مسلمانوں کی کامیابی کیلئے علم و ہنر ضروری

ظفر آغا

تعلیم قوموں کی قسمت کی کنجی ہوتی ہے، جو قوم جس قدر تعلیم یافتہ ہوگی وہ قوم اتنی ہی ترقی یافتہ ہوگی۔ مغرب کی ترقی کا راز یہی ہے کہ وہ جدید طرزِ تعلیم کے موجد ہیں اور اس پر دنیا کی تمام اقوام کے مقابلے سب سے زیادہ گرفت بھی رکھتے ہیں۔ وہ مسلمان جو کبھی مغرب کی طرح گلوبل پاور ہوتا تھا وہ دورِ حاضر میں دنیا کی سب سے پسماندہ قوم ہے کیونکہ وہ جدید تعلیم میں سب سے پیچھے ہے۔ لیکن ہندوستانی مسلمانوں نے اس سلسلہ میں کچھ بہتر نتائج پیش کئے ہیں۔ پچھلے ہفتہ میں نے اپنے کالم میں ہندوستان کی تازہ ترین مردم شماری کے اعداد و شمار کی بنیاد پر یہ رقم کیا تھا کہ ہندوستانی مسلمانوں میں پرائمری تعلیم کا رجحان اب 60 فیصد سے زیادہ بڑھ چکا ہے جو ہندو اوسط کے برابر ہے اور مسلم لڑکیوں کا تعلیمی اوسط لڑکوں سے بھی بہتر ہے۔

ہندوستانی مسلمانوں میں یہ ایک نمایاں اور ترقی پسند تبدیلی ہے۔ کم از کم ہمارے بچے پرائمری سطح تک بڑی تعداد میں اسکول جارہے ہیں۔ لیکن ابھی بھی تقریباً 40 فیصد مسلم بچے اسکول تک بھی پہنچ نہیں رہے ہیں یہ ایک بدقسمتی ہے۔ لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ قوم میں یہ احساس ضرور پیدا ہوا ہے کہ ہم جدید تعلیمی پسماندگی کے سبب پچھڑ گئے۔ اسی احساس کی بناء پر مسلمانوں میں تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ پیدا ہوا ہے مگر یہ عمل مسلمانوں میں خود اپنے تئیں ہوا ہے۔ یہ تبدیلی کسی قائد یا کسی تحریک کی مرہون منت نہیں ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں میں کم از کم اس ملک میں جو غیر شعوری یا غیرمنظم مثبت تبدیلی پیدا ہوئی ہے اس کو ایک منظم شکل دی جائے تاکہ مسلمانوں میں شعوری طور پر تعلیم کی اہمیت کا احساس اور اس کو حاصل کرنے کا جذبہ پیدا ہوسکے۔ یہ بھلا کیونکر ممکن ہوگا ۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ ہندوستانی مسلمانوں میں باقاعدہ انیسویں صدی کے آخری دور میں ہی عصری تعلیم حاصل کرنے کے سلسلہ میں ایک بہت بڑی تحریک شروع ہوئی تھی۔ کون ہے جو اس سلسلہ میں سرسید احمد خاں سے واقف نہیں۔ آج تک جب بھی مسلمانوں میں عصری تعلیم کا ذکر آتا ہے تب تب سرسید احمد خاں کی تحریک کا ذکر آتا ہے۔ یہ سرسید احمد خاں کا کمال ہی تھا کہ انہوں نے انگریزوں کے عروج کے بعد مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ خیال پیدا کیا کہ دور حاضر میں ترقی کیلئے انگریزی تعلیم لازمی ہے اور اس کا نتیجہ یہ تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور پھر جگہ جگہ اسکول اور مسلم کالج کھولے۔ پھر اسی علی گڑھ تحریک نے اس ملک میں تعلیم نسواں تحریک کی بھی داغ بیل ڈالی جس کے نتیجہ میں گرلز اسکولس اور کالجس کھولے گئے۔ لیکن 1930 سے پاکستان تحریک نے زور پکڑا اور برصغیر میں مسلمانوں کا رجحان تعلیم سے ہٹ کر قیام پاکستان کی طرف ہوگیا۔ پھر آزادی کے بعد فسادات کی مار نے مسلمانوں کو تحفظ کے مسئلہ میں ایسا  قہر کیا کہ وہ اور کچھ سوچنے کے لائق ہی نہیں رہا۔

کسی بھی قوم کی ترقی کیلئے مختلف سطح پر ہمہ جہت کوشش کرنی ہوتی ہے اس لئے اب تحفظ کے ساتھ ساتھ تعلیم کے میدان میں بھی بھرپور کوشش ہونی چاہیئے۔ مگر یہ تب ہی ممکن ہے کہ کہ جب سرسید تحریک جیسی کوئی دوسری تحریک ہو جو منظم طریقہ سے مسلمانوں میں حصول علم کا جذبہ پیدا کرے۔ لیکن اب محض دوسری سرسید تحریک سے کام چلنے والا نہیں ہے۔ سرسید کے دور سے اب تک سو برس سے بھی زیادہ عرصہ گذر چکا ہے۔ تعلیمی میدان اور تعلیم کے ذریعہ حاصل کرنے والے روزگارک کے  تقاضوں میں بہت فرق آچکا ہے۔ سرسید کے دور میں محض انگریزی سیکھ لینا اور بی اے یا ایم اے کی ڈگری حاصل کرلینا اچھے سے اچھے روزگار حاصل کرنے کیلئے کافی تھا۔ لیکن اب محض انگریزی بولنا یا لکھنا یا پھر بی اے ، ایم اے کی ڈگری لئے کروڑوں افراد پھرر ہے ہیں مگر انہیں کہیں روزگار میسر نہیں ہورہا ہے۔ اس منظر میں مسلمانوں میں حصول تعلیم کے لئے ایک نئے ویژن کی بھی ضرورت ہے۔ راقم اس سلسلہ میں کچھ نکات پیش کرنا چاہتا ہے جو تحریک تعلیم کے لئے کارگر ثابت ہوسکتے ہیں۔

اکیسویں صدی یعنی جس دور میں ہم جی رہے ہیں اور آگے آنے والے وقتوں میں بھی تعلیم کا پورا نظریہ بدل چکا ہے۔ سرسید کے دور میں تعلیم برائے حصول علم ہوا کرتی تھی۔ یعنی پہلے دنیا میں عالم کی قد ہوتی تھی ایک ماہر ادب یا ماہر معاشیات یا تاریخ داں یا کسی بھی شعبہ کا عالم بڑی شئے ہوتا تھا۔ تب ہی تو معاشرہ میں استاد یا پروفیسر کی عزت سب سے زیادہ ہوتی تھی۔لیکن آپ بہت بڑے ماہر غالبیات یا ادب ہوں گے لیکن میدان روزگار میں آپ کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ یہ بازار کا دور ہے اور روزگار بازار ہی طئے کرتا ہے اور بازار کو کسی کے علم سے دلچسپی نہیں بلکہ اپنے منافع سے دلچسپی ہوتی ہے۔اس اعتبار سے آج کا تعلیمی نظریہ بھی بالکل بدل چکا ہے۔ چنانچہ اگر کسی قوم کو کوئی تعلیمی تحریک شر وع کرنی ہوگی تو اس کے ویژن کے لئے روزگار کے بازار کے نکات کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔ اس پس منظر میں حسب ذیل چند نکات پیش کئے جاتے ہیں۔
(سرسید کے دور سے اب تک جو بات ابھی بھی لازمی ہے وہ یہ ہے کہ انگریزی کی تعلیم ترقی کے لئے لازمی ہے۔ چنانچہ تحریک تعلیم میں اولاً انگریزی سیکھنے کو اہمیت دینا ضرور ی ہے۔

اس دور میں اور اب ہمیشہ اگر کسی کو کمپیوٹر نہیں آتا ہو تو وہ کتنا ہی بڑا عالم کیوں نہ ہو بازار میں وہ کسی بھی قسم کے روزگار کے لائق نہیں مانا جائے گا۔ اس لئے مسلمانوں میں کمپیوٹر تعلیم کا مناسب انتظام ہونا چاہیئے۔
جیسا عرض کیا کہ اب ایک ایم اے اور بی اے کی ڈگری سے زیادہ اہم کسی ہنر کی ڈگری ہے۔ یعنی اگر آپ اردو ادب میں ایم اے کی ڈگری رکھتے ہیں تو آپ کو روزگار اتنی جلدی نہیں ملے گا جتنی جلدی ایک ہنر کی ڈگری رکھنے والے کو روزگار میسر ہوگا۔
یعنی مسلمانوں کو ہنر کی ڈگری حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ یوں  مسلمانوں میں ہنر کی کمی نہیں ہے اس پر اگر وہ کسی ہنر مثلاً آئی ٹی آئی کی ڈگری  حاصل کرلیں تو بازار میں اس کی قدر و قیمت بہت بڑھ جائے گی۔ اس سلسلہ میں حکومت کی اِسکل ڈیولپمنٹ بورڈ کی ڈگری بھی بہت کارگر ثابت ہوگی۔
الغرض ! مسلمانوں کیلئے سرسید تعلیمی تحریک جیسی ایک اور نئی تحریک کی ضرورت ہے، اس تحریک میں حسب بالا نکات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اگر ایسی کوئی کارگر تحریک چل پڑی تو  مسلمانوں کے پاس تعلیم کی کنجی پھر ہوگی اور پھر ظاہر ہے کہ تب کامیابی ان کے قدم بھی چومے گی۔