مسلمانو ں کے بعد اب پسماندہ طبقات اور قبائیلی بھی یونیفارم سیول کوڈ کی مخالفت میں اگے ائے

نئی دہلی: مسلمانوں کے بعد اب ایس سی ‘ اور ایس ٹی کے بشمول لنگایت‘ بدھسٹ اور دیگر پسماندہ طبقات کی تنظیمیںیونیفارم سیول کوڈ کی مخالفت میں یوسی سی کو دستور ہند کے مطابق فراہم کردہ بنیادی حقوق پر کارضرب قراردیتے ہوئے یونیفارم سیول کوڈ کے نفاذ کی کوشش کو مذکورہ طبقات کی ہندوشناخت کوختم کرنے کی سازش قراردیا اور سختی کے ساتھ مخالفت کا اعلان کیا۔

جمعرات کے روزایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دلت ‘ قبائیلی‘ بدھسٹ نے ایک ساتھ حکومت کے اس اقدام کی مذمت کی۔انہوں نے مودی حکومت کے اس اقدام کو یوپی انتخابات سے قبل کا انتخابی حربہ بھی قراردیا۔

مذکورہ قائدین نے مزیدکہاکہ یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے اس سے سینکڑوں دیگر طبقات بھی متاثر ہونگے جو ملک کے مختلف خطوں میں رہتے ہیں جن کے لئے برہمن نظریہ والا ہندو مذہب قابل قبول نہیں ہے۔

نیشنل کوارڈینٹر راشٹرایہ ادیوسی ایکتا پریشد نے کہاکہ قبائیلی طبقات کی اپنی تہذیب اور شناخت ہے جس کے لئے یوسی سی ایک سنگین خطرہ ہے۔حالیہ مردہ شماری کے مطابق قبائیلوں کو ہندوقراردئے جانے کے متعلق پوچھے گئے سوال کاجواب دیتے ہوئے گڈم نے کہاکہ قبائیلی ہندو نہیں ہیں۔انہوں نے مزیدکہاکہ ہمارا ہندوزم سے کچھ لینا دینا نہیں ہے ۔

انہوں نے کہاکہ مردم شماری میں قبائیلوں کو ہندوبتاکر ہمیں نذر انداز کرنے کاکام کیاگیا ہے ۔ انہوں نے ارٹیکل 342اور244کے حوالے سے بات کہی۔انہوں ن ے 2001میں مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کی جانب سے سنائے گئے فیصلے کا بھی اس موقع پر حوالے دیا جس میں قبائیلوں کو ہندوماننے سے انکار کیاگیا ہے۔

انہوں نے انتباہ دیتے ہوئے کہاکہ اس ملک میں چھ ہزار سے زائد مختلف نظریات کے حامل طبقات ہیں اگر جبری طور سے یہاں پر یونیفارم سیول کوڈ کانفاذ عمل میں لانے کی کوشش کی گئی تو یہ اقدام یقیناًقومی سالمیت اور اتحاد کے لئے نقصاندہ ثابت ہوگا۔

اپنے خیالات کے اظہار میں ندھسٹ انٹرنیشنل سنٹر کے پروفیسر بابا ہستے نے بھی یونیفارم سیول کوڈ کو ملک کے لئے نقصاندہ قراردیا جبکہ بدھسٹ مانک پروفیسر بھنٹے سمیاک راکشت نے یوسی سی کے متعلق کہاکہ مذکورہ قانون ہندوستان میں تمام مذاہب کی شناخت کو ختم کردے گا۔انہوں نے مزیدکہاکہ یونیفارم سیول کوڈصرف مسلمانو ں کومسلئے نہیں ہے

انہوں نے مزیدکہاکہ یونیفارم سیول کوڈ کے نفاذ کے لئے یہ طبقہ واری نظام کو رائج کرنے کے لئے رچی گئی ایک سازش ہے ۔مسلسل نقل مقام کرنے والے قبائیلی طبقات کے نمائندے انل کمار مانے کہاکہ اگر مودی حکومت یونیفارم سیول کوڈ نافذ کرنے کی کوشش کرتی ہے تو ہم اس کی سختی کے ساتھ مخالفت کریں گے۔

انہو ں نے مزیدکہاکہ یوپی انتخابات سے قبل یہ ایک سیاسی چال ہے ۔ دیگر پسماندہ طبقات کی نمائندہ شخصیت کمار کالے نے مرکزی حکومت کو عوام کے بنیادی اور جمہوری حقوق میں مداخلت سے باز رہنے پر زوردیا۔انہوں نے مزیدکہاکہ حکومت کوعوام کے بنیادی حقوق میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے۔انہو ں نے حکومت پر عوام کی فلاح وبہبود میں ناکامی کی پردہ پوشی کرتے ہوئے یوسی سی کے ذریعہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی کوشش قراردیا۔
صدر اتحاد ملت کانفرنس مولانا توقیر رضاخان تین طلاق کے مسلئے پر حکومت یوسی سی کو نافذ کرنے کی کوشش کررہی ہے جو ملک کی صورتحال کو خراب کرنے کی وجہہ بن سکتا ہے۔اسی دوران مسلم پرسنل لاء بورڈ کی عاملہ کے رکن کمال فاروقی نے کہاکہ یونیفارم سیول کوڈ صر ف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے اس سے ان تمام مذہب او رطبقات متاثر ہونگے جو دستور کے مطابق اپنی مذہبی شناخت کوفروغ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔

انہوں نے اس موقع پر ایک مشترکہ پریس نوٹ کی بھی اجرائی عمل میں لائی جس کے مطابق یونیفارم سیول کوڈ کے متعلق این ڈی اے حکومت کا حالیہ اقدام 2014کے انتخابی منشور پر عمل آواری کاحصہ ہے جو سینکڑوں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے بنیادی حقوق کی بات ہی نہیں بلکہ ان کی مذہبی شناخت کے لئے بھی خطرہ ہے جو ملک میں رہتے ہیں اور نرہمن نظریہ والے ہندومذہب پر جن کا یقین نہیں ہے ۔

تین طلاق کے مسلئے پر سپریم کورٹ کے متعلق جواز طلب کرنے کی غرض سے کاروائی کو اگے بڑھایا ۔درایں اثناء مرکزی حکومت نے لاء کمیشن کو سرگرم کیا۔ کمیشن سے اس ضمن میں ایک سوالنامہ اس طرح تیار کیاکہ جس سے جان بوجھ کر پچھلے راستے سے یونیفارم سیول کوڈکا نفاذ عمل میں آسکے۔پریس نوٹ کے مطابق ایس سی ‘ ایس ٹی‘ لنگایت ‘ بدھسٹ او ردیگر پسماندہ طبقات کے تمام گروپس حکومت کے یوسی سی اقدام پر سختی کے ساتھ مذمت کرتے ہیں اور سپریم کورٹ کی جانب سے اختیار کئے گئے سومٹو اقدام کے تحت مذہبی آزادی اور بنیادی حقوق میں مداخلت کے اقدامات کو نامنظور کرتے ہیں۔ ہم ملک کی نوٹس میں یہ بات بھی لانا چاہتے ہیں کہ یہ ہدایت پر بنائے گئے اصولوں اور بنیادی حقوق کے درمیان میں بڑا تصادم ہے۔ان میں سے چند گروپس کو غلطی کے ساتھ ہندوقراردیا ہے جوبرہمنیکل ہندونظریات کے عین خلاف ہیں۔حکومت کا یہ اقدام قومی سالمیت اور روادری کے لئے ٹھیک نہیں ہے اور اس سے قومی اتحاد کو شدید نقصان ہوسکتا ہے 2015سے ہم بھی سپریم کورٹ کے ذاتی طور پر داخل کردہ رٹ پٹیشن کے ہم بھی ایک پارٹی ہیں۔ دستور ہند کے مطابق جوسہولتیں او ر مرعات ہمیں فراہم کی گی ہیں ان کوبرقرار رکھنے کے لئے ہرممکن اقدام اٹھایاجائے گااس کے علاوہ عدالت کے باہر جمہوری اقدار پر بھی اس یوسی سی کے خلاف عوامی تحریک چلائیں گے۔او رہمیں امید ہے کہ حکومت اس ضمن میں سپریم کورٹ میں داخل کئے گئے اپنے حلف نامے کو واپس بھی لے گی

بشکریہ
ایم ایم