غریب بیواؤں، طلبہ اور بے روزگاروں کی مالی امداد، ہمدردان ملت کا 30 سال قبل لگایا گیا پودا درخت میں تبدیل
حیدرآباد 16 مارچ (نمائندہ خصوصی) خدمت خلق سب سے بڑی عبادت ہے۔ دین اسلام میں غریبوں محتاجوں، بے بسوں، بے کسوں، لاچاروں، کمزوروں، مظلوموں کی مدد کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ کے بندوں پر رحم کرنے کا حکم دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد پاک ہے ’’اللہ تعالیٰ اُس شخص پر رحم نہیں کرتا جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان چاہے غریب کیوں نہ ہوں، دوسروں کی مدد میں سب سے آگے رہتے ہیں۔ ان کے دلوں میں لوگوں کے لئے رحم و ہمدردی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرہ میں ایسے کئی ہمدردان ملت اور تنظیمیں ہیں جو ہر سطح پر غریب مسلمانوں کی مدد میں مصروف ہیں۔ ان ہمدردان ملت کا مقصد ریاکاری نہیں بلکہ صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دل ملت کی غربت، اس کی تعلیمی، معاشی اور سماجی پسماندگی پر تڑپ اُٹھتے ہیں۔ ایسی ہی شخصیتوں میں افضل احمد، سید انور شریف، محمد ابراہیم، محمد سراج احمد، محمد تاج الدین، محمد سلیم، مرزا چشتی حسن بھی شامل ہیں جو مسلم ویلفیر سوسائٹی ورنگل کے ذریعہ بیواؤں، غریب و نادار طلباء و طالبات، بے روزگار نوجوانوں کی بھرپور مدد کررہے ہیں۔ اس کارخیر میں مسلم ویلفیر سوسائٹی ورنگل کو اس کے ارکان محمد عبدالکلیم، سید خواجہ نوراللہ حسینی، خواجہ مظہرالدین شمسی، غلام افضل بیابانی، محمد قاسم علی، عبدالجلیل خان اور سید عثمان کا غیر معمولی تعاون حاصل ہے۔ مسلم ویلفیر سوسائٹی و رنگل کی ملی و قومی خدمات کے بارے میں راقم الحروف نے اس کے صدر افضل احمد سے بات کی۔ انھوں نے بتایا کہ متحدہ آندھراپردیش اور پھر ریاست کی تقسیم کے بعد تلنگانہ میں ورنگل کو کافی اہمیت حاصل رہی اور اب بھی ہے لیکن دوسرے علاقوں کی طرح ورنگل کے مسلمان بھی تعلیمی، معاشی اور سماجی طور پر انتہائی پسماندہ ہیں لیکن ہمدردان ملت کی کوششوں کے باعث ورنگل کے مسلمانوں میں تعلیمی شعور بیدار ہوا ہے۔ ایک سوال پر جناب افضل احمد نے بتایا کہ سعودی عرب میں اپنے قیام کے دوران چند ہمدردان ملت کے ساتھ مل کر انھوں نے ورنگل کے غریب مسلمانوں کی مدد کا بیڑا اٹھایا اور 1989 ء میں مسلم ویلفیر سوسائٹی ورنگل قائم کی گئی۔ ابتداء میں چند بیواؤں کو ماہانہ وظائف دیئے جاتے تھے لیکن آج ماہانہ 170 بیواؤں کو فی کس 250 روپئے وظیفہ دیا جاتا ہے جبکہ ہر ماہ 5 غریب و نادار لڑکیوں کی شادیوں میں فی کس 3500 روپئے کی مالی اعانت فراہم کی جاتی ہے۔ اردو میڈیم اور امدادی اسکولوں کے طلباء و طالبات میں سالانہ 40 ہزار روپئے کے نوٹس بُکس تقسیم کی جاتی ہیں۔ انھوں نے مزید بتایا کہ حیدرآباد اور ورنگل کے ہمدردان ملت کے مالی تعاون سے چلنے والی اس سوسائٹی کے ذریعہ بے روزگار نوجوانوں کو روزگار کے قابل بنانے ڈرائیونگ بھی سکھائی جارہی ہے۔
ان کے لئے پلمبنگ جیسے تکنیکی کورس بھی چلائے جارہے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ سوسائٹی کی فلاحی سرگرمیوں پر سالانہ 4 تا 5 لاکھ روپئے خرچ کئے جاتے ہیں۔ جناب افضل احمد کے مطابق ابتداء میں صرف دو بیواؤں کو امداد کی فراہمی سے سوسائٹی کا آغاز ہوا اور آج اس کی سرگرمیاں کافی وسعت اختیار کرگئی ہیں۔ سوسائٹی کو این آر آئیز کا بھی تعاون حاصل ہے۔ روزنامہ سیاست کی طرح سوسائٹی کی طرف سے لاوارث نعشوں کی تجہیز و تکفین کا انتظام کیا گیا۔ اس کے علاوہ تاحال 3000 سے زائد خواتین و طالبات کو سلوائی اور ایمبرائیڈری کی تربیت دی جاچکی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماہ رمضان المبارک میں سوسائٹی کے مصارف میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ سوسائٹی نے سرکاری اسکیمات سے مسلمانوں کو مستفید کرانے کے لئے سیاست کی طرز پر ہیلپ لائن سنٹر قائم کی ہے جس کے ذریعہ شادی مبارک اسکیم، پوسٹ اور پری میٹرک اسکالرشپس، بیرونی یونیورسٹیز میں اعلیٰ تعلیم کی اسکیم سے استفادہ کے لئے رہنمائی کی جارہی ہے۔ سوسائٹی نے غریب مسلم بچوں کو دینی تعلیم کی فراہمی کا بھی انتظام کیا ہے اور اس کے لئے چار دیہاتوں کا انتخاب کیا گیا ہے۔ مسلم ویلفیر سوسائٹی ورنگل کے کارناموں میں سب سے اہم کارنامہ یہ ہے کہ اس نے مسلم لڑکیوں کیلئے آئیڈیل گرلز ہاسٹل کا قیام عمل میں لایا ہے جس سے دور دراز مقامات سے حصول علم کے لئے آنے والی لڑکیوں کو کافی مدد ملتی ہے۔ بہرحال مسلم ویلفیر سوسائٹی ورنگل کی فلاحی خدمات کے بارے میں جان کر ہمارے ذہن میں یہ بات آئی کہ اگر اس طرح کے ادارے ہر ضلع میں قائم کئے جائیں تو مسلمانوں میں ایک تعلیمی اور معاشی انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔