مسلمان کی روز مرہ زندگیمسلمان کی روز مرہ زندگی

ڈاکٹر محمد حمید اللہ (پیرس)

اگر ایک مذہب کسی نسل کے لئے مخصوص اور ملک تک محدود نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے لئے ہے تو اس میں جنم لینے (شامل ہونے) کے دو راستے ہیں: (۱) رضاکارانہ (اختیاری) (۲) غیر ارادی۔ ایک بالغ شخص جب بقائمی ہوش و حواس، بغیر کسی جبر و اکراہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق: ’’زبان سے اعلان اور دل اس کی تصدیق‘‘ کے ذریعہ اسلام قبول کرے، طریقہ یہ ہے کہ پہلے وہ اچھی طرح غسل کرے، جو علامتی طورپر جسم کو جہالت، گمراہی اور کفر کی گندگی سے پاک کرنے کے لئے ہے۔ پھر وہ کم از کم دو گواہوں کی موجودگی میں کلمہ پڑھ کر اقرار کرے ’’اشھد ان لاالہ الااللّٰہ محمد رسول اللّٰہ‘‘ (میں اقرار کرتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی اور معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا کہ وہ اسلام قبول کرنے والے سے اس کا نام پوچھا کرتے تھے اور اگر اس کے نام میں کوئی مشرکانہ جزو شامل ہوتا تو اس کا نام تبدیل کرکے نیا معروف نام رکھ دیتے تھے۔ مثلاً اگر کسی کا نام عبد الکعبہ، عبد الشمس یا اسی طرح کا کوئی اور نام ہوتا تو اسے مکمل طورپر تبدیل کردیتے۔

عربی زبان ہر مسلمان کی روحانی مادری زبان ہے، اسے سیکھنا واجب ہے۔ کم از کم اس کے حرفوں کی شناخت تو ضرور ہونی چاہئے، تاکہ قرآن مجید کو اس کی اصل زبان میں پڑھ سکیں۔ شروع سے ہی دوسرے مذاہب سے دائرہ اسلام میں داخل ہونے والوں نے اس کو بڑی اہمیت دی ہے کہ انھوں نے اپنی مقامی زبانوں کے ساتھ ساتھ عربی کو بھی اپنایا ہے۔ اسی طرح فارسی، ترکی، اردو، ملائی، پشتو، کردش، اسپینش، لتھوانین، افریقی اور دیگر زبانیں بولنے والے مسلمان عربی رسم الخط ضرور سیکھتے ہیں۔ ہمارا پرزور مشورہ ہے کہ نومسلم حضرات ایک سماجی فریضہ کے طورپر عربی رسم الخط پر عبور حاصل کریں اور کم از کم جب کسی مسلمان کو اپنی مادری زبان میں خط لکھیں تو عربی رسم الخط استعمال کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب عربی کو تمام اعراب کے ساتھ لکھا جائے تو صحت معانی اور کسی ابہام سے پاک تلفظ ہونے کے حوالے سے کوئی دوسری زبان اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اس کی صوتی خوبصورتی اور اقتصادی فوائد کا تو شمار ہی کیا (یہ ایک طرح کی مختصر نویسی بھی ہے)

جب غیر عرب مسلمانوں نے اپنی زبانوں میں عربی رسم الخط اپنایا تو انھیں حروف تہجی اور اعراب میں کچھ اضافہ کرنے پڑے۔ یہ اضافے مختلف ملکوں اور ادوار میں مختلف رہے ہیں، کیونکہ اسلامی دنیا میں کوئی ایسا مرکزی علمی ادارہ نہیں، جو یکساں اصطلاحات وضع اور نافذ کرسکے۔ درحقیقت اس کی اشد ضرورت ہے کہ مسلم ممالک اور عربی رسم الخط استعمال کرنے والے غیر مسلم ممالک کا ایک عالمی اجلاس بلایا جائے،

تاکہ غیر عرب زبانوں اور ناموں کو عربی رسم الخط میں ڈھالنے کے لئے ایک عالمگیر نظام وضع کیا جاسکے اور مختلف زبانوں میں ایک ہی ’’غیر عرب صورت‘‘ کو ظاہر کرنے کے لئے عربی کی مختلف صورتیں استعمال کرنے سے بچا جاسکے، جیسا کہ اب معمول ہے۔ عربی حروف میں قدیم ترین اضافہ اہل فارس اور ترکوں نے کیا اور اعراب میں اضافہ اہل اسپین نے ’’الجمائدو‘‘ لوگوں کے لئے کیا۔ خود عربوں نے بھی دور حاضر میں غیر ملکی مقامات اور شخصیات کے درست تلفظ کو یقینی بنانے اور کسی حد تک لب و لہجہ کے فرق کو کم کرنے کے لئے بعض اضافے کئے ہیں۔ اس مقصد کے لئے بہترین اور غلطیوں سے پاک نظام وضع کرنے کی کوشش جو ہمارے علم میں ہے، وہ حیدرآباد دکن کی عثمانیہ یونیورسٹی نے کی تھی اور اس کا تجربہ اپنی بعض ضخیم کتابوں میں کیا ہے۔ یونیورسٹی نے کم و بیش بارہ نئی اور پرانی یورپی زبانوں کو عربی رسم الخط میں منتقل کیا۔ عربی رسم الخط میں منتقلی کے اس نظام کی تفصیلات Islamic Cultur نامی کتاب میں مل سکتی ہیں۔

عربی زبان کی معروف ۲۸ حروف تہجی ہیں، جو چاند کی گردش کی ۲۸ منزلوں کی طرح ہیں، مگر ان کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک ہزار حروف کے طورپر استعمال ہوسکتے ہیں۔ عربی رسم الخط دائیں سے بائیں لکھا جاتا ہے اور اعراب کا استعمال عموماً غیر عرب قاریوں کے لئے کیا جاتا ہے، کیونکہ عربی جن کی مادری زبان ہے، ان کے لئے اعراب لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔

اسی طرح جب ایک مسلمان گھرانے میں کسی بچے کی پیدائش ہوتی ہے، جب زچگی کی ضروری کارروائیاں مکمل ہو جاتی ہیں تو بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں تکبیر کہی جاتی ہے، یعنی بچے کے کان میں جو سب سے پہلی آواز پڑتی ہے، وہ اس کے عقیدے کی تصدیق اور اس کے خالق کی عبادت کے لئے بلاوا ہے۔ اسی طرح جو نوزائیدہ بچے کے بال پہلی بار مونڈے جاتے ہیں تو اس کے بالوں کے برابر چاندی یا مروجہ نرخوں کے مطابق اس کے برابر نقد روپئے غریبوں میں تقسیم کئے جانے چاہئے اور اگر کوئی وسائل رکھتا ہے تو ایک بکری یا بھیڑ ذبح کرکے غریبوں اور دوستوں کی ضیافت کرنا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، اس کو عقیقہ کہتے ہیں۔ ختنہ کے لئے کوئی عمر مقرر نہیں، تاہم ابتدائی عمر میں مسلمان بچے کا ختنہ کیا جاتا ہے۔ جو لوگ بالغ ہونے کے بعد مسلمان ہوں، ان کے لئے ختنہ کرانا ضروری نہیں۔

جب بچہ تعلیم کے حصول کی عمر کو پہنچتا ہے، جو عموماً چار سال کے بعد ہوتی ہے تو پہلا سبق لینے کے بعد اپنے اہل خاندان کے لئے ایک ضیافت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ برکت کے لئے قرآن کی سورہ ۹۶ کی پہلی پانچ آیات بچے کے سامنے تلاوت کی جاتی ہیں، جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب سے پہلے نازل ہوئی تھیں۔ بچے سے کہا جاتا ہے کہ وہ انھیں لفظ بہ لفظ دہرائے۔

جیسے ہی بچہ نماز پڑھنے کے قابل ہو جائے تو اسے نماز کی ادائیگی سکھائی جاتی ہے اور اس میں جو دعائیں پڑھنا ہوتی ہیں وہ اسے زبانی یاد کروائی جاتی ہیں۔ بچہ اور بچی کو ساتویں سال سے نماز کے لئے سخت پابندی کرائی جائے، تاکہ بچہ نماز کے عادی ہو جائیں۔ روزے بھی نماز کی طرح ہی فرض ہیں اور جب بچہ بلوغت کی عمر کو پہنچ جائے تو اس پر روزہ رکھنا فرض ہے، تاہم مسلم گھرانوں میں بچے اس سے پہلے ہی روزوں کے عادی ہو جاتے ہیں اور جس دن کوئی بچہ رمضان میں پہلا روزہ رکھتا ہے، وہ پورے خاندان کے لئے مسرت اور شادمانی کا ہوتا ہے۔ عموماً یہ بارہواں سال ہوتا ہے، جب کوئی بچہ پہلی بار روزہ رکھتا ہے اور عام طورپر پورے رمضان میں اسے ایک ہی روزہ رکھنے کی اجازت ہوتی ہے۔ اس طرح آئندہ رمضان المبارک میں اسے زیادہ اور پھر اس سے زیادہ حتی کہ وہ بتدریج روزے کی آزمائش برداشت کرنے کا عادی ہو جاتا ہے اور پورے مہینہ کے روزے رکھنے لگتا ہے۔ اس دوران وہ مکمل بالغ ہو چکا ہوتا ہے۔ (’’اسلام کیا ہے؟‘‘ سے اقتباس)