محمد ریاض احمد
ہندوستان میں فی الوقت عدم رواداری اپنے نقطہ عروج پر پہنچ چکی ہے ۔ اقلیتوں اور کمزور طبقات کو ان کے دستوری حقوق سے محروم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔ گنگا جمنی تہذیب کی سیکولر بنیادوں پر تعمیر ہمارے وطن عزیز کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی سازش رچی جارہی ہیں ۔ فرقہ پرست اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کیلئے ملک کے طول و عرض میں پائی جانے والی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہے ہیں ۔ قوم پرستی کے نام پر وہ سب کچھ کیا جارہا ہے جو ہندوستان جیسے کثرت میں وحدت کے حامل ملک کے لئے نقصان کا باعث بن سکتا ہے ۔ فرقہ پرستوں اور ان کے آقاؤں کی لاکھ کوششوں کے باوجود ہندوستانی معاشرہ رواداری ، محبت و مروت اور انسانیت نوازی کی خوبیوں کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہے ۔ سرزمین ہند پر جہاں کسی مسلمان کی جان بچانے کیلئے ہندو اپنا خون دینے کیلئے تیار ہوتا ہے وہیں اپنے ہندو پڑوسیوں کی زندگیاں بچانے کیلئے مسلمان اپنی جان قربان کردیتا ہے ۔ دوستی ہمدردی اور انسانیت کے ایسے مناظر سرزمین ہند پر اکثر دکھائی دیتے ہیں ۔ جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں تحریر کیا ہے کہ ہندوستان ایک پرآشوب دور سے گذر رہا ہے لیکن کسی بھی محب وطن ہندوستانی بالخصوص مسلمانوں کو نام نہاد و خود ساختہ قوم پرستوں اور ان کی فرقہ پرستی سے ڈرنے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ بے شک فرقہ پرستوں نے ہندوستان کی فضا اور ماحول میں فرقہ پرستی کی آلودگی پھیلائی ہے لیکن وہ ملک کے کونے کونے میں علم کی تخم ریزی کرتے ہوئے علوم کے پودوں کی شجرکاری کے ذریعہ فرقہ پرستی، ناانصافی ، ظلم و جبر ، تعصب و جانبداری کی آلودگی کا مقابلہ کرسکتے ہیں ۔ آج مسلمانوں کو سب سے زیادہ کسی چیز پر توجہ دینی ہے تو وہ ہے حصول علم ۔ اگر مسلمان تعلیمی شعبہ پر ساری توجہ مرکوز کردیں تو فرقہ پرست تو دور دنیا کی کوئی طاقت انھیں ترقی کی منازل طے کرنے سے نہیں روک سکتی ۔ یہی پیغام منگل کی شام دارالحکومت دہلی کے پرشکوہ باوقار انڈین اسلامک کلچرل سنٹر میں جمع دانشوروں ، مفکرین ، صحافیوں اور اسکالرس نے دیا ۔ ان میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق طالبعلم ، کامیابی کی بہترین مثال اور امریکہ میںکامیاب ہندوستانیوں میں سرفہرست فخرالاسلام (فرینک اسلام) بھی شامل ہیں ۔
یہ دانشور انڈین اسلامک کلچر سنٹر میں نیوز پورٹل مسلم مرر ڈاٹ کام کے زیر اہتمام منعقدہ مسلم مرر ایوارڈ برائے سال 2016 میں شرکت کیلئے جمع ہوئے تھے ۔ بزرگ صحافی اوم تھانوی نے اس پراثر اور اپنی طرز کی منفرد تقریب کی صدارت کی ۔ اس موقع پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ میں اہم کردار ادا کرنے والے مسلم میڈیا کے مدیران اور نمائندہ شخصیتوں کو ایوارڈس بھی پیش کئے گئے ۔ ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خان کو کارنامہ حیات ایوارڈ پیش کیا گیا ویسے بھی روزنامہ سیاست اب ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیمی و اقتصادی ترقی کی ایک تحریک بن چکا ہے ۔ تقریب میں صحافیوں ، دانشوروں ، مفکرین اور ہمدردان ملت کی موجودگی میں روزنامہ سیاست کی ملی و قومی خدمات پر مبنی پریزنٹیشن سے شرکاء کافی متاثر ہوئے ۔ ملک و بیرون ملک سے آئے مہمانوں کے مطابق انھیں اندازہ نہیں تھا کہ ہندوستان میں کوئی اخبار اس طرح منظم کام بھی کررہا ہے۔ پرزنٹیشن کے ذریعہ ایوارڈ تقریب کے شرکاء کو دکھایا گیا کہ روزنامہ سیاست ، ملت فنڈ کے ذریعہ غریب اور یتیم و یسیر طلباء و طالبات کو نہ صرف اسکالرشپس فراہم کرتا ہے بلکہ پیشہ ورانہ کالجس میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہاں ہونہار طلبہ کی بھرپور مالی مدد بھی کرتا ہے
جس کے نتیجہ میں بے شمار لڑکے لڑکیوں کو ایم بی بی ایس ، بی یو ایم ایس ، بزنس مینجمنٹ اور انفارمیشن ٹکنالوجی کے اعلی کورسس و اداروں میں داخلے ملے ہیں ۔ ان کی بھرپور مالی مدد ہوئی ہے ۔ پرزنٹیشن میں دی مسلم مرر ڈاٹ کام کے ذمہ داروں نے شرکاء کو دکھایا کہ سیاست کی جانب سے مسلم طلبہ کو ریاستی و مرکزی حکومتوں کے مسابقتی امتحانات ، انٹرویوز کیلئے تیار کیا جاتا ہے ۔ ان میں انگریزی کی مہارت کیسے پیدا کی جاتی ہے ، اردو اور انگریزی میڈیم سے تعلق رکھنے والے ایس ایس سی (میٹرک) کے لاکھوں طلبا و طالبات کیلئے آل ان ون کوئسچین بینک کی کتنی منظم پیمانہ پر تیاری و تقسیم عمل میں آتی ہے ۔ عربی دانی اور اردو دانی کی کلاسس کا کیسے اہتمام کیا جاتا ہے ۔ اس پرزنٹیشن میں حاضرین اور ملک و بیرون ملک کے مہمانوں کو یہ بھی دکھایا گیا کہ سیاست ہیلپ لائن کے ذریعہ پرائمری سطح سے لیکر ہائی اسکول اور پی ایچ ڈی تک لاکھوں مسلم طلباء و طالبات کیلئے مرکزی و ریاستی اسکالرشپس کیلئے آن لائن درخواستیں داخل کی جاتی ہیں ۔ ریاستی حکومت کی جانب سے ضعیفوں ، بیواؤں اور معذورین کو دیئے جانے والے وظائف کے حصول میں بڑے پیمانے پر رہنمائی کی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ مسلم نوجوانوں کو ریلوے ، فوج ، پولیس اور دوسرے ریاستی و سرکاری محکموں میں ملازمتیں دلانے کیلئے تیار کیا جاتا ہے ، تربیت فراہم کی جاتی ہے ۔ سیاست کی ان کوششوں کے بہتر نتائج برآمد ہورہے ہیں ۔ چنانچہ محکمہ پولیس میں تاحال 11000 سے زائد مسلم نوجوانوں کو ملازمتیں مل چکی ہیں ۔ فوج میں بھی درجنوں مسلم نوجوانوں کی بھرتیاں عمل میں لائی گئیں ۔ پرزنٹیشن کے ذریعہ شرکاء کے علم میں یہ بات بھی لائی گئی کہ معذورین اور کینسر کے مریضوں کی بھی سیاست ملت فنڈ سے مدد کی جاتی ہے ۔ اسی طرح گجرات اور اترپردیش میں مسلم کش فسادات میں بھی سیاست ملت فنڈ کے ذریعہ متاثرین کی بڑے پیمانے پر مدد کی گئی ۔ مظفرنگر فسادات کے متاثرین کے بچوں کیلئے اسکولس کھولے گئے ۔
خواتین کیلئے دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ آمدنی کے وسائل پیدا کرنے کا باعث بننے والے کورسس شروع کئے گئے ۔ خود دارالحکومت دہلی میں مقامی تنظیموں کے تعاون و اشتراک سے غریب بچوں کیلئے تعلیم و تربیت کا انتظام کیا گیا ۔ کشمیر سیلاب میں بھی متاثرین کیلئے دواؤں ، گرم کپڑوں ، بستروں کا انتظام کیا گیا وہاں بھی خواتین کیلئے فنی ادارے کھولنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے ۔ روزنامہ سیاست کی سرگرمیوں پر مبنی اس پرزنٹیشن کا مشاہدہ کرنے کے ساتھ ہی شہ نشین پر موجود ممتاز شخصیتوں اور شرکاء نے ایستادہ ہو کر تالیاں بجاتے ہوئے سیاست کی ملی و قومی خدمات کو بھرپور خراج تحسین پیش کیا ۔ انڈین اسلامک کلچر سنٹر اپنی تنگ دامنی کا شکوہ کررہا تھا ۔اس موقع پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبائے قدیم اور دانشوروں کی ایک اس کہکشاں میں جناب سید علی رضوی (امریکہ) جناب منظور غوری (امریکہ) ایس ایم قطب الرحمن (متحدہ عرب امارات) منیجنگ ایڈیٹر سیاست جناب ظہیر الدین علی خان اور دیگر موجود تھے ۔ جناب زاہد علی خان کو کارنامہ حیات ایوارڈ عطا کیا گیا ۔ مسٹر فرینک اسلام (فخر الاسلام) نے بطور خاص یہ ایوارڈ جناب زاہد علی خان کو پیش کیا ۔ یہ لمحہ اس لئے بھی بڑا یادگار تھا کیونکہ وہاں جو شخصیت ایوارڈ پیش کررہی تھی یعنی فخر الاسلام اور جو شخصیت ایوارڈ قبول کررہی تھی یعنی جناب زاہد علی خان ان دونوں میں کئی لحاظ سے کئی باتیں مشترک ہیں ۔ دونوں کا مقصد و مشن ہی تمام شعبوں میں مسلمانوں کی ترقی و خوشحالی اور ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کا تحفظ ، اس کے وقار کی حفاظت ہے ۔ فرینک اسلام نہ صرف ہندوستان ، سارے برصغیر بلکہ سارے عالم عرب میں اُس تعلیمی انقلاب کے متمنی ہیں جسے سرسید احمد خاں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد ڈالتے ہوئے برپا کیا تھا ۔اس طرح جناب زاہد علی خان روزنامہ سیاست کے ذریعہ ہندوستانی مسلمانوں میں ایک تعلیمی انقلاب برپا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں چنانچہ علماء و دانشوروں نے روزنامہ سیاست کو ایک اخبار نہیں بلکہ مسلمانوں میں تعلیمی معاشی اور سیاسی شعور کی بیدار کرنے والا ایک مشن اور ایک تحریک سے تعبیر کیا ہے ۔ بہرحال فرینک اسلام کے ہاتھوں جہاں زاہد علی خان صاحب کو کارنامہ حیات ایوارڈ عطا کیا گیا وہیں ملک میں مسلمانوں کی حالت زار پر گہری نظر رکھتے ہوئے ان میں شعور بیدار کرنے میں مصروف ایک اور علمی شخصیت ڈاکٹر جاوید جمیل کو شخصیت برائے سال 2016 کا ایوارڈ عطا کیا گیا ۔ صحافت سے جڑی جن دیگر شخصیتوں کو نمایاں خدمات کیلئے ایوارڈس عطا کئے گئے ان میں او عبدالرحمن ، مزمل جلیل ، رعنا ایوب (تحقیقاتی صحافت) جناب ظفر الاسلام خاں (انگریزی صحافت) شکیل شمسی ،اقبال احمد ، شہاب الدین یعقوب ، ممتاز عالم ، عمران حسینی ایم پی ایڈیٹر قلم (بنگالی روزنامہ) جناب وسیم الحق ایم پی چیف ایڈیٹر اخبار مشرق اور کارٹونسٹ یوسف منا کے علاوہ دیگر شامل ہیں ۔ جہاں تک فرینک اسلام کا سوال ہے ان کا شمار دنیا کے سرفہرست دانشوروں ، مفکرین ، صنعت کاروں اور فلاح کاروں میں ہوتا ہے ۔ شہری تعلیمی اور فنون لطیفہ کے شعبوں میں عالمی سطح پر ان کی خدمات قابل ستائش ہیں ۔امریکی صدر بارک اوباما کے بااعتماد رفقاء میں فرینک اسلام کا شمار ہوتا ہے ۔
اترپردیش کے اعظم گڑھ کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والے فخر الاسلام جنھوں نے ایک مقامی اسکول میں تعلیم حاصل کی تھی اپنی ذہانت ، دیانتداری اور محنت کے ذریعہ امریکہ میں اپنا ایک خاص مقام پیدا کیا ہے ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ریاضی میں بی ایس سی اور ایم ایس سی کرنے والے فخر الاسلام خود بتاتے ہیں کہ وہ بہت ہی کم عمر میں اعلی تعلیم کیلئے امریکہ گئے تھے ۔ اور امریکہ کی باوقار کلورائیڈو یونیورسٹی سے انفارمیشن ٹکنالوجی میں پوسٹ گریجویشن کی تکمیل کی ۔ 1969ء میں جب وہ امریکہ پہنچے تھے تب اس کم عمر نوجوان کے جیب میں صرف 15 ڈالرس تھے ۔ اگرچہ ان کی جیب میں رقم بہت کم تھی تاہم ان کے عزائم اور ارادے ایک ارب پتی صنعت کار کی طرح بلند تھے ۔ فرینک اسلام پر قدرت ہمیشہ مہربان رہی ۔ 1994 میں انھوں نے صرف ایک ملازم کے ساتھ QSS گروپ کی بنیاد ڈالی تھی ۔ اس وقت فرینک اسلام کی جیب میں صرف 500 ڈالرس پڑے تھے لیکن اپنی محنت وقت کی پابندی اور دیانتداری کے ذریعہ صرف 13برسوں میں انھوں نے اپنی کمپنی کو بام عروج پر پہنچادیا ۔ چنانچہ 2007 میں انھوں نے جب QSS گروپ فروخت کیا تھا اس وقت ملازمین کی تعداد 2000 سے زائد اور اس کی قدر 300 ملین ڈالرس تک پہنچ چکی تھی ۔ فی الوقت وہ FI انوسٹمنٹ گروپ کے سربراہ ہیں ۔ انھوں نے حال ہی میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو 2 ملین ڈالرس کا عطیہ دیا اور 4 دن قبل ہی یونیورسٹی میں بزنس منیجمنٹ کامپلکس کا اپنی اہلیہ کے ہمراہ سنگ بنیاد بھی رکھا ۔ فرینک اسلام ہفنگٹن پوسٹ کے علاوہ فارن پالیسی ، دی انٹرنیشنل بزنس ٹائمس ، اکنامک ٹائمز آف انڈیا وغیرہ کیلئے کالم لکھا کرتے ہیں ۔ انھوںنے دو کتابیں لکھی ہیں اور اب تیسری کتاب کی تیاری میں مصروف ہیں ۔ فرینک اسلام امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں اور اداروں کے مشاورتی بورڈس میں بھی شامل ہیں ۔ ان کے فلاحی کاموں میں اہلیہ ڈیبی ڈریس مین بھرپور تعاون کرتی ہیں چنانچہ دونوں نے ملکر ہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں فرینک اینڈ ڈیبی مینجمنٹ کامپلکس کا سنگ بنیاد رکھا ۔ فرینک اسلام مارٹن لوتھر کنگ جونیئر ایوارڈ برائے فلاحی خدمات حاصل کرنے کابھی اعزاز رکھتے ہیں ۔ بہرحال مسلم مرر کی اس ایوارڈ تقریب نے مسلمانان ہند پر ایک اچھا اثر چھوڑا ہے ۔ امید ہے کہ اس سے دوسروں کو بھی ایک نیا عزم و حوصلہ ملے گا ۔
mriyaz2002@yahoo.com