کرنول۔ یکم ؍ فبروری (سیاست ڈسٹرکٹ نیوز) نیوز ایڈیٹر روزنامہ سیاست جناب عامر علی خان نے مسلمانوں کو پہلے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے اور ہمدرد کے ساتھ ہمدرد بن کر پیٹھ میں خنجر گھونپنے والوں کو پہچانے کا مشورہ دیا اور کہا کہ تعلیم ہی ہماری زندگی میں انقلابی ترقی کو برپا کرسکتی ہے اور ہماری معیشت کو مستحکم کرنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ کرنول کے مسلمان ہراعتبار سے بہ شعور ہیں۔ صرف اتحاد وقت کا تقاضہ ہے۔ اگر مسلمانوں کے ساتھ اقلیتیں اور پسماندہ طبقات میں اتفاق پیدا ہوجاتا ہے تو ہر سیاسی طاقت ہمارے سامنے گھٹنے ٹیکنے اور ہمارے ایجنڈے کو اپنے اپنے انتخابی منشور میں شامل کرنے کیلئے مجبور ہوجائے گی۔ سیاسی جماعتیں عین انتخابات سے قبل مسلمانوں اور اقلیتوں کو سبز خواب دکھاتے ہوئے انہیں گمراہ کررہی ہیں۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلمان متحد ہوئے ہیں۔ ہر سیاسی جماعت نے اب تک اقلیتوں کے جذبات کا استحصال کیا ہے اور ہمیں صرف ووٹ بنک کی طرح استعمال کیا ہے۔ حکومت نے اقلیتی بجٹ کو 1027 کروڑ روپئے تو کردیا ہے،
مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے تاحال صرف 400 کروڑ روپئے خرچ کئے گئے ہیں ماباقی 600 کروڑ روپئے سرکاری خزانے میں واپس ہونے کے خدشات ہیں۔ سیاسی جماعتیں مسلمانوں کے ووٹوں کو استعمال کرنا چاہتے ہیں مگر ان کی ترقی اور بہبود کیلئے کوئی سنجیدہ نہیں ہے۔ سب سے بڑی بدبختی کی بات یہ ہیکہ مسلمانوں کو اپنی طاقت کا اندازہ نہیں ہے۔ اس لئے وہ مسلمانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ پہلے وہ صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور اپنی تحریک میں پسماندہ طبقات کو بھی شامل کریں۔ جناب عامر علی خان نے کہا کہ حق مانگنے سے نہیں ملتا بلکہ جمہوریت میں اس کو چھین لینا پڑتا ہے۔ چھیننے کیلئے مسلمانوں میں اتحاد چاہئے۔ مرکزی حکومت نے اقلیتوں کی ترقی کیلئے 2000 کروڑ روپئے کا بجٹ مختص کیا ہے، جس میں صرف 800 کروڑ روپئے خرچ کئے گئے ہیں جبکہ ایس سی، ایس ٹی طبقات کی ترقی کیلئے 20 ہزار کروڑ روپئے مختص کیا گیا ہے مگر خرچ 28 ہزار کروڑ روپئے کئے گئے۔ ریاستی حکومت نے 4 فیصد مسلم تحفظات فراہم کیا ہے مگر ہم اس سے مکمل استفادہ کرنے میں ناکام ہیں۔
آج مسلمانوں کی حالت زار یہ ہے کہ غیر مسلم عوامی نمائندے مجاہد آزادی و ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کی برسی کے موقع پر اپنے خطاب سے عین قبل مسلم لیڈران سے پوچھتے ہیں کہ مجاہد آزادی کا نام ابولکلام ہے یا عبدالکلام؟ جن لیڈرس کو مسلم مجاہد آزادی و آزاد بھارت کے اولین وزیر تعلیم کا صحیح نام معلوم نہ ہو وہ مسلمانوں کی کیا خاک فلاح و بہبودی انجام دینگے۔ان خیا لات کا اظہار مولانا مفتی شیخ محمد الیاس قاسمی بانی و ناظم الکلیۃ العربیہ لبنات الایمان نیلور و نائب امام و خطیب جامعہ مسجد امیر سلطان الخبر سعودی عرب نے شہر کرنول کے منسپل ہائی اسکول گرائونڈ میں منعقدہ ایک عظیم الشان اجلاس عام بعنوان "مسلمانوں کی سیاسی گرج ” سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ حق لینے اور دینے کی بات چل رہی ہے میرا سوال یہ ہے کہ ہم حق لینے کے حق دار ہیں یا نہیں ۔بیشک ہم سب پہلے حقدار ہیں ،کیونکہ انگریزوں کے خلاف ہمارے ہزاروں علماء،قائدین اور حکمرانوں نے ملک کی آزادی میں اپنی جان ،مال،اولاد ،بیوی اور بچوں کی قربانی دی ہے۔مولانا ابولکلام آزاد نے نو مرتبہ تیرہ برس کا عرصہ قید خانے کی کالی کوٹھڑیوں میں ملک کی آزادی کے لئے گذار دی ۔انہوں نے کہا کہ آزادیِ ملک کے لئے کسی ریڈی،نائیڈو،یادو وغیرہ کا خون نہیں بہا ہے اگر خون بہا ہے تو مسلمانوں کا بہا ہے،لہٰذا ہمیں اپنا پورا حق لینے کا حق ہے اور اب مسلمان جاگ چکا ہے ،مسلمانوں کی بیداری کی وجہ سے تمام سیاسی پارٹیوں میں زبردست کھل بلی مچی ہوئی ہے۔ان تمام پارٹیوں کو چاہئے کہ سابقہ غلطیوں سے باز آکر 2014 کے عام انتخابات میں مسلمانوں کو آبادی کے لحاذ سے سیٹیں مختص کریں ورنہ انہیں سبق سکھایا جائے گا۔رئیتو سنگم کے ریاستی صدر اے پی رامیاّ یادو نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہر پارٹی ایک طبقہ کو اس طبقہ کے شعبہ کا نام دے کر تمام طبقات میںاتحاد نا ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور ان طبقات کو صرف ووٹ بینک کی طرح استعمال کر رہے ہیں اور انتخابات کے وقت کروڑوں روپئے ٹکٹ کے عوض پارٹی فنڈ کے نام پر مطالبہ کرتے ہیں اور پارٹیوں کی باگ ڈور صرف دو فیصد آبادی والے طبقے کے ہاتھ میں ہیں اور یہی طبقہ تمام طبقات پر حکمرانی کا حق جتاتا ہے لہٰذا اس طبقہ کی بالا تری کو ختم کرنے کے لئے مسلمان ایس سی ایس ٹی بی سی اور عیسائیوں کا اتحاد ضروری ہے۔بی سی سنگم کے ریاستی قائید جی راما کرشنا نے کہا کہ تمام طبقات بشمول مسلمانوں کے ہر پارٹی سے وابستہ ہیں اور ان تمام طبقات کو صرف اس بنیاد پر نقصان اُٹھانا پڑ رہا ہے کہ ان کے نام کے آگے ریڈی لگا ہوا نہیں ہے۔مولانا مخر الدین ندوی نے کہا کہ قرآن مجید ہمیں اتحاد کی دعوت دیتے ہوئے کہتا ہے
کہ اللہ کی رسّی کو مضبوتی سے تھام لو ۔انہوں نے کہا کہ رسی کے دو سرے ہوتے ہیں ایک ہماری ہاتھ میں تو دوسرا مخالفین کے ہاتھ میں ہو تا ہے،اگر ہم رسی کو مضبوتی کے ساتھ تھام کر زور لگائیں گے تو یقیناً کامیابی قدمبوس ہو گی اور اللہ نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر تم اختلاف کر بیٹھو تو دشمن تم پر غالب آجائے گا اور تمہاری ہوا اکھیڑ دی جائے گی۔مولوی محمد یوسف باقوی ریاستی خازن ایس ڈی پی آئی نے کہا کہ ہمیشہ تمام پارٹیوں نے مسلمان اور دیگر طبقات کا بانٹ کر اُن کے اتحاد کو توڑ تی آئی ہے اور اس اختلاف کی وجہ سے خود حکمرانی کے تخت و تاج پر قبضہ کی ہوئی ہے۔ڈاکٹر سبرامنیم نے کہا کہ آزادیِ ملک کے بعد سے اب تک 60؍ہزار فرقہ وارآنہ فسادات کرائے گئے ،ہزاروں کمزوروں اورمسلمانوں کا قتل عام کیا گیااور ہر بم دھماکہ کے آدھے گھنٹے کے اندر مسلمانوں کو میڈیا کے ذریعہ ذمہ دار ٹھرایا جاتا ہے،نوکر شاہوں ، پولیس اور سیاسی لیڈرس نے مسلمانوں کی حالت اتنی بری کر دی ہے کہ انہیں کرایہ پر مکانات بھی نہیں دئے جا رہے ہیں ۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ مسلمان صرف عہدوں کا مطالبہ نہ کریں بلکہ اختیارات کا مطالبہ کریں ،بغیر اختیارات کا عہدہ ایسا ہی ہے جیسے بنا بجلی کے وائر ۔شیش پانی ایس سی لیڈر نے کہا کہ مسلمانوں کے ساتھ ہو رہی نا انصافی کے خلاف ہم قدم سے قدم ملا کر مسلمانوں کو انصاف دلانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے،لہٰذا اب وقت آ چکا ہے کہ ایس سی ایس ٹی بی سی عیسائی اورمسلمان آپسی اتحاد کے ذریعہ ایک پلیٹ فارم پر آجائیں ۔مسٹر افتخار احمد ایڈوکیٹ ریاستی صدر مسلم ریزر ویشن فرنٹ نے کہا کہ مسلمانوں کے ساتھ لفظ اقلیت کو ختم کر دیا جائے ،کیونکہ اس لفظ سے احساس کمتری کی بو آتی ہے،مسلمان اقلیت نہیں بلکہ ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت ہے اور وہ لوگ کیسے اکثریت میں ہو سکتے ہیں؟ کیا انہیں دستور ہند میں دو ووٹ کا حق اور مسلمانوں کو ایک ووٹ کا حق دیا گیا ہے۔
اگر ایسا نہیں تو پھر اقلیت اور اکثریت کا مسٗلہ کیسا ہے۔انہوں نے مسلمانوں کو آواز دی کہ دلت طبقات کے ساتھ ملکر عنقریب ہو نے والی جنگ(انتخابات)میں ووٹ کی ہتھیار کے ذریعہ شامل ہو کر دھوکہ بازوں اور فرقہ پرستوں کو میدان کار زار میں شکست و حزیمت سے دو چار کریں۔جناب محمد رفیق مسلم یونائیٹیڈ فورم نیلور نے کہا کہ رائلسیما میں 35لاکھ مسلمان آباد ہیں اور اس لحاظ سے 20؍مسلم اراکین اسمبلی اور 4؍ اراکین پارلمنٹ منتخب کئے جا سکتے ہیں۔اس جلسہ کے انعقاد میں باقاعدہ علماء اکرام مولانا سید سلیمان ندی امام و خطیب پولیس لائین مسجد، حافظ عبدلغنی عمری نائب ناظم صوبائی و ناظم ضلعی جمیعت اہلحدیث،مولانا زبیر احمد خان رشادی،حافظ منظور احمد،جناب الیاس سیٹھ سابق صدر ریاستی وقف بورڈ،برادر سجادہ نشین درگاہ حضرت عبداللطیف لا اُبالیؒ جناب سید شفیع پاشا ہ قادری،کالم نگار ماہ نامہ بزم آئینہ ناصر حسین ،عبدالحفیظ خان ضلع کنوینر مینارٹی سل وائی ایس آر سی پی،عبدالمعز خان چیرمن عبدالحفیظ خان میموریل ٹرسٹ،عبدالرزاق قائد وائی ایس آر سی پی،سید غوث صدر نوبل سرویسس،احمد علی خان ایم ایس اے موٹرس، ایوب علی خان اسٹار موٹرس،جمشید میٹرو مارکٹنگ،عبدالماجد یونک اسکول،حافظ سید سہیل قادری گیتانجلی جیولرس،حافظ سید ذاکر احمد رشادی امام و خطیب مسجد خوبصورت بڑے صاحب اور دیگر افراد نے کئی مرتبہ مشاورتی اجلاس منعقد کر کے جلسہ عام کا ترتیب دیا۔جلسہ کا آغاز قرات کلام پاک سے ہوا اور ایک طالب علم نے نعت شریف پیش کی اور دوران جلسہ عبدالغفار عمری ایڈیٹر ماہ نامہ ضیائے ہند نے حالات حاضرہ پر ایک شاندار نظم پیش کی۔نظامت کے فرائض حافظ عبدالغنی عمری نے انجام دئے اور صدارتی کلیمات سید ذاکر احمد رشادی نے پیش کئے۔جلسہ کا اختتام مولانا ڈٖی عبدالحکیم عمری امیر شہری جمیعت اہلحدیث کی دعا پر ہوا۔واضح ہو کہ کرنول کی تاریخ میں مسلمانوں کے کسی پروگرام کے کوریج کے لئے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے نمائندے شریک رہے۔اور دس ہزار سے زائد عوام اس جلسے میں شریک تھے۔