوتا ہے ۔ اُن کی زبان ، اُن کا اسلوب بالکل جداگانہ ہے ۔ ان کی تحریریں پڑھنے سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے لکھنے والے نے برسوں اپنے انشائیوں پر محنت کی ہے ۔ الفاظ کی نشست ، خیالات کی ترتیب ، زبان کی نوک پلک پر اتنی توجہ دی ہے کہ لکھنے والے کے قلم سے پڑھنے والوں کی آنکھوں تک آتے آتے برسوں کا عرصہ بیت گیا ہے ۔ اب تک یوسفی کی چار کتابیں خاکم بدہن ، چراغ تلے ، زرگزشت اور آبِ گُم شائع ہوچکی ہیں ۔ہر کتاب کی اشاعت میں کافی طویل وقفہ ہے ۔ تازہ کتاب ’’شامِ شعرِ یاراں‘‘ کم و بیش سترہ سال کے بعد ہمارے ہاتھوں میں ہے ۔ اب مشتاق احمد یوسفی کی عمر 92 سال ہے ۔ اس کتاب کو ایک مردِ خلیق ، پیرِ مغاں کا آخری سبو سمجھنا چاہئے ۔ یوسفی فیض کے بے پناہ چاہنے والوں میں ہیں ۔ فیض کی ایک کتاب ’’شامِ شہرِ یاراں‘‘ ہے ،جس میں اُن کی مشہور نظم ’کس طرح آئے گی جس روز قضا آئے گی‘ شامل ہے ۔ خود شام کا تصور دن کے ڈھل جانے کا اشارہ کرتا ہے اور دوستوں ، عزیزوں کے ساتھ گزاری ہوئی شعر و ادب کی محفلوں ، خوش گپیوں ، رتجگوں کی یاد دلاتا ہے ۔ فیض کہتے ہیں ؎
اے مہِ شبِ نگاراں
اے رفیقِ دلفگاراں
اس شام ہم زباں ہو
اے شام مہرباں ہو
اے شام مہرباں ہو
اے شامِ شہرِ یاراں
ہم پہ مہرباں ہو
بڑھتی ہوئی عمر کا احساس حسرت و یاس کو جگہ دیتا ہے ، لیکن مشتاق احمد یوسفی کی شامِ شعرِ یاراں پرلطف بھی ہے اور مزاح سے بھرپور بھی ۔ چار سو سے زائد صفحات کی اس کتاب میں اکیس مضامین ہیں اور ہر مضمون میں انشائیہ اُس مزاحیہ رنگ سے مزیّن ہے جو یوسفی کا طُرّہ امتیاز ہے ۔ اس کتاب میں خاکے بھی ہیں ، انشائیے بھی اور مختلف ادیبوں ، شاعروں کی کتابوں کی رسم اجرا کے موقع پر اُن کی تقریریں بھی ۔ مشتاق احمد یوسفی کی خوبی یہ ہے کہ وہ ہر موضوع کو اتنا پھیلادیتے ہیں کہ ان کا قاری حیرت میں پڑجاتا ہے کہ یوسفی اس کو کہاں کہاں لے جارہے ہیں لیکن ایک جہانِ رنگ و بو کو دکھلا کر یوسفی پھر اپنے موضوع کی طرف لوٹتے ہیں اور اپنے قاری کو فرحت و انبساط کی دولت سے مالا مال کردیتے ہیں ۔
کتاب کا پہلا مضمون محمد علی جناح کی قانونی بصیرت پر ایک خراج عقیدت کی حیثیت رکھتا ہے ، لیکن 32 صفحات کے اس یادگار مضمون میں جناح کی وکالت اور سیاسی بصیرت کا ذکر آخر کے چار پانچ صفحات میں ملتا ہے ۔ ابتدائی صفحات میں یوسفی نے اپنے زمانۂ طالب علمی اور ہم جماعت ساتھیوں کا تذکرہ اس خوبی سے کیا ہے کہ طبیعت خوش ہوجاتی ہے ۔ ایک مقدمے میں خان بہادر اختر عادل جو گورنمنٹ پلیڈر تھے ، جناح کے مخالف وکیل تھے ، اُن کے بارے میں یوسفی لکھتے ہیں ’’(خان بہادر اختر عادل) بہت خوش خُو ، خوش خُلق ، خوش لباس ، خوش خوراک ، شریف النفس اور بہت موٹے تھے ۔ خود سے بھی زیادہ موٹے تین بیٹوں کے باپ تھے ۔ ایک دن لنچ کے بعد مقدمے کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو خان بہادر صاحب کی آنکھ غلبۂ بریانی سے ایسی جھپکی کہ دیر تک نہ کھلی‘‘ ۔ جناح نے عدالت کی توجہ خان بہادر صاحب کی نیند کی جانب دلاتے ہوئے انگریزی میں کہا ’’خان بہادر صاحب قیلولہ کررہے ہیں ۔ عدالت کی کارروائی انھیں ڈسٹرب کررہی ہے‘‘ ۔ ’کیس ہسٹری‘ وہ تقریر ہے جو یوسفی نے ڈاکٹروں کی سوسائٹی میں سالانہ ڈنر کے موقع پر کی تھی ۔ ابتدا میں یوسفی نے کہا ’’کپڑے اُتارے بغیر ڈاکٹروں سے گفتگو کا یہ پہلا موقع ہے‘‘۔
اسی طرح ایک حکیم صاحب کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے ’’میں نے اپنے طور پر حکیم صاحب کے بارے میں معلومات کیں تو بہت اچھی رپورٹیں ملیں۔ ایک صاحب نے کہا وہ مریض کا حال بالکل نہیں سنتے ۔ نبض پر ہاتھ رکھتے ہی مرض کی ساری کیفیت اور مریض کے تمام کرتوت بیان کردیتے ہیں ! میری نبض پر ہاتھ رکھتے ہی کہہ دیا ’’ران پر ایک داد ہے ۔ ناک کی ہڈی ٹیڑھی ہے ۔ تین دن کا قبض لئے پھررہے ہو ۔ ہمیں تو اُن کی طبابت میں صریحاً علم غیب کی ملاوٹ نظر آئی‘‘ ۔ دوسرے صاحب نے کہا ’’نبض سے پہلے قارورہ دیکھتے ہیں اور قارورے پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالتے ہی مریض کی تنخواہ اور بچوں کی تعداد کا صحیح اندازہ کرلیتے ہیں‘‘۔
ہومیوپیتھی کا ذکر کرتے ہوئے ہومیوپیتھی کے ایک ڈاکٹر نیاز کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں ’’ایک دفعہ نیاز صاحب تین چار دن کے لئے دورے پر نکلے ۔ واپسی پر شام کو اپنے مطب میں بیٹھے ۔ دواؤں کا بکس کھولا تو سب شیشیاں خالی نکلیں ۔ پتہ چلا کہ ان کی غیر موجودگی میں ایک تین سالہ بچہ ساری گولیاں کھاگیا ۔ نیاز صاحب خود کہتے تھے کہ میں اُسی دن اور اُسی لمحے ہومیوپیتھی سے تائب ہوگیا کہ جس نظام طب کی دوائیں ایسی ہوں کہ پورا بکس کھاجانے کے بعد بھی تین سالہ بچے کو کچھ نہ ہو اُس کی پریکٹس کرکے میں دنیا اور عاقبت خراب نہیں کرنا چاہتا‘‘ ۔
فیضؔ پر اپنے مضمون میں انھوں نے ایک صاحب کا ذکر کیا ہے جنھوں نے بھری محفل میں اقبال کے ایک مصرعے ’’یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر‘‘ کے بارے میں فرمایا یہ مصرعہ یوں ہے ’’یا تو خود آ شِکار ہو یا مجھے آ شِکار کر‘‘ ۔ اُنہی صاحب نے فیض کی نظام تنہائی کے بارے میں شکایت کی کہ ’آپ کی نظم تنہائی بہت سنسان لگتی ہے ۔ کم از کم ایک لائن میں تو محبوبہ کو ڈالئے ۔ فیض نے اُن کے اصرار پر تحمل سے جواب دیا ’اگلے ایڈیشن میں ڈال دیں گے‘ ۔
پاکستان کے سیاسی حالات اور وہاں کے ارباب اقتدار کی جلد جلد معزولی کا اشارتاً ذکر کرتے ہوئے یوسفی لکھتے ہیں ’’اسلام آباد درحقیقت جنّت کا نمونہ ہے ۔ اس اعتبار سے کہ یہاں جو بھی آیا ہے حضرتِ آدم کی طرح نکالا جاتا ہے‘‘ ۔ یوسفی لندن میں گیارہ سال تک رہے ۔ انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ لندن کے فلیٹوں کی سیڑھیاں بہت تنگ ہوتی ہیں ۔ بیک وقت دو آدمیوں کا گزرنا مشکل ہوتا ہے ۔ تنگ سیڑھیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’تنگ فلیٹ میں رہنے والے اکیس سالہ پاکستانی نے اپنی چالیس سالہ پڑوسن سے شادی کرلی جس پر سب کو تعجب ہوا ۔ سوائے مرزا کے ! فرمایا کہ لندن کے فلیٹوں کے زینے اتنے تنگ ہیں کہ آدمی خود کو زینے کے ناکے (سوئی کے سوراخ) میں پِرو کر چڑھتا اترتا ہے ۔ دوسرے کی گنجائش نہیں ۔ اگر کوئی عورت نیچے آرہی ہو اور مرد اوپر جارہا ہو تو درمیان میں نکاح کے سوا کوئی مہذب صورت نظر نہیں آتی‘ ۔ شان الحق حقی ایک عالم بے بدل تھے ۔ زبان کے ماہر اور لغت نویسی میں یکتا ۔ اُن پر ایک مضمون لکھتے ہوئے یوسفی رقم طراز ہیں ’’استاد ذوق نے شیر کو شناخت کرنے کا گُر بتایا ہے
شیر سیدھا تیرتا ہے وقتِ رفتن آب میں
رفتن سے ہمیں کچھ ایسا عندیہ ملتا ہے کہ شیر صرف جاتے وقت سیدھا تیرتا ہے ۔ اب قابل غور یہ پہلو ہے کہ شیر کو آتے وقت تو اُس کا شکار ہونے والے مرحومین نے ایک نظر ضرور دیکھا ہوگا لیکن ہم نے آج تک کسی ایسے ’زندہ‘ کو نہیں دیکھا جس نے شیر سے بالمشافہ ملاقات کے بعد اُسے خالی پیٹ جاتے بھی دیکھا ہو‘‘ ۔ کتاب میں جوش ملیح آبادی ، حفیظ جالندھری اور مولانا صلاح الدین احمد کا ذکر بھی بڑے خوبصورت انداز میں کیا گیا ہے ۔
افتخار عارف ، ابن حسن برنی ، الطاف گوہر پر یوسفی کے خاکے اتنے دلچسپ ہیں کہ اگر اُن خاکوں کے کچھ اقتباسات نقل کرنے بیٹھوں تو اس کالم کی مروجہ و منظورہ طوالت اُن کی متحمل نہیں ہوگی ۔ ہم یہ بھی چاہیں گے کہ یوسفی کے چاہنے والے اس کتاب کو اس حال میں پڑھیں کہ اُن کو ہر بات ، ہر فقرہ نیا لگے ۔
آج کل ہر ادیب یا شاعر ایک کتابچہ بھی لکھ لیتا ہے تو اس کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ اُس کتاب یا کتابچے کی شاندار رسم اجرا ہو جس میں اسے جی کھول کر سراہا جائے ۔ یوسفی نے اپنی کسی کتاب کی رسمِ اجرا نہیں ہونے دی ۔ انھوں نے صرف شادی سے پہلے اپنی رسم رونمائی کرائی تھی کیونکہ اُن کی ہونے والی دلہن کی بینائی نہایت کمزور تھی اور وہ ضد میں عینک بھی نہیں لگاتی تھیں (یوسفی سے شادی کے بعد عینک لگانا شروع کردیا) اس تازہ کتاب کے پبلشر اور بعض انجمنوں نے اپنے طور پر رسم اجرا کا اہتمام کیا ۔ سنا ہے کہ مشتاق احمد یوسفی رسم اجرا میں بادل ناخواستہ اس شرط پر شریک ہوئے کہ وہ نہ تو کوئی تقریر کریں گے اور نہ کسی کو آٹوگراف دیں گے ۔ ہم اپنے قارئین کو یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں ’’ شامِ شعرِ یاراں‘‘ ہمیں مجتبیٰ حسین صاحب کی مہربانی سے صرف دو دن کے لئے ملی ہے ۔ کالم لکھنے کے بعد یہ کتاب ہمارے ہاتھوں سے نکل جائے گی ۔ صرف حافظے میں رہے گی ۔
چلتے چلتے یہ عرض کردیں کہ یہ یوسفی کی آخری کتاب ہے ۔ کیونکہ اب اُن کی کسی اور کتاب کے آنے کی امید کم ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ لوگ اس بات پر بحث کرنے لگیں کہ ان کی سب سے اچھی کتاب کونسی ہے ۔ ہم نہ ناقدانہ نظر رکھتے ہیں اور نہ اپنی رائے کو درخورِ اعتنا سمجھتے ہیں ۔ ہمیں یوسفی کی تمام کتابیں یکساں پسند ہیں ۔ ہم غالب کی زبان میں صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں ؎
ہے رنگِ لالہ و گل و نسریں جدا جدا
ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہئے