پی چدمبرم
اٹل بہاری واجپائی کا 93 سال کی عمر میں گزشتہ جمعرات کو انتقال ہوگیا۔ وہ طویل عرصہ سے علیل تھے۔ انہوں نے اپنے سیاسی کریئر کا آغاز ایک سوئم سیوک ( آر ایس ایس کارکن ) کی حیثیت سے کیا۔ جنتا پارٹی جن سنگھ کے انضمام تک اس کے رکن رہے۔ 1980 میں ایل کے اڈوانی کے ساتھ بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی ) کی بنیاد ڈالی اور اپنی آخری سانس تک پارٹی کے وفادار رہے۔
پارٹی اور آر ایس ایس کے اپنے اکثر رفقاء کیلئے وہ ایک صبح جماعت کی قیادت کیلئے ایک صحیح شخص تھے لیکن دوسری جماعتوں سے تعلق رکھنے والے بیشتر قائدین کیلئے واجپائی غلط پارٹی میں اچھے شخص کی حیثیت رکھتے تھے۔
میں نے واجپائی کو ہمیشہ قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ ان کا احترام کیا ہے۔ 1984 میں جب پارلیمنٹ میں داخل ہوا وہ بی جے پی کے دو ارکان پارلیمنٹ میں سے ایک تھے ( اُس وقت سارے ملک میں بی جے پی کو صرف دو پارلیمانی نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی ) بوفورس معاملت نے ان تمام سیاسی جماعتوں کو ایک نئی زندگی اور توانائی عطا کی تھی جو پچھلے پارلیمانی انتخابات میں تہس نہس ہوگئی تھیں اور جہاں تک بوفورس معاملت سے فائدہ کا سوال ہے اس کا سب سے زیادہ سیاسی فائدہ بی جے پی کو ہوا لیکن وی پی سنگھ متوقع فاتح کی حیثیت سے اُبھر کر سامنے آئے۔ 1989 اور 1991 کے درمیان واجپائی اور میں حزب اختلاف کی بنچس پر بیٹھے رہے لیکن فرق یہ تھا کہ ان کی پارٹی بی جے پی‘ وی پی سنگھ حکومت کی تائید کررہی تھی اور میری پارٹی اُس حکومت کی مخالف تھی تاہم اس میں کوئی حیرت نہیں ہوئی کہ کانگریسی سے مخالف کانگریسی بنے ( وی پی سنگھ ) اور بی جے پی کے درمیان اندون 11 ماہ ہی اختلافات کا آغاز ہوگیا اور تضاد بیانی نے زور پکڑا جو منڈل بمقابلہ کامنڈل کا باعث بنا۔
بی جے پی کا یقینی چہرہ :۔
اگلے چھ برسوں میں ہندوستانی سیاست کمزور کانگریس اور نئی طاقت و توانائی کی حامل بی جے پی کے درمیان تلخ جدوجہد سے پر رہی ایل کے اڈوانی بی جے پی کو ایک نئی طاقت عطا کررہے تھے اور اٹل بہاری واجپائی پارٹی کا یقینی اور اعتدال پسند چہرہ بنے ہوئے تھے۔
اٹل بہاری واجپائی نے ایک مرتبہ عہدہ وزارت عظمیٰ کا حلف لیا ان کی پہلی حکومت یا میعاد غلط اندازوں یا حساب کتاب کی نذر ہوگئی۔ واجپائی کی زیر قیادت حکومت صرف 13 یوم تک چل سکی۔ انہوں نے جب دوسری مرتبہ عہدہ وزارت عظمیٰ کا حلف لیا تب 13 ماہ تک ہی وہ حکومت چل سکی، ان تیرہ ماہ کے دوران بی جے پی اور اس کے اتحادیوں میں اختلافات اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئے تھے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اُس وقت واجپائی کی 13 ماہ کی حکومت کوصرف ایک ووٹ سے شکست ہوگئی۔ اس طرح ایک ووٹ نے واجپائی حکومت کو اقتدار سے محروم کردیا۔
میرا شخصی خیال یہ تھا کہ کانگریس کو چاہیئے تھا کہ واجپائی کی حکومت کو چلنے دیتی۔ واجپائی حکومت کو اس وقت تک اقتدار سے بیدخل نہیں کیا جانا چاہیئے تھا جب تک کہ وہ خود اپنے آپ گر نہیں جاتی۔
اپنے 13 ماہ کے دور اقتدار میں واجپائی نے پوکھران جوہری تجربہ کرکے اور اس کے بعد امریکی پابندیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی شبیہہ کو غیر معمولی طور پر بہتر بنالیا۔ صرف ایک ووٹ سے شکست نے واجپائی کے حق میں ہمدردی کی زبردست اور طاقتور لہر پیدا کی اور ہمدردی کی یہی لہر 1982 سے 1989 کے انتخابات میں بی جے پی ارکان پارلیمان کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ کا باعث بنی ۔ اس طرح واجپائی دوبارہ عہدہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہوگئے۔
سب دوست کوئی دشمن نہیں :۔
جہاں تک واجپائی کا تعلق تھا وہ ان کا بہترین وقت تھا صرف ان کا ہی نہیں بلکہ ان کی جماعت بی جے پی کا بھی اچھا وقت رہا۔ واجپائی نے بی جے پی کے سخت گیر اور کٹر پن کی شبیہ کو ایک ایسی شبیہ میں تبدیل کردیا جس سے دشمنوں کی تعداد میں کمی اور دوستوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ اور دوسری جماعتیں دوستوں کی حیثیت سے بی جے پی کے قریب آئیں۔ حلیف جماعتیں راغب ہوئیں۔ واجپائی نے مختلف جماعتوں کے درمیان جھگڑوں اور اختلافات کو ثالثی کے ذریعہ دور کیا اور حکومتی سطح پر شرح نمو میں تیزی لائی۔ حیرت کی بات یہ رہی کہ انہوں نے دو تا چار سال ( ڈسمبر 2002 ) میں سبکدوشی کے اشاروں کو بھی ختم کردیا۔ پہلے یہ کہا جارہا تھا کہ واجپائی اپنی میعاد مکمل نہیں کرپائیں گے۔
چھ برسوں کے دوران انہوں نے بے شمار دوست بنائے دشمن نہیں۔ اور یہی واجپائی کی دوسروں سے ممتاز کرنے والی خاصیت تھی۔ جب 2004 میں وہ عہدہ وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوئے اور جب گزشتہ ہفتہ ان کی زندگی کا چراغ گل ہوا، ہرکسی نے ان کے بارے میں اچھے الفاظ استعمال کئے اور بہترین الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا۔میں یہاں ایسے وہ واقعات کا حوالہ دینا چاہوں گا جن کا مجھے تجربہ ہوا ہے۔
پہلا واقعہ1985-1989 کا ہے جب بوفورس کیس نے راجیو گاندھی حکومت کو پریشان کرکے رکھ دیا تھا۔ اس مسئلہ پر پارلیمنٹ میں ایک کے بعد دیگرے وزراء نے اس مسئلہ سے نمٹنے کی کوشش کی اور 1988 کے اواخر میں اس کی ذمہ داری میرے تفویض کی گئی۔ بوفورس معاملت کے ریکارڈ کے بغور اور تفصیلی مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ کنٹراکٹ حاصل کرنے کیلئے بوفورس نے رقم ادا کی لیکن اس بات کے کوئی ثبوت یا شواہد نہیں تھے کہ کسی ہندوستانی وزیر یا ہندوستانی عہدیدار نے رقم حاصل کی ہے۔ میں نے آئندہ دستیاب موقع پر اس تعلق سے اہم بیان دینے کی راجیو گاندھی سے اجازت طلب کی اور حسن اتفاق سے چند دنوں میں ہی مجھے اس کا موقع مل بھی گیا۔ اس وقت واجپائی نے بوفورس معاملت پر ایک اور مباحث کا دروازہ کھول دیا تھا۔ حکومت کی جانب سے جواب دیتے ہوئے میں نے اپنے تفصیلی جائزہ سے اخذ کردہ نتائج کی بنیاد پر ایوان میں بیان دیا، مجھے آج بھی اُس وقت واجپائی کے چہرہ پر آئے پریشانی و حیرانی کے تاثرات یاد ہیں، وہ مجھے تاکید کرنے اپنی نشست سے اُٹھ کھڑے ہوئے کہ انہیں اس بات کی قطعی توقع نہیں تھی کہ مسٹر چدمبرم رشوت خوروں کو بری الذمہ قراد دینے کیلئے بیان دیں گے یا اس بارے میں اظہار خیال کریں گے ۔ میں نے واجپائی کی اس نصیحت پر جواب میں اصرار کے ساتھ کہا کہ میں تو صرف سچ بتارہا ہوں ( 4 فروری 2004 ) کو دہلی ہائی کورٹ کے ایک جج نے راجیو گاندھی کے خلاف پیش کردہ سی بی آئی چارج شیٹ کو مسترد کردیا )
ایک دلکش اور مہربان شخصیت : ۔
دوسرا واقعہ 1997-1998 کا ہے جب میں متحدہ محاذ حکومت میں وزیر فینانس تھا اور نجی شعبہ میں انشورنس کی راہ ہموار کرنے والا بل پیش کرنے والا تھا جس میں اس شعبہ کے دروازے بیرونی سرمایہ کاری کیلئے بھی کھولنے کا منصوبہ شامل تھا۔ اس بل کی بی جے پی نے شدت سے مخالفت کی، اس کی اصل شکایت بیرونی سرمایہ کاروں کی اجازت کی دفعہ سے متعلق تھی۔ تاہم اپوزیشن کے ساتھ اتفاق رائے پیدا کرنے میں نے بیرونی سرمایہ کاری کے حصہ کی 20 فیصد حد مقرر کرنے کی پیشکش کی۔ واجپائی نے میرے موقف سے اتفاق کیا۔ مرلی منوہر جوشی کی جانب سے سب سے زیادہ مخالفت کی جارہی تھی اس کے باوجود واجپائی نے مجھ سے کہا کہ ان کی پارٹی بل کی تائید کرے گی۔ مباحث ختم ہونے کے بعد ووٹنگ یا رائے دہی کا آغاز ہوا۔ بل کی دفعات2 تا 12منظور کرلی گئیں لیکن مسٹر مرلی منوہر جوشی نے شق 13 کی مخالفت کی جو بیرونی راست سرمایہ کاری کی اجازت دینے سے متعلق تھی۔ واجپائی مجھے کرسی صدارت کے عقب میں لے گئے اور اپنا وعدہ وفا نہ کرنے پر اظہار افسوس کیا۔ اس بل کو شکست ہوئی لیکن میں نے اس سے دستبرداری سے انکار کردیا۔ وزیر اعظم آئی کے گجرال آگے بڑھے اور اس طرح بل واپس لے لیا گیا ( شاعرانہ انصاف اندرون چند سال میں ہی ہوگیا۔ 1999 میں واجپائی حکومت نے ویسا ہی بل ویسے ہی شق کے ساتھ منظور کیا جس میں ایف ڈی آئی کی شق بھی شامل تھی )
1999-1994 کے دوران میں رکن پارلیمنٹ نہیں تھا میں ایک کالم نگار بن گیا تھا اور اپنے کالموں میں واجپائی حکومت کو نہیں بخشا۔ اس پر تنقیدوں کے تیر برساتا رہتا۔ ایک مرتبہ بھی مجھے یہ احساس نہیں ہوا کہ واجپائی حکومت میں کوئی میرے ان کالموں کا گہرا مطالعہ کرتے ہوئے حکومت پر کی جانے والی تنقیدوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ واجپائی ان کالموں کو غور سے پڑھ رہے تھے۔
واجپائی ایک سچے جمہوریت پسند تھے جنہوں نے ہمیشہ اپوزیشن کے جائز کردار کو تسلیم کیا۔ تاریخ انہیں ایک اچھے رحمدل ، شریف النفس اور باوصف انسان کی حیثیت سے یاد رکھے گی۔
pchidambaram.india@gmail.com