* بجٹ سیشن میں ٹی آر ایس چھا گئی
* کانگریس نے عوام کو مایوس کیا
محمد نعیم وجاہت
اسمبلی کا بجٹ سیشن حکمراں ٹی آر ایس کے نام رہا۔ ابتداء سے اختتام تک ٹی آر ایس نے اپوزیشن کو چاروں خانے چت کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ اپوزیشن کا رول ادا کرنے میں کانگریس ناکام رہی جبکہ بی جے پی اپنے وجود کا احساس دلانے میں کامیاب رہی۔ پھر ایک مرتبہ مسلم تحفظات کے مسئلہ کو ٹال دیا گیا۔ اسمبلی کا خصوصی اجلاس طلب کرنے کے لئے کوئی سرگرمیاں شروع نہیں ہوئیں۔ وزیر فینانس ایٹالہ راجندر نے 13 مراچ کو لگ بھگ دیڑھ لاکھ کروڑ کا ریاستی مجموعی بجٹ پیش کیا ہے۔ علیحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد ایٹالہ راجندر نے مسلسل چوتھا بجٹ پیش کیا۔ بجٹ کے ذریعہ حکمراں ٹی آر ایس نے اپنے منصوبوں، پالیسیوں، اسکیمات کو ریاست کے 4 کروڑ عوام کے سامنے پیش کردیا۔ حکومت کا یہ بجٹ دیہی معیشت کو مستحکم کرنے اور چھوٹے چھوٹے پیشوں سے وابستہ افراد کی زندگیوں میں خوشحالی لانے کا موجب بنے گا۔ اگر پوری طرح ایمانداری اور دیانتداری سے کام کیا جاتا ہے، یقینا سماج کے وہ طبقے جنھیں کچھ عرصے سے نظرانداز کردیا گیا تھا ان میں دوبارہ خود اعتمادی پیدا ہوسکتی ہے۔ 4000 کروڑ روپئے کے مصارف سے 88 لاکھ بھیڑ بکرے خریدنے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوجاتا ہے تو سالانہ 20 ہزار کروڑ روپئے کی آمدنی ہوگی۔ اس کے علاوہ موسٹ بیاک ورڈ کلاسیس (ایم بی سی) طبقات کے لئے ایک نیا کارپوریشن بناتے ہوئے ان طبقات کی فلاح و بہبود کے لئے بجٹ میں کارپوریشن کو 1000 کروڑ روپئے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ مچھلیوں کی افزائش اور اس کی مارکٹنگ کے لئے بھی خصوصی حکمت عملی تیار کی گئی ہے۔ ٹی آر ایس حکومت نے سال برائے 2017-18 ء کے بجٹ میں ریاست کی 56 فیصد آبادی بی سی طبقات کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لئے ساری توانائی صرف کردی ہے۔ آئندہ 2 سال میں جو منصوبے تیار کئے گئے ہیں وہ پورے ہوتے ہیں تو ٹی آر ایس کے لئے بہت بڑی کامیابی کی اُمید بن سکتی ہے۔ چیف منسٹر کے سی آر نے آئندہ سال بی سی طبقات کے لئے سب پلان بنانے کا بھی اعلان کردیا ہے۔ سماج کے دوسرے طبقات کو بھی لبھانے کی ہرممکن کوشش کی ہے۔ مگر اپوزیشن بالخصوص کانگریس نے حکومت کے وعدوں کی عدم تکمیل، ناکامیوں، غلطیوں، بے قاعدگیوں اور دھوکہ دہی کا پردہ فاش کرنے اور عوامی عدالت میں ٹی آر ایس کو قصوروار قرار دینے میں ناکام رہی۔ تلگودیشم کو اس لئے بھی زیادہ قصوروار قرار نہیں دیا جاسکتا کیوں کہ اسمبلی میں اس کے صرف 3 ارکان ہیں۔ جن میں 2 ارکان کو ابتداء سے اختتام سیشن تک ملتوی کردیا گیا۔ کانگریس کی جانب سے ایوانوں میں حکومت کو جھجھوڑنے کے لئے کوئی خاص حکمت عملی تیار نہیں کی گئی۔ اگر تیار بھی کی گئی تو اس کی ناکامی پر دوسرے فارمولے کو آزمانے کی کسی طرح بھی کوشش نہیں کی گئی۔ گزشتہ 23 سال کے دوران کانگریس کو 10 سال اقتدار اور 13 سال اپوزیشن میں رہنے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ تجربہ مستقبل کی حکمت عملی تیار کرنے کے لئے کانگریس کو کارآمد ہوسکتا ہے لیکن کانگریس پارٹی نے توقع کے مطابق ایوانوں میں مظاہرہ نہ کرتے ہوئے عوام کو مایوس کیا ہے جبکہ ریاست میں بی جے پی کے صرف 5 ارکان اسمبلی ہیں جنھیں اقتدار کا کوئی تجربہ بھی نہیں ہے۔ باوجود اس کے بی جے پی کے ارکان نے حالیہ انتخابات میں بی جے پی کی شاندار کامیابی سے حوصلہ پاکر عوامی مسائل پر حکمراں ٹی آر ایس کے سامنے کئی چیالنجس پیدا کردیئے۔ 119 رکنی تلنگانہ اسمبلی میں ٹی آر ایس کے 90 ارکان اسمبلی کے سامنے اپنی عددی طاقت کی پرواہ کئے بغیر عوامی مسائل پر حکومت کو گھیرنے کا کوئی بھی موقع نہیں گنوایا ہے۔ جبکہ چیف منسٹرت لنگانہ کے سی آر وزیراعظم نریندر مودی سے بہت زیادہ متاثر ہیں۔ نوٹ بندی کی کھل کر تائید کی اور دوسرے معاملات میں بھی مرکز سے زور آزمائی کے بجائے نرم رویہ رکھتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے۔ باوجود اس کے بی جے پی نے ریاست میں ٹی آر ایس سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ ٹی آر ایس حکومت کی کمزوریوں کو اپنی طاقت بنانے کے لئے ہر وہ کام کیا ہے جس سے بی جے پی مستحکم ہوتی ہے۔
اپنی حکمت عملی میں بی جے پی اس قدر آگے بڑھ گئی کہ حکمراں ٹی آر ایس نے بی جے پی کے ارکان کو دو دن کے لئے ایوان کی کارروائی سے معطل کردیا۔ بی جے پی نے مسلم تحفظات کے معاملے میں آگے بڑھتے ٹی آر ایس کے قدم کو روک دیا۔ مسلم تحفظات کے خلاف چلو اسمبلی ریالی منظم کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کرائی۔ بی جے پی کے ان منصوبوں سے حکومت کے ہوش اُڑ گئے۔ چیف منسٹر کے سی آر کو وضاحت کرنی پڑی کہ ٹی آر ایس حکومت مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کو کوئی نئے تحفظات نہیں دے رہی ہے۔ ریاست میں پہلے سے مسلمانوں کو تحفظات ہیں۔ اس میں مزید 5 تا 6 فیصد تحفظات کی توسیع کے لئے قرارداد منظور کرتے ہوئے مرکزی حکومت اور سپریم کورٹ سے رجوع ہوگی۔ کانگریس نے اپنے دور حکومت میں متعارف کردہ فلاحی اسکیمات پر ٹی آر ایس کی جانب سے عمل آوری کرانے کا حکومت کو احساس دلانے اور حقائق سے عوام کو واقف کرانے میں ناکام رہی۔ مگر بی جے پی نے مرکز کی اسکیمات سے ریاست کو ہونے والے فائدوں کو گنواتے ہوئے حکمراں ٹی آر ایس کو تسلیم کرنے کے لئے کئی مرتبہ مجبور کردیا۔ ایک مرتبہ وزیراعظم کا نام لینے اور ریمارکس کرنے پر اسپیکر کے پوڈیم کے قریب پہونچ کر ٹی آر ایس کے ارکان نے احتجاج کیا۔ دوسرے دن ریاستی وزیر برقی جگدیش ریڈی نے معذرت خواہی کرتے ہوئے اپنے غیر پارلیمانی الفاظ سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا۔ بجٹ سیشن کے دوران وزراء اور ٹی آر ایس کے ارکان اسمبلی نے حکومت کے ترقیاتی، تعمیری اور فلاحی اقدامات کی ستائش کرتے ہوئے 60 سال کے دوران ملک و ترقی کے لئے کانگریس کی جانب سے کوئی ٹھوس اقدامات نہ کرنے کا دعویٰ کیا۔ تین سالہ ٹی آر ایس حکومت اور کانگریس و تلگودیشم کی ماضی کی حکومتوں کا تقابلی جائزہ پیش کیا۔ ریاست اور سماج کے مختلف طبقات کی پسماندگی، غربت، تعلیمی پسماندگی، آبپاشی پراجکٹس کی عدم تعمیرات کے علاوہ مجموعی طور پر ناکامی کے لئے کانگریس و تلگودیشم کو مورد الزام قرار دیا مگر کانگریس کے 13 ارکان صرف تماشائی بنے رہے۔ ایسا لگ رہا تھا کانگریس کے ارکان نے ہار مان لی ہے۔ یا ان کے ہوم ورک میں کمی تھی۔ یہ حقیقت اسمبلی میں حکمراں ٹی آر ایس کی عدد طاقت 90 ہے۔ کانگریس کے صرف 13 ارکان ہیں باوجود اس کے کانگریس اپوزیشن کا متاثرکن مظاہرہ کرنے میں ناکام رہی۔ وہیں بی جے پی کے 5 ارکان حکمراں ٹی آر ایس پر بار بار حملہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایوان میں عددی طاقت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ بشرطیکہ ہوم ورک صحیح ہونا چاہئے۔ متحدہ آندھراپردیش کے 294 رکنی اسمبلی میں لوک ستہ کے سربراہ جئے پرکاش نارائن اپنی جماعت کے واحد رکن تھے۔ تاہم عوامی مسائل پر پوری تیاری کے ساتھ اسمبلی پہونچتے تھے اور مباحث میں مدلل دلائل پیش کرتے ہوئے غلطیوں کو سامنے رکھتے تھے۔ اور ان کی جانب سے پیش کئے جانے والی تجاویز کا احترام کیا جاتا تھا۔جبکہ تلنگانہ اسمبلی میں کانگریس کے 13 ارکان اسمبلی ہیں جن میں نصف سے زیادہ ارکان کو 4 تا 6 مرتبہ اسمبلی کے لئے منتخب ہونے اور مختلف وزارتوں پر خدمات انجام دینے کا تجربہ ہے۔ باوجود ان کی اسمبلی میں عوامی مسائل کو پیش کرنے میں ناکامی قابل غور ہے۔ کانگریس کے ارکان اسمبلی کو محاسبہ کرنا چاہئے کہ وہ عوامی توقعات پر کھرا اُترنے میں ناکام کیوں ہورہے ہیں۔ پڑوسی ریاست آندھراپردیش میں وائی ایس آر کانگریس پارٹی اپوزیشن کا تعمیری رول ادا کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہے۔ قائد اپوزیشن جگن موہن ریڈی پوری تیاری کے ساتھ اسمبلی میں پہونچ رہے ہیں اور ہر واقعہ پر ریاست کے کسی بھی کونے میں پہونچتے ہوئے مصیبت زدہ عوام کو بھروسہ دلارہے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کانگریس کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ کوئی نہ کوئی اسٹانڈ لے۔ سارے ملک میں کانگریس پارٹی روبہ زوال ہے اور فرقہ پرست بی جے پی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ علیحدہ تلنگانہ ریاست تشکیل دینے کے باوجود اُس وقت کے حالات نے کانگریس کو اقتدار سے محروم کردیا۔ پہلی مرتبہ تنہا مقابلہ کرتے ہوئے نئی ریاست میں ٹی آر ایس نے 2014 ء کے عام انتخابات میں عوامی اعتماد حاصل کرلیا۔ چیف منسٹر نے اپوزیشن کے منتخب عوامی نمائندوں کو حکمراں جماعت میں شامل کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کو مزید کمزور کردیا۔
کانگریس پارٹی دور جدید کے چیالنجس سے نمٹنا چاہتی ہے تو وہ سب سے پہلے اپنا محاسبہ کرے۔ قدیم سیاسی جماعت کو خطرہ دوسری جماعتوں سے کم اور اپنے قائدین سے زیادہ ہے۔ کانگریس کی شکست کے لئے کانگریس کے قائدین ہی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ یہ بات شائد کانگریس قائدین کے لئے کڑوی لگے مگر حقیقت تو یہی ہے تاریخ گواہ ہے کئی مثالیں سامنے ہے۔ سب سے پہلے کانگریس قائدین میں اتحاد کا فقدان ہے۔ گروپ بندیوں نے کانگریس کو دیمک کی طرح کمزور کردیا ہے۔ کانگریس کے قائدین نظریاتی اختلافات کو فراموش کرنے اور قربانی دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے بلکہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں اپنی کامیابی تصور کرتے ہیں اور کسی بھی قائد کو آسانی سے قبول نہیں کرتے۔ ہر چھوٹے بڑے انتخاب میں کانگریس کو شکست ہورہی ہے۔ اس کا محاسبہ نہیں کرتے اور نہ ہی غلطیوں سے سیکھنے کی حکمت عملی تیار کی جاتی ہے۔ پارٹی میں سینئر و جونیر قائدین کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے اور نہ ہی جونیر قائدین سینئر قائدین کی عزت و احترام کرتے ہیں۔ سچ کہا جائے تو کوئی بھی ایک دوسرے کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ ہر معاملہ صرف تلنگانہ تک محدود نہیں ہے۔ اے آئی سی سی بھی اسی صورتحال کا شکار ہے۔ کانگریس قائدین میں رابطہ کا فقدان ہے۔ سینئر قائدین جونیر قائدین کو اپنے لئے خطرہ محسوس کرتے ہوئے ان کی ٹانگ کھینچنے میں مصروف ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سینئر قائدین اپنی قابلیت اور تجربہ کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے جونیر قائدین کے جوش و جذبہ کو پارٹی کے لئے طاقت بنانے، گاندھی بھون میں بیٹھ کر ترتیب دیئے جانے والے فیصلوں کو منڈل سطح تک پہونچانے کا کوئی نظام نہیں ہے جو قائدین کانگریس کے 10 سالہ حکمرانی میں وزارتی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں وہ میدان میں رہنے کے بجائے یا تو کانگریس سے مستعفی ہوچکے ہیں یا گھروں یا بزنس تک محدود ہوچکے ہیں۔ پارٹی کے لئے کسی بھی قسم کا تعاون دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ دوسری جماعتوں سے مقابلہ کرنے کی حکمت عملی تیار کرنے کے بجائے کانگریس کے قائدین آپس میں ٹکرا رہے ہیں۔ ایسے میں وہ عوامی مسائل کو حل کرانے کے لئے کیا کرسکتے ہیں جب گھر میں اپنے وجود کو منوانے کے لئے کانگریس قائدین زور آزمائی کررہے ہیں تو انھیں ہرانے کے لئے دشمن کی کیا ضرورت ہے وہ خود آپس میں لڑ کر بے بس ہوجائیں گے۔ کانگریس قائدین کی ان کمزوریوں کا مخالفین بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں یقینا اُٹھائیں گے جب بغیر کسی جنگ کے کامیابی حاصل ہورہی ہے تو بھلے کون اس کو گلے نہیں لگائے گا۔ مسلم تحفظات تلنگانہ میں بہت بڑا سیاسی مسئلہ ہے۔ ٹی آر ایس نے اپنے انتخابی منشور میں مسلمانوں کو ٹاملناڈو کے طرز پر 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ تاہم پہلے سدھیر کمیشن کے نام پر وقت ضائع کیا گیا پھر بی سی کمیشن تشکیل دیا گیا۔ سرمائی سیشن میں ہی چیف منسٹر کے سی آر نے اسمبلی میں قرارداد منظور کرتے ہوئے مرکز کو روانہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم وعدے کو پورا نہیں کیا۔ بجٹ سیشن میں قرارداد منظور کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا وہ بھی پورا نہیں کیا گیا۔ چیف منسٹر نے کہاکہ بی سی کمیشن ریاست کے دورے پر ہے اس کی رپورٹ وصول ہونے کے بعد 4 تا 5 دن میں اسمبلی کا خصوصی اجلاس طلب کرتے ہوئے مسلمانوں کو پسماندگی کی بنیاد پر موجودہ تحفظات میں مزید 5 تا 6 فیصد اضافہ کی قرارداد منظور کرتے ہوئے مرکز اور سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے گا۔ بجٹ سیشن ختم ہونے کے 5 تا 6 دن بعد مسلم تحفظات کے لئے حکومت کی سطح پر کوئی سرگرمیاں نظر نہیں آرہی ہیں۔ بی سی کمیشن نے ابھی تک چیف منسٹر کے سی آر کو رپورٹ پیش نہیں کی اور نہ ہی رپورٹ کا جائزہ لینے کے لئے چیف منسٹر نے کابینہ کا اجلاس طلب کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے مسلم تحفظات کے لئے ٹی آر ایس سنجیدہ نہیں ہے۔ اگر اسمبلی میں قرارداد منظور ہوتی ہے تو اس سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ہے کیوں کہ مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہے اور وہ کسی بھی صورت میں مسلمانوں کو تحفظات فراہم کرنے کے لئے دستور میں ترمیم نہیں کرے گی۔ چیف منسٹر قرارداد منظور کرتے ہوئے مسلمانوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ انھوں نے جو وعدہ کیا وہ پورا کیا۔ مرکزی حکومت مسلم تحفظات میں رکاوٹیں پیدا کررہی ہے۔ حکومت کا یہ استدلال مسلمانوں کے لئے قابل قبول نہیں ہوگا۔