مسلمانوں کے خون کے دھبہ میرے دامن پر لگے ہیں : سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید

علی گڑھ : علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلبہ کے سوالوں سے کانگریس کے سینئر لیڈر سلمان خورشید گھبراگئے۔طلبہ نے میرٹھ ملیانہ وغیرہ میں مسلمانوں کے قتل عام پر سوال کئے ۔سابق وزیر سوالوں کے جوابوں سے دامن بچاتے رہے ؔ آخر میں کہہ دیا ہے کہ کانگریس لیڈر ہونے کے رشتے سے مسلمانوں کے خون کے دھبہ میرے دامن پر ہیں۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے امبیڈکر ہال میں بطور مہمان سابق مرکزی وزیر او رکانگریس کے سینئر لیڈرسلمان خورشید شریک ہوئے۔سلمان خورشید نے اپنے خطاب میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اپنے دیرینے رشتہ یاد کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پیدائش وی سی لاج میں ہوئی ۔علی گڑھ میں ان کی تربیت نہ ہونے کا افسوس ہے۔

طلبہ نے سلمان خورشید کا خطاب ختم ہوتے ہی سوالات شروع کردئے۔طالبعلم عامر منٹو نے سوال کیا کہ ۱۹۴۷ء میں ملک کی آزادی کے بعد ۱۹۴۸ ء میں اے ایم یوایکٹ میں ترمیم ہوئی ۔۱۹۵۰ء میں پرسیڈنشیل آرڈر جس میں مسلم دلتوں پیشہ ایس ٹی ایس سی سے ریزروریشن کے حق سے محروم کردیا گیا ۔

کانگریس کے دور میں ہاشم پورہ ، ملیانہ ، میرٹھ ،مظفر نگر ، مراد آباد،بھاگلپور ، علی گڑھ وغیرہ مسلمانوں کے قتل عام ، بابری مسجد دروازہ کا کھلنا،بابری مسجد کو متنازعہ بنانا اور پھر بابری مسجد کانگریس کے دور میں شہید ہونا جیسے سبھی واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے پوچھا کہ مسلمانوں کے حقوق پرشب خون مارنے اور مسلمانوں کے خون کے کو دھبہ کانگریس کے دامن پر ہیں ان کو آپ کس الفاظ میں دھونا چاہتے ہیں؟

عامر منٹو کے اس سوال پر کانگریس لیڈر بری طرح بوکھلا گئے ، اور جواب میں کہنے لگے کہ مسلمانوں کے خون کے دھبہ میرے دامن پر لگے ہیں۔انھوں نے تین طلاق کے بارے میں بات خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قانون سے وابستہ لوگوں اور سماج کے تعلیم یافتہ طبقہ کو سپریم کورٹ کے تین طلاق والے فیصلہ کو صحیح سے سمجھنا ضروری ہے۔

انھوں نے کہا کہ جیسے دیگر اسلامی ممالک میں ایک ساتھ تین طلاق کو ایک طلاق مانا جاتا ہے اسی طرح ہندوستان میں بھی ایک مانا جائے ۔

لیکن سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں واضح نہیں کیا ہے کہ تین طلاق کو کس درجہ میں رکھا جا ئے گا۔مسٹر خورشید نے کہا کہ موجودہ حکومت کے فیصلہ کے حساب سے تین طلاق ناجائزہے اور جب کوئی چیز نا جائز ہے تب اس کے لئے سزا کس بات کی ہوسکتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ آدمی اور عورت آرٹیکل ۱۴؍ کے تحت برابر ہیں لیکن الگ طرح سے جیسے شادی میں ایک آدمی عورت کو مہر دیتا ہے اس پر لڑکی چاہے تو انکار کرسکتی ہے۔جب کہ مرد کو انکار کا حق نہیں ہے۔