مسلم خواتین کو بااختیار بنانے اردو میڈیم اسکولس کا تحفظ ضروری

محمد مصطفی علی سروری
ریاست تلنگانہ میں اردو میڈیم اسکولس کی گھٹتی ہوئی تعداد چاہے کسی کے لئے بُری خبر ہو یا نہ ہو مسلمان لڑکیوں اور خواتین کے لیئے یہ ایک بُری خبر ہی ہے۔ اسکول ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ اس حوالے سے بہتر بتاسکتا ہے کہ تعلیمی سال 2016-17  کے دوران ریاست تلنگانہ کے کتنے سرکاری اسکولس میں داخلوں کی شرح صفر رہی ہے آف دی ریکارڈ بات کرتے ہوئے بہت سارے اردو میڈیم اسکولس کے ذمہ داروں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ حکومت تلنگانہ نے جن اقلیتی ریسیڈنشیل اسکولس کا بڑے پیمانے پر آغاز کیا ہے ا سکا سب سے بُرا اثر اردو میڈیم اسکولس میں داخلوں پر پڑا ہے۔اردو میڈیم اسکولس میں داخلے کم ہوتے ہیں یا نہیں ہوتے ہیں تو اُس سے لڑکیوں اور مسلم خواتین پر بُرا اثر کیسے ہوسکتا ہے۔
اسی بات کو سمجھنے کے لیئے ہمیں ریٹائرڈ آئی اے ایس آفیسر جی سُدھیر کی مرتب کردہ رپورٹ کا سہارا لینا پڑے گا اگسٹ 2016 میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق تلنگانہ سیکریٹریٹ کے (23 ) محکموں میں جملہ (35279) پنتیس ہزار دو سو انیاسی مسلمان بطور سرکاری ملازم بر سرکار ہیںمیں مسلم خواتین کی تعداد (8105 )آٹھ ہزار ایک سو پانچ ہے یہاں پر چونکہ ہمارا موضوع صرف مسلم لڑکیوں اور خواتین کی ملازمت کو لا حق خطرات سے ہے۔ تو ہم صرف مسلم خواتین سرکاری ملازمین کی تعداد تک ہی اپنے آپ کو محدود رکھیں گے۔سب سے اہم اور دلچسپ بات تو یہ ہے کہ تلنگانہ سیکریٹریٹ کے صرف ایک محکمے میں ہی (4248 ) خواتین کام کرتی ہیں۔ جی ہاں سرکاری ملازمت کرنے والی تلنگانہ کی مسلم خواتین کی نصف تعداد صرف ایک محکمے میں ہے جو کہ محکمے تعلیمات ہے۔
سُدھیر کمیشن کی رپوٹ کے صفحے نمبر (137 ) پر درج جدول نمبر (8.4 )کو ملاحظہ کریں تو مزید واضح ہوجائے گا جو (4248 ) مسلم عورتیں محکمے تعلیمات میں کار گذار ہیں اُن میں سے (86.9)فیصدی مسلم عورتیں اسکول ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ میں کام کرتی ہیں۔
جی ہاں تلنگانہ کے مسلمان عورتوں کی اکثریت جو کہ سرکاری شعبہ میں ملازمت کر رہی ہیں وہ اسکول ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ میں زیادہ تر بطور ٹیچر کار گذار ہیں۔ اور وہ بھی اُردو میڈیم اسکولس میں اب جب اس طرح کی غیر مصدقہ اطلاعات عام ہوتی جارہی ہیں کہ اقلیتوں کے لیئے کھولے گئے ریسیڈنشیل اسکولس کے آغاز کے بعد سے اُردو میڈیم اسکولس میں داخلے گھٹ گئے یا نہیں کے برابر ہوتے ہیں تو اس کے نتیجے میں آئندہ سال طلباء کی کم تعداد کو بنیادبناکر اُردو میڈیم اسکولس ضم کر دیئے جائینگے بظاہر تو یہ حکومت کی واجبی پالیسی لگتی ہے کہ جن اسکولس میں طلباء ہی کم ہیں اُن کو قریبی دوسرے اسکولس میں merge کردینا ضروری ہے۔ مگر ایک اسکول کو دوسرے میں ضم کردینے کا مطلب کہ اُس اسکول کی منظورہ ساری ٹیچرس کی جائیدادیں ختم۔ یوں جو مسلم لڑکیاں ریاست تلنگانہ میں B.ed’D.ed اور دیگر ٹیچرس ٹریننگ کے کورسزیز مکمل کر رہی ہیں اُنکے لیئے سرکاری ملازمت کے دروازے گویا بند ہوتے جارہے ہیں اور انکے لیئے دستیاب مواقع کم سے کم تر ہوتے جارہے۔
اس پس منظر میں اُردو میڈیم اسکولس کا استحکام‘ اُردو میڈیم اسکولس کی مخلوعہ جائیدادوں پر تقرارت اور اس سے جڑے موضوعات پر نمائندگی دراصل مسلم خواتین کو سرکاری ملازمت کے لیئے کی جانے والی نمائندگی ہے۔
تلنگانہ کے مسلم خواتین کی اکثریت جو سرکاری ملازمت کر رہی ہیں وہ اُردو میڈیم اسکولس میں ہی کررہی ہیں ساتھ ہی یہ بھی سچ ہے کہ اُردو میڈیم کبھی بھی تلنگانہ کے مسلمانوں کی پہلی ترجیح نہیں رہا ہے۔
درج ذیل جدول جو کہ RTI کے تحت ڈپٹی کمشنر آف گورنمنٹ ایکزامس سے حاصل کیا گیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی پہلی ترجیح کیا ہے۔
یس یس سی 2016 کے امتحانات (مسلم طلباء)
جملہ مسلم طلباء کی تعداد
71411
اردو میڈیم مسلم طلباء کی تعداد
11900
تلگو میڈیم مسلم طلباء کی تعداد
8865
انگلش میڈیم مسلم طلباء کی تعداد
50590
ہندی میڈیم مسلم طلباء کی تعداد
36
کنڑا میڈیم مسلم طلباء کی تعداد
14
مراٹھی میڈیم مسلم طلباء کی تعداد
6
(71411) مسلم طلباء نے یس یس سی کا امتحان مارچ 2016 میں لکھا تھا اور ان میں سے صرف (11900)گیارہ ہزار نو سو مسلم طلباء نے اردو میڈیم سے یس یس سی کے امتحان میں شرکت کی۔ یعنی صرف 16 فیصدی مسلمان اردو میڈیم سے تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن جن اسکولوں سے مسلمانوں کے صرف 16 فیصد بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ وہ اسکولس ریاست تلنگانہ میں سرکاری ملازمت کرنے والی (86.9)فیصدی مسلمخواتین کو ان کی ملازمت کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔
ناکام تو انگلش میڈیم سے پڑھنے والے طلباء بھی ہوتے ہیں۔ ناکامی کی وجوہات کا پتہ لگاکر ان کو حل کرنا اصل بات ہے۔ اگر حکومت کے پالیسی ساز ادارے مسلم خواتین کو بااختیار بنانے سنجیدہ ہیں تو انھیں اس بات کا خاص خیال رکھنا ہوگا کہ مسلم خواتین کی اسی فیصد فیصدی تعداد سرکاری ملازمت کررہی تو صرف اسکول ایجوکیشن کے ڈپارٹمنٹ میں تو مسلم خواتین کی ملازمت کے ان مواقعوں کا تحفظ کرنا بھی ضروری ہے۔
میں بڑی ذمہ داری کے ساتھ اس بات کی شکایت بھی کرنا چاہونگا کہ جی سدھیر آئی اے ایس کی تیار کردہ رپوٹ میں بھی اردو میڈیم اسکولس اور اردو میڈیم کے طلباء کے متعلق غلط مفروضات پر نتائج اخذ کرلیئے گئے ہیں جیسے رپوٹ کے صفحہ نمبر (57)پر درج (3.12)نوٹ کے تحت 10 برس قبل کے آندھراپردیش اردو اکیڈیمی کے ایک ایسے سروے کا بطور ریفرنس استعمال کیاگیا جو کہ اردو میڈیم کے اسکولس کے مسائل صحیح طریقے سے احاطہ نہیں کرسکا اور بجائے اکیڈیمی کے اس سروے کی اصل رپوٹ پر انحصار کرنے کے انٹرنیٹ پر دستیاب ایک ویب پورٹل کی خبر کا سہارا لیا گیا۔
سدھیر کمیٹی کی رپوٹ میں موجود خامیوں کی فہرست تو کافی طویل ہے لیکن اردو میڈیم اسکولس کے متعلق رپوٹ میں ایک اور غلط نکتہ بیان کیا گیا ملاحظہ ہو سدھیر کمیشن رپورٹ صفحہ نمبر (152) کے پہلے پیراگراف میں کہاگیا کہ تلنگانہ میں مسلم طلباء کی اکثریت اردو اور تلگو میڈیم سے تعلیم حاصل کررہی ہے حالانکہ ہم اپنے اس کالم کے ابتداء میں قانون حق معلومات کے ذریعہ حاصل کردہ ان اعداد و شمار کو پہلے ہی بتلا چکے ہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت انگلش میڈیم سے ہی تعلیم حاصل کررہی ہے۔
یس یس سی 2016 امتحان میں شریک
مسلمانوں کی جملہ تعداد
اردو میڈیم سے پڑھنے والے مسلمان
16.66 فیصد
تلگو میڈیم سے پڑھنے والے مسلمان
12.4 فیصد
انگلش میڈیم سے پڑھنے والے مسلمان
70.8 فیصد
سدھیر کمیشن کی رپوٹ کی بنیادوں پر اب بی سی کمیشن مسلمانوں بھی تحفظات کے مطالبات پر غور کررہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے اردو میڈیم کے سرکاری اسکولس اور امدادی اسکولس ہر دوکا تحفظ کیا جائے کیونکہ یہ اسکولس جہاں 16.6 فیصدی مسلمانوں کو زیو رتعلیم سے آراستہ کرتے ہیں وہیں تلنگانہ کی مسلم خواتین کے لئے تقریباً (87) فیصدی ملازمت فراہم کرنے کا ذریعہ بھی بنے ہوئے ہیں۔
مسلمانوں کو مساویانہ ترقی کے لئے جہاں تحفظات ضروری ہیں وہیں مسلم خواتین کے لئے روزگار کے مناسب مواقع یقینی بنانا بھی اتنا ہی اہم ہے اس ضمن میں حقیقت پسندانہ اور زمینی حقیقتوں کو مدنظر رکھ کر پالیسیوں کو  تشکیل دینا بھی ضروری ہے۔
تحفظات کی فراہمی حکومت کی دستوری ذمہ داری ہے۔ مگر یہ خود مسلمانوں کی اور خاص کر مسلم دانشور اور تھنک ٹینک کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ قانونی دائرے کار میں تحفظات کے حصول کے لئے ہر ممکنہ اقدامات کرے اور خاص کر بی سی کمیشن کوٹھوس حقائق اور اعداد وشمار فراہم کریں کیونکہ بی سی کمیشن نے بھی اپنی سماعت کا آغاز کرنے کیلئے سدھیر کمیشن کی رپوٹ کو بنیاد بنایا ہے اور سدھیر کمیشن کے اعداد و شمار و حوالے ایسے بھی ہیں جن میں خامیاں ہیں اور جن پر اعتراضات کئے جاسکتے ہیں۔ اس پس منظر میں بی سی کمیشن خود بھی اپنے طورپر عوامی سماعت کے علاوہ مختلف محکموں اور دفاتر کے ساتھ ساتھ ایسے تمام محکموں سے تفصیلات اکھٹا کرے جہاں سرکار کی شراکت داری ہے۔ ان اداروںمیں حیدرآباد کا انٹرنیشنل ایر پورٹ اور حیدرآباد میٹروریل بھی شامل ہیں۔
سدھیر کمیشن نے تلنگانہ کے 208 سرکاری محکموں سے تفصیلات طلب کی تھی لیکن (77) سرکاری محکموں نے کمیشن کو کوئی جواب نہیں دیا۔ BC کمیشن ان بقیہ (77)محکموں سے لازماً اعداد وشمار جمع کرسکتا ہے اور اردو میڈیم کے سرکاری وامدادی اسکولس کے متعلق درست تجزیہ کرتے ہوئے ان کے استحکام کے لئے اپنی ٹھوس سفارشات کو شامل رپوٹ کرسکتا ہے تاکہ عدالتی چارہ جوئی کی صورت میں بھی تحفظات کی حکومتی پالیسی پر عمل آوری میں کسی طرح کی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔
sarwari829@yahoo.com